30 کلومیٹر طویل مجوزہ بفرزون: صدر اُردوغان شمالی شام کے کُرد گروہوں سے نمٹنے کے کس منصوبے پر کام کر رہے ہیں؟

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے حکومت کے قریب سمجھا جانے والا ترک میڈیا اردوغان حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھائیں اور شام میں ترکی کے بڑھتے اثر و رسوخ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں۔
تصویر
Getty Images

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے ڈرامائی خاتمے کے بعد آج کل ترک حکام اور میڈیا کی توجہ شمالی شام پر مرکوز ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ شمالی شام میں اُن کرد تنظیموں کا کنٹرول ہے جنھیں ترکی اپنے لیے خطرے کی علامت قرار دیتا ہے۔

شام پر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد سے ترکی کی جانب سے شمالی شام میں موجود ایسے گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ شمالی شام کے یہ کُرد گروہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ یا منسلک ہیں۔

کردستان ورکرز پارٹی کی پوزیشن شمالی شام میں مضبوط ہے اور یہ تنظیم شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو ملا کر ایک علیحدہ کُرد ملک قائم کرنا چاہتی ہے۔

حالیہ دنوں میں ترک صدر طیب اردوغان نے شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے تاہم شمالی شام کے کُرد گروہوں کے حوالے سے اُن کا مؤقف سخت رہا ہے۔ ترکی میں حکومت کے حامی میڈیا نے اس معاملے پر زیادہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے حکومت کے قریب سمجھا جانے والا ترک میڈیا اردوغان حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھائیں اور شام میں ترکی کے بڑھتے اثر و رسوخ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں۔

ترکی کے ماہرین اب شام کی عبوری حکومت اور ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی (ایس این اے) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شمالی شام کے اِن علاقوں کو آزاد کروائیں جہاں کُردوں کا غلبہ ہے۔ ان علاقوں میں کوبانی (عین العرب)، قمشلی اور رقہ جیسے شہر ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی کرد فورسز کے زیر قبضہ شامی علاقوں اور اپنی جنوبی سرحد کے ساتھ 30 کلومیٹر طویل بفر زون بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ رہا ہے۔ بفر زون بنانے کا یہ ترکی کا بہت پرانا منصوبہ ہے۔

کیا ترک فوج شمالی شام میں داخل ہو گی؟

ترکی
Getty Images

ترک حکام نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے قبل ہی شمالی شام میں فوجی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔

نومبر 2024 کے وسط میں صدر اردوغان نے شام کے شہر ’قمشلی‘ میں ممکنہ ترک آپریشن کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم قمشلی میں اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ضروری اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ہم وہاں دہشت گرد تنظیموں کو جڑ سے ختم کر سکیں۔‘

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی نے کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) سے شمالی شام کے ’منبج‘ اور ’تل رفعت‘ کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

ترک میڈیا کے مطابق اب دوسرے علاقوں سے بھی کرد جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔

ترک میڈیا رپورٹس نے خاص طور پر کوبانی پر توجہ مرکوز کی ہے جو ترکی کی سرحد پر واقع شام کا شہر ہے۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہاں کرد گروہوں کی جاری سرگرمیاں زمینی آپریشن کی اشد ضرورت کا تقاضہ کرتی ہیں۔

کوبانی شہر ترکی کی اندرونی سیاست کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ سنہ 2014 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کی جانب سے اس شہر پر قبضے کے خدشات نے ترکی کے لوگوں میں بے چینی پیدا کر دی تھی۔

ترکی کے حکومت نواز اخبار ’حریت‘ نے 18 دسمبر کو خبر شائع کی کہ سیریئن نیشنل آرمی کوبانی کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

22 دسمبر کو ترکی کے وزیر دفاع یاسر گلر نے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملک کے جنوبی سرحدی صوبے کیلیس کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے کہا کہ ترکی کی ترجیح کرد علیحدگی پسند تنظیم ’وائی پی جی‘ کو ختم کرنا ہے۔

