کھیل اور تفریح کے لیے وقت نکالنا صحت مند طرزِ زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب تفریح کی جڑیں ثقافت سے جڑی ہوں تو یہ ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔لاہور میں مقیم پشتون قبائل ذہنی سکون، تفریح اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے پیش نظر قدیم ثقافتی کھیل ’مخہ‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔’مخہ‘ دراصل تیراندازی کی ایک قسم ہے لیکن یہ روایتی تیراندازی سے مکمل طور پر مختلف ہے۔لاہور کے پشتون ہر اتوار کو ایک گراؤنڈ میں جمع ہو کر مخہ کھیلتے ہیں جب کہ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد یہ کھیل دیکھ کر محظوظ ہوتی ہے۔’مخہ‘عام طور پر صوبہ خیبرپختونخوا کے شہروں صوابی، مردان، بونیر اور مضافات میں صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔
سعید نواب خان گزشتہ 35 برس سے اس کھیل سے منسلک ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
سعید نواب خان لاہور کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر ارکان کے ساتھ ’مخہ‘ کی روایت کو لاہور میں زندہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ 35 برس سے اس کھیل سے منسلک ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ صوابی کا کھیل ہے جہاں صدیوں سے اس کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ صوابی اور دیگر علاقوں میں اس کے مقابلے اس جنون کے ساتھ کھیلے جاتے ہیں کہ بات خاندانوں کی عزت پر آجاتی ہے۔‘ سعید نواب خان کے مطابق خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ’مخہ‘ کے بڑے ٹورنامنٹ منعقد ہوتے ہیں جہاں مقامی اور دیگر اضلاع سے آئے ہوئے کھلاڑی اس میں حصہ لیتے ہیں۔
’مخہ‘عام طور پر صوبہ خیبرپختونخوا کے شہروں صوابی، مردان، بونیر اور مضافات میں صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے (فوٹو: اردو نیوز)
سعید نواب خان نے مزید بتایا کہ ’خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر نائٹ ٹورنامنٹس اور رمضان ٹورنامنٹس منعقد کیے جاتے ہیں اور وہاں یہ کھیل پوری پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ لاہور میں تو ہم بس یہ روایت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
مخہ تیراندازی سے اس لیے مختلف ہے کہ اس میں جو تیر اور کمان استعمال ہوتے ہیں وہ روایتی تیر کمان سے بڑے ہوتے ہیں جب کہ تیر کی نوک پر ایک کون نما لوہے کا ٹکڑا لگتا ہے جسے ’ٹبرئی‘ کہا جاتا ہے۔ تیر کو ’غشے‘ جب کہ کمان کو ’لیندا‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کا ہدف بھی قریب ہوتا ہے۔نواب سعید خان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کھیل کھلے میدان میں کھیلا جاتا ہے جہاں 30 سے لے کر 32 فٹ کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ جہاں سے نشانہ پکڑنا ہوتا ہے وہاں چند انچ بلند چبوترا بنایا جاتا ہے۔ اس چبوترے پر ایک پگڑی نما کپڑا رکھ کر گھٹنا رکھا جاتا ہے تاکہ تیرانداز نشانہ لے سکے۔‘
چبوترے پر ایک پگڑی نما کپڑا رکھ کر گھٹنا رکھا جاتا ہے تاکہ تیرانداز نشانہ لے سکے (فوٹو: اردو نیوز)
نو فٹ بلندی پر گیلی مٹی کی ایک موٹی تہہ بنائی جاتی ہے جس پر سفید رنگ کی چھوٹی لکڑی رکھی جاتی ہے جسے ’ٹکئی‘ کہتے ہیں۔ ٹکئی کو لوہے سے بنے ایک رنگ میں رکھا جاتا ہے جسے ’کواڑا‘ کہتے ہیں۔ گیلی مٹی کو ’خٹہ‘ جب کہ اس پوری ساخت کو ’بوتھ‘ کہتے ہیں۔
سعید نواب خان کے مطابق اس کھیل کو کھیلنے کے لیے 10 یا 11 کھلاڑیوں کی ٹیم بھی بنائی جاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’اکثر ٹیموں میں 10 یا 11 کھلاڑی ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بادشاہ اور ایک وزیر ہوتا ہے۔ بادشاہ سب سے پہلے ہدف پر نشانہ لگاتا ہے جب کہ وزیر اور دیگر کھلاڑی بادشاہ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہاں 40 یا 50 بار نشانہ لگایا جاتا ہے۔ جس ٹیم کے زیادہ نشانے ہدف پر یا ہدف کے قریب تر ہوں تو وہی ٹیم فاتح قرار دی جاتی ہے۔‘
اس کھیل کو کھیلنے کے لیے 10 یا 11 کھلاڑیوں کی ٹیم بھی بنائی جاتی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
سعید نواب خان اپنے بیٹوں وحید خان، منصف شاہ اور دیگر مقامی لوگوں کے ہمراہ انجینئرز ٹاؤن کے قریب ہائی کورٹ سوسائٹی فیز ٹو میں ’مخہ‘ کھیلتے ہیں۔
اس کھیل کو کھیلنے کے لیے 10 یا 11 کھلاڑیوں کی ٹیم بھی بنائی جاتی ہےوہ بتاتے ہیں کہ ’یہ اگرچہ پشتونوں کا روایتی کھیل ہے لیکن یہاں کے مقامی افراد بھی ہمارے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہم انہیں یہ کھیل سکھاتے ہیں۔ ہر گزرنے والا ایک بار ضرور کھڑا ہو کر یہ کھیل دیکھتا ہے اور جب اسے یہ کھیل دلچسپ لگتا ہے تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔‘سعید نواب خان کے بیٹے وحید خان بھی چند ماہ سے اس کھیل میں دلچسپی لینے لگے ہیں اور اب وہ بھی اپنے والد کے ہمراہ نشانہ لگاتے ہیں۔
نو فٹ بلندی پر گیلی مٹی کی ایک موٹی تہہ پر سفید رنگ کی چھوٹی لکڑی رکھی جاتی ہے جسے ’ٹکئی‘ کہتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم یہاں اپنے کھانے پینے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ یہ گویا ایک میلہ ہوتا ہے جہاں ہمارے بچے بزرگ اور نوجوان جمع ہو کر مخہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک سلنڈر پر ہمارے لیے چائے بنتی ہے تو دوسری طرف دسترخوان پر کھانا لگتا ہے۔ یوں راہگیر بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں اور مخہ سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ آنے والے دنوں میں لاہور میں ’مخہ‘ کے ٹورنامنٹ منعقد کریں گے تاکہ لاہور میں مقیم پشتون اس کھیل کی ثقافتی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی پوچھے کہ ہم لاہور میں ہی کیوں کھیل رہے ہیں تو ہمارا جواب واضح ہے کہ یہ چوں کہ ایک ثقافتی کھیل ہے اور ہمارے لیے تفریح کا ذریعہ بھی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ ہمارے پاس اپنے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے اور چھٹی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس سے بہتر کوئی انتخاب نہیں۔‘