چار دہائیوں تک جاپانی کمپنی سوزوکی موٹر کی سربراہی کرنے والے اوسامو سوزوکی وفات پا گئے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف کم آمدن والے گھرانوں کے لیے چھوٹی گاڑیوں کی پیداوار میں انقلاب برپا کیا بلکہ انڈیا اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اپنی کمپنی کو پہچان دی۔
چار دہائیوں تک جاپانی کمپنی سوزوکی موٹر کی سربراہی کرنے والے اوسامو سوزوکی وفات پا گئے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف کم آمدن والے گھرانوں کے لیے چھوٹی گاڑیوں کی پیداوار میں انقلاب برپا کیا بلکہ انڈیا اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اپنی کمپنی کو پہچان دی۔
کمپنی کے مطابق 94 سالہ اوسامو سوزوکی کی موت کرسمس کے روز لمفوما کینسر سے ہوئی۔
اوسامو سوزوکی قریب نصف صدی تک اس کمپنی کے روح و رواں رہے جو اپنی عوامی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے جسے جاپان کی چوتھی سب سے بڑی کار کمپنی سمجھا جاتا ہے۔
ان سے قبل یہ کمپنی سالانہ محض کچھ ارب ڈالر ہی کماتی تھی مگر اب اسے چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بڑی کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو سالانہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کماتی ہے۔ اس کی وجہ بیرون ملک مارکیٹس جیسے انڈیا میں اس کی گرفت ہے۔
انھی خدمات کے بدلے انھیں پاکستان میں سرکاری اعزاز 'ستارۂ پاکستان' اور انڈیا میں پدما بھوشن سے نوازا جا چکا ہے۔
اوسامو سوزوکی سنہ 1978 سے 2000 تک سوزوکی موٹر کے صدر رہے اور پھر مختلف عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد اپنی موت تک کمپنی کے سینیئر ایڈوائزر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
سابق بینکر سے سوزوکی کے داماد
سنہ 1909 میں قائم کی گئی کمپنی سوزوکی کو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ایک ہی خاندان چلا رہا ہے مگر کمپنی کی وراثت اکثر اگلی نسل کو نہیں ملی۔ اوسامو سوزوکی وہ مسلسل چوتھے 'سوتیلے بیٹے' تھے جنھوں نے کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وہ 1930 میں پیدا ہوئے اور زرعی آمدن پر انحصار کرنے والے خاندان کے چوتھے بیٹے تھے۔ ان کا اصل نام اوسامو ماتسودا ہے اور انھوں نے اپنی بیوی کا خاندانی نام اپنایا جو اِن جاپانی خاندانوں میں معمول کی روایت ہے جن کا کوئی مرد وارث نہیں ہوتا۔
قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ ایک بینک میں کام کرنے لگے جہاں ان کی ملاقات اپنی مستقبل کی بیوی شوکو سوزوکی سے ہوئی اور 1950 کی دہائی میں دونوں کی شادی ہوئی۔ اس طرح وہ سوزوکی کمپنی کے دوسرے صدر کے داماد بن گئے۔
1958 کے دوران انھوں نے بینک چھوڑ کر شوکو کے دادا کی قائم کردہ کمپنی سوزوکی موٹر میں کام شروع کر دیا مگر کمپنی کا صدر بننے میں انھیں دو دہائیاں لگیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 1970 کی دہائی کے دوران ان کی قیادت میں ایک بڑا فیصلہ اس وقت لیا گیا جب سوزوکی موٹر زوال کے دہانے پر تھی اور جاپان میں گیسوں کے اخراج سے متعلق نئے قوانین نافذ کیے گئے تھے۔ سوزوکی نے تب تک ایسے نئے انجن نہیں بنائے تھے جو ان قوانین کے مطابق ہوں۔ مگر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سوزوکی نے حریف کمپنی ٹویوٹا کو انجن دینے کے لیے قائل کیا۔
آلٹو منی کار نے اس کمپنی کو مزید کامیابی دلائی جو 1979 میں لانچ ہوتے ہی ہِٹ ہو گئی۔ 1981 میں سوزوکی نے امریکی کمپنی جنرل موٹرز سے اشتراک کیا۔
انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے اشتراک
80 کی دہائی میں اوسامو سوزوکی نے بڑی جاپانی آٹو کمپنیوں سے مقابلہ کرنے کی بجائے چھوٹی اور سستی گاڑیوں کی پیداوار پر توجہ مرکوز کی۔ انھوں نے بیرون ملک مارکیٹس کی تلاش شروع کی جہاں ان کی طلب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
سوزوکی موٹر نے انڈیا اور پاکستان دونوں کی حکومتوں سے اشتراک کیا اور لوکل اسمبلی شروع کی۔ روئٹرز کے مطابق انڈیا میں ماروتی سوزوکی کو قومی کار کا درجہ ملا مگر اس کے لیے اس نے بڑا خطرہ مول لیا اور اپنی ایک سال جتنی آمدن کی سرمایہ کاری کی۔
سوزوکی آلٹو کی پہلی جنریشن کو انڈیا میں 1983 کے دوران 'ماروتی 800' کے نام سے متعارف کرایا گیا جبکہ سوزوکی مہران 1989 کے دوران پاکستان میں متعارف کرائی گئی۔ ان دونوں کاروں کو سب سے طویل عرصے تک بنائی جانے والی گاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اوسامو سوزوکی انڈیا اور پاکستان میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے تھے۔ انھوں نے ایک بار انڈیا میں آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ 'دنیا میں کہیں نمبر ون بنیں۔'
روئٹرز کے مطابق سوزوکی اس وقت انڈیا کی 40 فیصد کار مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔
مگر ماضی میں اس ملک میں سالانہ 40 ہزار سے بھی کم گاڑیاں بنتی تھیں۔ انڈین حکومت نے 1971 میں سرکاری کار کمپنی ماروتی بنائی تھی۔ دراصل سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کا انڈیا میں سستی اور عوامی کار بنانے کا خواب تھا۔
ماروتی کے لیے ضروری تھا کہ وہ کسی غیر ملکی کمپنی سے اشتراک کرے اور اس سلسلے میں رینالٹ، فیاٹ اور سبورو سمیت کئی دروازے کھٹکھٹائے گئے۔ حادثاتی طور پر اس کا سوزوکی سے اشتراک ہوا۔
یہ اشتراک اس وقت ممکن ہوا جب انڈیا میں سوزوکی موٹر کے ڈائریکٹر نے کسی اخبار میں اشتہار دیکھا کہ سرکاری کمپنی ماروتی اور سوزوکی کے حریف ڈیہاٹسو کے درمیان اشتراک کا امکان ہے۔
ہیڈکوارٹر فون کرنے پر انھیں معلوم ہوا کہ سوزوکی کے حکام نے ماروتی کی ٹیم کو انکار کر دیا تھا۔ یوں سوزوکی نے ماروتی کو جاپان آنے کی دعوت دی اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی۔
روئٹرز کے لیے اپنی تحریر میں چانگ رن کِم لکھتے ہیں کہ انڈیا کے طبقاتی نظام میں سوزوکی تبدیلی کی علامت بنی۔ اس نے دفاتر میں برابری پر اصرار کیا اور اوپن پلان آفس کھولے، یعنی ایسے دفاتر جہاں دیواریں اور چھوٹے کمرے نہیں بنائے جاتے۔ ایگزیٹیوز اور اسمبلی لائن ورکرز ایک جیسے یونیفارم پہنتے جبکہ دفاتر میں ایک ہی کینٹین بنائی گئی تھی۔
کفایت شعاری، گالف اور ’نمبر ون‘ بننے کی خواہش
اوسامو کی موت پر ٹویوٹا کے چیئرمین اکیو ٹویوڈا نے کہا کہ 'میرے لیے وہ صرف ایک مقبول بزنس لیڈر سے بڑھ کر تھے: وہ میرے والد جیسے تھے۔'
ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 'جاپانی کے کارز (چھوٹی جاپانی گاڑیاں) بنائیں اور اسے جاپان کی عوامی کار کا درجہ دلایا۔'
جبکہ ایکس پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے لکھا کہ اوسامو سوزوکی نے 'انڈین آٹو موبائل مارکیٹ میں انقلاب برپا کیا۔'
کئی دہائیوں تک کمپنی کے سی او اے رہنے والے اوسامو سے جب پوچھا جاتا کہ وہ مزید کب تک اس عہدے پر موجود رہیں گے تو وہ جواب دیتے کہ 'ہمیشہ کے لیے' اور 'جب تک میں مر نہیں جاتا۔'