یہ علاقہ ترکی کے شمالی شام میں بفر زون قائم کرنے کے عزائم کے لیے کافی اہم ہے۔

اگر اس شہر کو کرد گروپوں سے آزاد کروایا جاتا ہے تو ترکی شام کی سرحد کے ساتھ اس مجوزہ بفر زون کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول حاصل کرنے یا اسے محفوظ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

کرد علیحدگی پسند کسی بھی ممکنہ ترک فوجی کارروائی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ اب امریکہ سے ایکشن لینے کی اپیل کر رہے ہیں۔

حکومت کے حامی ماہر عبدالقادر سیلوی نے 20 دسمبر کو کہا تھا کہ ’شام کو اب ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے۔‘ترک میڈیا میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شام کے آئل فیلڈز سے کرد زیر قیادت تنظیموں کو ہٹانا ضروری ہے۔

ترکی
Getty Images

کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) پر ترکی کا مؤقف کیا ہے؟

ترک حکام نے کئی بار کرد گروپوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔

ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے 14 دسمبر کو این ٹی وی نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ’کردوں کی قیادت والے گروپوں کو خود کو ختم کر دینا چاہیے ورنہ وہ تباہ ہو جائیں گے۔ وائی پی جی اور پی کے کے میں شامل وہ لوگ جو شامی نہیں ہیں اور جنھیں شام میں بین الاقوامی دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے، انھیں چاہیے کہ ملک چھوڑ دیں۔‘

فیدان نے 22 دسمبر کو دمشق میں ہیت التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے رہنما احمد الشرع کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اپنی اس بات کا اعادہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’پی کے کے اور وائی پی جی کو فوری طور پر خود کو ختم کر دینا چاہیے۔ شام اب بعث پارٹی کی حکمرانی کے اندھیروں سے آزاد ہے۔ اب اسے پی کے کے اور داعش سے بھی آزاد کر دیا جائے گا۔‘

کردوں کی زیرقیادت کثیر النسلی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے رہنما مظلوم عبدی نے 19 دسمبر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اگر شمالی شام میں مکمل جنگ بندی ہو جاتی ہے تو ایس ڈی ایف کی حمایت کرنے والے غیر شامی کرد جنگجو علاقے سے نکل جائیں گے۔

ترکی پر ٹرمپ کی واپسی کے اثرات

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ترکی کو شام میں تیز رفتار مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ خطے کی موجودہ صورتحال کو ترکی کے حق میں بدلا جا سکے۔

حکومت کے حامی اخبار ’ترکیے‘ نے 23 دسمبر کو یہ لکھا کہ امریکی وزارت دفاع ’پینٹاگون‘ کے نمائندے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ترکی اور شام کو ’کنٹرول‘ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔

احمد الشرع
Getty Images

ترک میڈیا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شام کی نئی انتظامیہ کے کچھ عہدیداروں کے ترکی سے اچھے تعلقات ہیں۔

اِن میں وزیر خارجہ اسد حسن الشیبانی، خواتین کے امور کی وزیر عائشہ الدیبس اور ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی کے کمانڈر عزام الغریب بھی شامل ہیں، جنھیں حلب کا گورنر بنایا گیا تھا۔

حکومت کے کٹر حامی اخبار ’شفق‘ نے اسے ’شام میں نئی ​​انتظامیہ پر ترکی کی چھاپ‘ قرار دیا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ ’ترکی کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کو شام میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔‘

میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ الشیبانی اور الغریب نے ترکی میں تعلیم حاصل کی ہے جب کہ الدیبس ترک نژاد شامی شہری ہیں۔

سرکاری چینل ’ٹی آر ٹی‘ نے 23 دسمبر کو بتایا کہ الشیبانی نے استنبول کی نجی صباحتین زیم یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

یونیورسٹی نے 21 دسمبر کو ایک ایکس پوسٹ میں الشیبانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں اور انھوں نے 2022 میں ترکی کی شام پالیسی پر عرب بغاوت کے اثرات کے عنوان سے اپنا مقالہ لکھا ہے۔

ترکی کے مرکزی نیوز چینل این ٹی وی کی ویب سائٹ کے مطابق الدیبس نے ترکی کے کیمپوں میں شامی پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ ادلب میں ایک انسانی تنظیم کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.