’میں نے عاطف اسلم کو تخت سے نہیں اتارا، کوئی ان سے آگے نہیں نکل سکتا‘: طلحہ انجم

جب طلحہ انجم کو معلوم ہوا کہ وہ سنہ 2024 کے دوران سپاٹیفائی پر سب سے زیادہ سنے جانے والے پاکستانی گلوکار ہیں تو یہ ان کے لیے ناقابل یقین تھا۔
طلحہ انجم
BBC

جب طلحہ انجم کو معلوم ہوا کہ وہ سنہ 2024 کے دوران سپاٹیفائی پر سب سے زیادہ سنے جانے والے پاکستانی گلوکار ہیں تو یہ ان کے لیے ناقابل یقین تھا۔

بی بی سی اردو کے لیے صحافی عائشہ میر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستانی ریپر اور ہِپ ہاپ جوڑی ینگ سٹنرز کے رکن طلحہ بتاتے ہیں کہ ’یہ غیر یقینی کی کیفیت تھی۔ یہ میری خواہش ضرور تھی، تین سال بہت محنت کی۔‘

مگر انھیں یہ دیکھ کر بُرا لگا جب ایک خبر میں یہ لکھا گیا کہ انھوں نے معروف پاکستانی گلوکار عاطف اسلم کو ’ڈی تھرون‘ کر دیا، یعنی تخت سے اُتار دیا۔

طلحہ انجم کہتے ہیں کہ عاطف اسلم کو ’کوئی بھی ڈی تھرون نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی ان سے آگے نہیں نکل سکتا۔ آرٹسٹ کا کام کسی کو ڈی تھرون کرنا نہیں۔‘

اگرچہ طلحہ انجم اور عاطف اسلم کی موسیقی کا انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے مگر یہ دونوں مسلسل تین سال سے سپاٹیفائی پر سب سے زیادہ سنے جانے والے پاکستانی گلوکار ہیں۔

طلحہ انجم نے اگر عاطف اسلم کو ڈی تھرون نہیں بھی کیا تو یقیناً وہ ان کے برابر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی موسیقی کا سفر کیسے شروع ہوا اور نوجوانوں میں ان کی شہرت کیسے بڑھی، یہ ہم ان ہی سے جان لیتے ہیں۔

سکول میں نظموں سے ’برگرِ کراچی‘ اور پھر ’کون طلحہ‘

طلحہ انجم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اور ان کے ینگ سٹنرز میں پارٹنر طلحہ یونس ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ انھیں مختلف ریپرز کو سننا اور اردو میں شاعری کرنے کا شوق تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی بچپن میں رائمنگ یعنی قافیہ بندی میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ ’میرے سکول میں ایک میگزین تھا ’آگاہی‘ کے نام سے۔ میں اس میں نظمیں لکھتا تھا۔‘

’جب میں نے اردو میں لکھنا شروع کیا تو میں جوکھے (طلحہ یونس) سے ملا جو سکول میں ساتھ تھا۔ سب سے اہم ہمارا تعلق اور تسلسل تھا۔‘

’اگر تسلسل سے کام نہ کرتے تو شاید دوستی آج بھی ہوتی لیکن آج اس لیول پر نہ ہوتے۔‘

ان کے لیے آج بھی ان کا کام شاعری اور اس کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ’اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ میں جو دیکھتا ہوں، کسی کو سہتے ہوئے یا کوئی کیا محسوس کرتا ہے۔ میں اس کو اپنے نظریے سے بیان کر دیتا ہوں۔‘

ابتدا میں ینگ سٹنرز کو اس قدر شہرت نہیں ملی تھی۔ طلحہ انجم یاد کرتے ہیں کہ ’2009 سے 2012 تک لوگوں کا کوئی خاص ردعمل نہیں تھا۔ اس وقت جو چیز مجھے چلاتی رہی وہ میرے دوست تھے جن کے ساتھ میں کام کرتا تھا۔‘

2013 میں ریلیز ہونے والے گانے ’برگرِ کراچی‘ نے انھیں پہچان دی۔ طلحہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے عوام کے بارے میں بات کی سوشل سیٹائر (طنز) پر بات کی جیسے ’برگرِ کراچی‘ تو اس نے ہمیں کراچی کے میپ پر ڈالا۔‘

’لوگوں نے اس پر رسپانڈ کیا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔‘

طلحہ یونس کا خیال ہے کہ اس کامیابی کی وجہ آپسی تعلق ہے۔ ’ہماری سب سے اچھی بات یہ ہے ہم سب سے پہلے بھائی ہیں اور دوست ہیں۔ کام بھی ایسے کر رہے ہوتے ہیں جیسے انجوائے کر رہے ہوں۔ اس سے اچھا کیا ہوگا کہ ہم کام بھی کریں اور انجوائے بھی۔‘

