نومولود بچوں کے جسم میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کا نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہوتا اور اگر انھیں کسی ٹھنڈی جگہ رکھا جائے تو آسانی سے ہائپوتھرمیا ہو سکتا ہے۔

سلا تین ہفتے سے بھی کم عمر تھیں جب ان کی والدہ نریمان کو احساس ہوا کہ وہ حرکت نہیں کر رہی ہیں۔
نریمان النجمہ کہتی ہیں کہ ’میں صبح اٹھی اور میں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ کافی دیر سے بچی ہلی نہیں۔ میرے شوہر نے بچی کے چہرے کو روشنی میں دیکھا تو رنگ نیلا ہو رہا تھا، وہ اپنی زبان کاٹ رہی تھی اور اس کے منھہ سے خون نکل رہا تھا۔‘
جنوبی غزہ کے ساحل پر ایک خیمے میں نریمان اور ان کے شوہر محمود فسیح اپنے دو بچوں، چار سالہ رایان اور ڈھائی سالہ نہاد کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے مطابق 14 ماہ سے جاری جنگ کے دوران وہ 10 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
نریمان نے بی بی سی کے لیے کام کرنے والے ایک فری لانس کیمرہ مین کو بتایا ’میرا شوہر مچھیرا ہے، ہم شمالی غزہ سے ہیں اور ہم سب کچھ چھوڑ کر نکلے تھے۔ صرف اپنے بچوں کی وجہ سے۔‘
یاد رہے کہ اسرائیل بین الاقوامی میڈیا کو غزہ میں داخل ہونے اور کام کرنے سے روکتا ہے۔ نریمان نے بتایا کہ ’جب میں حاملہ تھی، تو میں سوچتی تھی کہ بچی کے لیے کپڑوں کا بندوبست کیسے کروں گی۔ میں بہت پریشان تھی کیوں کہ شوہر کے پاس روزگار ہی نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق 14 ماہ سے جاری جنگ کے دوران وہ 10 بار بے گھر ہو چکے ہیںسلا کی 20 دن کی زندگی کے دوران نریمان اور ان کے شوہر ایک چھوٹے سے علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں اسرائیلی فوج کے حکم کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی موجود ہیں۔ یہاں صفائی کا ناقص انتظام اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بارش اور سمندر کا پانی جمع ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ سیلاب آ گیا ہے۔
سلا کے والد محمود نے بتایا کہ ’سردی بہت شدید ہے۔ اسی لیے پوری رات ہم ایک دوسرے سے جڑ کر گزارتے ہیں۔ ہمارے زندگی جہنم ہے۔ اور یہ سب اس جنگ کے اثرات ہیں۔ میرا خاندان شہید ہو گیا، ہماری صورت حال اب ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔‘
اس علاقے میں عام فلسطینیوں کو منتقل ہونے کے حکم کے باوجود اسرائیلی فوج نے متعدد بار اسے بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ سلا کی موت بمباری سے نہیں ہوئی لیکن اس کی وجہ وہ حالات ضرور بنے جو عام شہریوں پر تھونپ دی جانے والی جنگ کے باعث پیدا ہوئے۔
سلا کے علاوہ دو ہفتوں کے دوران غزہ میں ہائپوتھرمیا، یعنی درجہ حرارت میں کمی، کے باعث چھ نومولود بچے وفات پا چکے ہیں کیوں کہ درجہ حرارت رات کے وقت سات ڈگری تک گر جاتا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق موسمی حالات کی وجہ سے ہزاروں خیموں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
سلا کے علاوہ دو ہفتوں کے دوران غزہ میں ہائپوتھرمیا، یعنی درجہ حرارت میں کمی، کے باعث چھ نومولود بچے وفات پا چکے ہیںاقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں خوراک اور دیگر اشیا کی فراہمی پر اسرائیل نے قدغنیں لگا رکھی ہیں جس کی وجہ سے انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
نریمان نے بتایا کہ سلا خان یونس کے ایک برطانوی فیلڈ ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔ ’میں سوچ رہی تھی کہ اس کے دودھ کا بندوبست کہاں سے کروں گی؟ میں نے بڑی مشکل سے ہر چیز کا بندوبست کر ہی لیا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اس طرح سے خیمے میں بچی پیدا کروں گی، اتنی سردی میں، جہاں اوپر سے پانی گر رہا ہو گا۔‘
