اقتدار کے 25 سال، پوتن کے ’بدلتے چہرے‘ اور سابق روسی صدر کی آخری نصیحت

31 دسمبر 1999 کے دن کس نے سوچا ہو گا کہ روس کا نیا حکمران 25 سال بعد بھی اسی جگہ ہو گا؟ اور یا یہ کہ روس یوکرین کے خلاف جنگ میں مغربی دنیا کا بھی مقابلہ کر رہا ہو گا؟
پوتن
Getty Images

میں 1999 کی وہ شام کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ اس وقت میں بی بی سی کے ماسکو دفتر میں ایک پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اچانک یہ بریکنگ نیوز آئی کہ روس کے صدر بورس یلسن نے استعفی دے دیا ہے۔

ان کا یہ فیصلہ سب کے لیے ہی حیران کن تھا، ماسکو میں برطانوی صحافیوں کے لیے بھی۔ جس وقت یہ خبر آئی، دفتر میں کوئی اور صحافی موجود نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے پہلی بار بی بی سی کے لیے خبر لکھ کر براڈکاست کرنا پڑی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ ’بورس یلسن نے ہمیشہ کہا کہ وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔ آج انھوں نے روسی شہریوں کو بتایا کہ ان کا ذہن بدل گیا تھا۔‘

یہ میری بطور رپورٹر صحافتی زندگی کا بھی آغاز تھا اور روس کے نئے سربراہ کے طور پر ولادیمیر پوتن کا بھی۔

بورس یلسن کے استعفی کے بعد، روسی آئین کے مطابق، وزیر اعظم ولادیمیر پوتن قائم مقام صدر بن گئے اور تین ماہ بعد صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ کریملن چھوڑنے کے بعد بورس یلسن نے پوتن کو نصیحت کی تھی کہ ’روس کا خیال رکھنا۔‘

بورس یلسن کے یہ الفاظ مجھے ایک ایسے وقت میں بار بار یاد آ رہے ہیں جب یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر پوتن کے یوکرین پر حملے کے تباہ کن نتائج رہے ہیں۔

روس
Reuters

یوکرین کے لیے خاص طور پر کیوں کہ اس کے شہروں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور 20 فیصد علاقہ روس کے قبضے میں ہے۔ ایک کروڑ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ روس کے لیے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

روس کو نہ صرف جنگی محاذ پر نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ روس کے شہر اور قصبوں پر باقاعدگی سے ڈرون حملے ہو رہے ہیں، یوکرین کی فوج نے روسی کرسک خطے کا ایک حصہ قبضے میں لیا ہوا ہے اور روس کی معیشت عالمی پابندیوں کے وزن تلے دبتی جا رہی ہے۔

میں اس وقت سے ہی پوتن کے بارے میں خبریں دے رہا ہوں جب وہ قریبا 25 سال قبل اقتدار میں آئے تھے۔ 31 دسمبر 1999 کے دن کس نے سوچا ہو گا کہ روس کا نیا حکمران 25 سال بعد بھی اسی جگہ ہو گا؟ اور یا یہ کہ روس یوکرین کے خلاف جنگ میں مغربی دنیا کا بھی مقابلہ کر رہا ہو گا؟

میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر بورس یلسن نے پوتن کی جگہ کسی اور کو چن لیا ہوتا تو کیا تاریخ مختلف ہوتی؟ یہ سوال شاید بے معنی ہے کیوں کہ تاریخ اگر اور مگر سے بھری ہوئی ہے۔

ایک بات جو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں وہ یہ کہ 25 سال کے دوران میں نے پوتن کے مختلف چہرے دیکھے ہیں۔ اور میں ایسا مشاہدہ کرنے والا واحد فرد نہیں ہوں۔

پوتن
Getty Images

نیٹو کے سابق سربراہ لارڈ رابرٹسن نے 2023 میں مجھے بتایا تھا کہ ’جس پوتن سے میں ملا تھا، جس کے ساتھ میں نے نیٹو اور روس کونسل بنائی، وہ موجودہ پوتن سے بہت زیادہ مختلف ہے۔‘

’جو شخص مئی 2002 میں میرے ساتھ کھڑا تھا اور جس نے کہا تھا کہ یوکرین ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے جو اپنی سکیورٹی کے بارے میں خود فیصلے کر سکتا ہے، اب وہی شخص کہہ رہا ہے کہ یوکرین ایک ریاست نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’سوویت یونین دنیا کی دوسری سپر پاور تھا لیکن روس ایسا دعوی نہیں کر سکتا اور میرا خیال ہے کہ پوتن کی انا کو اسی بات سے مسئلہ ہے۔‘

پوتن کی شخصیت میں تبدیلی کی یہ ایک وضاحت ہے یعنی روس کو ایک بار پھر عظیم بنانے کا ارادہ جس نے ان کے ملک کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا سے بھی محاذ آرائی کے راستے پر گامزن کر دیا۔

لیکن روس کا سرکاری موقف مختلف ہے۔ پوتن کے خطابات اور بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوتن کو یہ احساس ہے کہ سالوں سے روس کے سکیورٹی خدشات کو مغرب نے وزن نہیں دیا اور روس سے جھوٹ بولا جاتا رہا، اس کو عزت نہیں دی گئی۔

لیکن کیا پوتن خود یہ مانتے ہیں کہ انھوں نے بورس یلسن کی اس درخواست کو پورا کیا کہ ’روس کا خیال رکھنا‘؟ حال ہی میں مجھے یہ سوال کرنے کا موقع ملا۔

بی بی سی
BBC

سال کے اختتام پر اپنی چار گھنٹے کی پریس کانفرنس کے بعد پوتن نے مجھے سوال پوچھنے کی دعوت دی تو میں نے ان کو یاد دلایا کہ ’بورس یلسن نے آپ سے روس کا خیال رکھنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن ان نقصانات کا کیا جو روس کو یوکرین میں اٹھانا پڑے؟ عالمی پابندیوں کا؟ مہنگائی کا؟ کیا آپ کے خیال میں آپ نے ملک کا خیال رکھا؟‘

پوتن نے جواب دیا ’بلکل۔ اور میں نے اس کا خیال ہی نہیں رکھا۔ ہم نے اسے تباہی کے دہانے سے بچایا ہے۔‘

پوتن نے بورس یلسن کے روس کا نقشہ ایک ایسے ملک کے طور پر کھینچا جو خودمختاری کھو رہا تھا۔ انھوں نے مغرب پر الزام لگایا کہ وہ ’روس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا‘ لیکن خود پوتن اب وہ ’سب کچھ کر رہے ہیں جس سے روس کی حیثیت خودمختار آزاد ریاست کے اعتبار سے برقرار رہے۔‘

انھوں نے خود کو روس کی خودمختاری کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔ لیکن کیا وہ خود بھی اپنی اس تشریح پر یقین رکھتے ہیں؟ مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے لیکن یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہی طے کرے گا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کیسے ختم ہو گی اور روس کس مستقبل کیا ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.