ماضی میں ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا خواب کیا ہے تو انھوں نے ایسا جواب دیا جیسے وہ نوجوان ایگزیکٹیو کے طور پر اپنا سفر شروع کر رہے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ 'میں نمبر ون بننا چاہتا ہوں۔ ہم انڈیا، پاکستان، ہنگری اور ایشیا کے بعض حصوں میں نمبر ون ہی ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم دیگر خطوں میں بھی وسعت حاصل کر سکتے ہیں۔'
80ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل سوزوکی نے دسمبر 2009 میں جرمن آٹو کمپنی وولکس ویگن کے ساتھ اربوں ڈالر کا معاہدے ہوا۔ مگر یہ جلد ہی ناکامی میں بدل گیا۔
سوزوکی موٹر نے الزام لگایا کہ بڑا شیئر ہولڈر بننے سے وولکس ویگن فیصلہ سازی میں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ جبکہ وولکس ویگن نے فیاٹ سے ڈیزل انجن کی خریداری پر اعتراض اٹھایا۔
سوزوکی موٹر نے یہ معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف آربٹریشن میں اٹھایا اور دو سال سے کم عرصے میں اس نے اپنے 19.9 فیصد حصص واپس خرید لیے۔
ان کے دفاتر میں اے سی بھی نہیں ہوتے تھے
مگر جون 2016 میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اوسامو سوزوکی نے ایندھن کے اخراج کی آزمائشوں میں بےضابطگیوں پر استعفیٰ دیا۔ کمپنی نے تسلیم کیا کہ فیول امیشنز کی ٹیسٹنگ میں بےضابطگیاں پائی گئی ہیں تاہم اس نے جان بوجھ کر کسی غلط بیانی کی تردید کی۔
اسی سال انھوں نے اپنے بیٹے توشیہرو سوزوکی کو کمان سونپی مگر 91 کی عمر تک مزید پانچ کے لیے چیئرمین رہے۔
2016 کے بعد سے سوزوکی نے دنیا کی سب سے بڑی کار کمپنی ٹویوٹا کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے ہیں جس نے 2019 میں سوزوکی موٹر کے پانچ فیصد حصص خرید لیے تھے۔ ماروتی سازوکی 2025 سے ٹویوٹا کو الیکٹرک گاڑیاں سپلائے کرے گی۔
2021 کے دوران اوسامو نے سوزوکی کے چیئرمین کی حیثیت سے استعفیٰ دیا مگر سینیئر مشیر کے طور پر کام جاری تھا۔ اوسامو اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی صحت کا راز کام اور گالف ہیں۔
سنہ 2021 کے دوران جب ان کی صحت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی تھی تو انھوں نے کہا کہ ’میں نے گذشتہ سال 47 مرتبہ گالف کھیلا اور میری صحت اچھی ہے۔ پلیز فکر نہ کریں۔'
روئٹرز کے مطابق وہ اس قدر کفایت شعار تھے کہ انھوں نے فیکٹری کی چھت کی اونچائی کم رکھنے کا حکم دیا تاکہ ایئر کنڈشنگ کا خرچ کم ہو۔
وہ بڑھتی عمر کے باوجود پروازوں میں اکانومی کلاس پر سفر کرتے تھے۔
کتاب ’دی ماروتی سٹوری‘ کے مطابق ماضی میں غیر ملکی وفود کو اس بات پر بھی حیرانی ہوتی تھی کہ گرمی کے باوجود سوزوکی کے دفاتر میں ایئر کنڈیشنر نہیں، حتی کہ اعلیٰ عہدیداروں کو بھی آستین چڑھا کر کام کرنا پڑتا تھا۔
اس کتاب کے مصنف آر سی بھرگوا لکھتے ہیں کہ 'جب 1982 میں ہم معاہدوں پر بات چیت کے لیے (انڈیا سے) جاپان گئے تو ہم نے پہلی بار سوزوکی کی مشہور کفایت شعاری کا ذائقہ چکھا۔'
'جاپان میں شدید گرمی تھی لیکن ہاماماتسو میں سوزوکی کے دفتر میں کوئی اے سی نہیں تھا۔ سوزوکی نے بتایا کہ ایئر کنڈیشنگ صحت کے لیے اچھی نہیں! تازہ ہوا بہتر ہے۔'
ان کے مطابق انڈین وفود سوزوکی کی بروقت فیصلہ سازی اور کم خرچ عادات سے متاثر ہوا۔
جاپان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ 'اگر میں ہر کسی کی بات سنتا تو کام سست ہوجاتا۔ کبھی مت رُکیں ورنہ آپ ہار جائیں گے۔'