تمام مشکلات کے باوجود سلا کی پیدائش کا عمل کسی پیچیدگی کے بغیر مکمل ہوا۔ نریمان نے بتایا کہ ’اس کی صحت اچھی تھی، لیکن اچانک سردی سے متاثر ہونا شروع ہوئی۔ میں نے دیکھا وہ چھینکیں مارنے لگی تھی لیکن مجھے یہ بلکل علم نہیں تھا کہ وہ سردی سے مر جائے گی۔‘
سلا کو گزشتہ ہفتے بدھ کے دن خان یونس کے نصر ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں کے ڈاکٹر احمد نے بتایا کہ اسے شدید ہائپو تھرمیا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ’اہم اعــضا نے کام کرنا چھوڑ دیا اور آخرکار اس کی موت ہو گئی۔‘
ڈاکٹر احمد کے مطابق اس سے ایک دن پہلے دو ایسے ہی بچے لائے گئے تھے جن میں سے ایک تین دن پہلے اور ایک کی پیدائش ایک ماہ پہلے ہوئی تھی۔ دونوں کو ہائپوتھرمیا ہوا اور ان کی موت واقع ہو گئی۔
نومولود بچوں کے جسم میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کا نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہوتا اور اگر انھیں کسی ٹھنڈی جگہ رکھا جائے تو آسانی سے ہائپوتھرمیا ہو سکتا ہےنومولود بچوں کے جسم میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کا نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہوتا اور اگر انھیں کسی ٹھنڈی جگہ رکھا جائے تو آسانی سے ہائپوتھرمیا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر احمد کے مطابق ایسے بچے جن کی پیدائش نو ماہ سے پہلے ہو جاتی ہے، وہ خصوصی طور پر ایسی صورت حال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران ایسے بچوں کی پیدائش بھی زیادہ ہوئی۔
دوسری جانب ان کے مطابق ’مائیں بھی غذائیت کی کمی کا شکار ہیں اور وہ بچوں کو دودھ نہیں پلا پا رہیں۔‘ ان کے مطابق فارمولا دودھ کی بھی کمی ہے۔
ایسے میں اتوار کے دن ایک اور واقعہ پیش آیا۔ وسطی غزہ میں الاقصی مسجد کے باہر بی بی سی کے لیے ہی کام کرنے والے ایک اور کیمرہ مین کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنھوں نے اپنا مردہ بچہ اٹھا رکھا تھا۔ سلا کی طرح یہ بچہ صرف 20 دن کا تھا اور سردی کی وجہ سے اس کا رنگ نیلا ہو چکا تھا۔
یہیا نے بی بی سی کیمرہ مین سے کہا ’اس کو چھو کر دیکھو، یہ سردی سے جم چکا ہے۔ ہم آٹھ لوگوں کے پاس چار رضائیاں بھی نہیں ہیں۔ میں کیا کروں؟ میرے بچے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں۔‘
محمود جب سلا کے بے جان جسم کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے نصر ہسپتال سے خان یونس میں قائم ایک قبرستان لے جا رہے تھے تو فضا میں اسرائیلی ڈرون اڑ رہے تھےیونیسیف کے مقامی ڈائریکٹر ایڈوارڈ بیگبیڈر نے جمعرات کے دن ایک بیان میں کہا کہ ’ان اموات نے غزہ میں بچوں اور خاندانوں کو درپیش مایوس کن اور خراب حالات کو عیاں کر دیا ہے۔‘
ان کے مطابق آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں اور کمی کے باعث افسوس ناک طور پر پشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ ’ایسی غیر انسانی صورت حال کے باعث اور بچے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔‘
محمود جب سلا کے بے جان جسم کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے نصر ہسپتال سے خان یونس میں قائم ایک قبرستان لے جا رہے تھے تو فضا میں اسرائیلی ڈرون اڑ رہے تھے۔
محمود نے ریت میں ایک چھوٹی سی قبر کھودی جس میں سلا کو دفنا کر اپنی بیوی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’اس کے بہن بھائی بیمار اور تھکے ہوئے ہیں۔ ہم سب تھکے ہوئے ہیں۔ ہماری چھاتیاں درد کرتی ہیں، بارش اور سردی سے بیمار ہیں۔‘
’اگر ہم جنگ سے بچ گئے تو سردی سے مر جائیں گے۔‘