حال ہی میں طلحہ انجم کا ایک گانا ’کون طلحہ‘ بھی کافی مشہور ہوا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’ریپ ایلیا تو جون طلحہ‘ یہ گانا ایک انڈین ریپر کے جواب میں ریلیز کیا گیا جنھوں نے دوران انٹرویو پوچھے گئے سوال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا ’کون طلحہ‘۔

طلحہ انجم تسلیم کرتے ہیں کہ ’ہم تھوڑے سے زیادہ منھ پھٹ ہیں‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے جتنا ہندی ریپرز کو سنا، اس میں بہت سارے اچھے (گلوکار) بھی ہیں۔ کچھ کے ساتھ بھی میں نے کام کیا ہوا، جیسے کرشنا۔ یہ لوگوں کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے کچھ گانے ایسے ہوں گے جن میں، میں نے غیر سنجیدہ باتیں کی ہوں گی۔ یہ میوزک میں چلتا رہتا ہے لیکن میں زبردستی اچھا ہونے کا دکھاوا نہیں کرتا۔‘

طلحہ یونس
BBC

اردو میں ریپر کا کام مشکل کیوں؟

مگر ان لوگوں کا کیا جو ریپرز کو موسیقار ہی نہیں مانتے؟ طلحہ انجم کے مطابق ’میں یہ باتیں اپنے دل پر نہیں لیتا کہ اگر کوئی کہتا ہے یہ میوزک ہی نہیں۔ میرے لیے ریپ شاعری ہے۔ میں گانے کا دعویٰ نہیں کرتا، مجھے گانا نہیں آتا۔‘

طلحہ یونس کہتے ہیں کہ اردو میں ریپر کا کام زیادہ مشکل ہے۔ ’انگلش میں لوگ گالیاں دیتے ہیں اور لوگ جانے دیتے ہیں لیکن اردو میں مشکل ہے۔ ریپ میوزک تو ہے ہی گلیوں کی زبان۔‘

’یہ مشکل ہے کیونکہ آپ نے لوگوں کے سامنے یہ بھی نہیں بننا کہ گالیاں ہی دیتے رہو۔ ایک توازن ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ آپ عام روزمرہ کی زبان استعمال کریں تاکہ لوگ اسے اپنی زندگیوں سے جوڑ سکیں، ان کے لیے یہ کہانی ہے۔‘

وہ مانتے ہیں کہ ’ایسے بھی سننے والے ہیں جو اسے بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ اب شاید کچھ بہترہو گیا ہو لیکن پہلے ایسا نہیں تھا کہ کوئی آپ کو کہے کہ تم بہت اچھا کر رہے ہو۔‘

’اردو یا تو بہت سنجیدہ ہے یا پھر جو سڑک والی ہے، اس کو اردو والے اردو مانتے بھی نہیں۔‘

طلحہ انجم کی نئی البم اور فلم

حال ہی میں طلحہ انجم نے کراچی کٹر نامی فیچر فلم میں کام کیا اور ان کی سولو البم ’مائی ٹیریبل مائنڈ‘ ریلیز ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پارٹنر طلحہ یونس کا مجھے فلموں میں لانے میں ہاتھ ہے۔ انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے سے) سے گریجویٹ کیا۔ ان کی تھیسز فلم تھی، میں نے ایکٹنگ کی تھی۔ مجھے نہیں پتا تھا اس سے پہلے کہ میں ایکٹنگ کر سکتا ہوں۔ انھوں نے بولا کہ تم کر سکتے ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں اپنی میوزک البم کر رہا تھا تو مجھے ایک آئیڈیا آیا کہ اگر ہم میوزک ویڈیو کی بجائے روایت کو ہلائیں اور فلم کریں، ایک شارٹ فلم کریں۔ میری البم کے گانے بھی اس میں شامل ہوں۔‘

’میرے خیال سے فین دیکھیں گے وہ انھیں بہت پسند آئے گی۔ وہ ایک نیا تجربہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک البم کے ساتھ فلم نکالی گئی ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کوشش کی جائے گی کہ اس کا کراچی اور لاہور میں پریمیئر کیا جائے۔

طلحہ انجم کہتے ہیں کہ وہ دلجیت دوسانجھ، کرن اوجلا، ڈیوائن اور بوہیمیا کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں دبئی میں ہنی سنگھ سے ملا، انھوں نے کہا تھا آپ نے میرے سٹوڈیا آنا ہے۔ ابھی بھی تھوڑے دن پہلے بات ہوئی۔ تو ان کے ساتھ بھی کام کرنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے بعض نوجوان ریپرز بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور وہ ان کے لیے ایک سسٹم بنانا چاہتے ہیں تاکہ اس فیلڈ میں آنے والوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.