بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حق میں ریلی نکالنے والے ہندو مذہبی رہنما کی درخواستِ ضمانت عدالت نے ایک مرتبہ پھر مسترد کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کرشنا داس پرابھو کو جنوب مشرقی شہر چٹاگرام میں ایک بڑی ریلی کی قیادت کرنے پر بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے۔ہندو گروپس کا کہنا ہے کہ اگست میں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ہندوؤں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں حملے کیے جا چکے ہیں۔پبلک پراسیکیوٹر موفیض الحق کا کہنا ہے کہ کرشنا داس پرابھو کو عدالت میں نہیں پیش کیا گیا جس پر چٹاگرام میٹروپولیٹن سیشن جج صیف الاسلام نے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے جبکہ پولیس اور فوج دونوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ہندو رہنما کرشنا داس پرابھو کے وکیل نے بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے۔اس سے قبل بھی عدالت نے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی جو کرشنا داس نے بغیر وکیل کیے خود دائر کی تھی۔کرشنا داس کی نمائندگی کرنے کے خواہش مند وکلا کا کہنا ہے کہ انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر کو ایک مسلمان وکیل کی ہلاکت سے متعلق الزامات کا بھی سامنا ہے، جب نومبر میں دارالحکومت ڈھاکہ میں پرابھو کو حراست میں لیا گیا تھا۔آج جمعرات کو ہونے والی سماعت کے لیے 11 وکلا کو ڈھاکہ سے سخت سکیورٹی کے حصار میں چٹاگرم لایا گیا تھا۔بنگلہ دیش اور بیرون ممالک میں رہنے والے ہندو گروپس نے اقلیتی گروپ کو تحفظ نہ فراہم کرنے پر امن انعام یافتہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔محمد یونس کا کہنا ہے کہ اگست کے بعد سے ہندوؤں اور دیگر گروپس پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے رپورٹس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