وینزویلا کا عقوبت خانہ جہاں ’سیاسی قیدیوں کو اس وقت تک ہوا سے محروم بند کمرے میں رکھا جاتا جب تک ان کا دم نہ گھٹنے لگے‘

جب الیکشن کمیشن نے نکولاس مادورو کی جیت کا اعلان کیا تو اس اعلان کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے۔جون نے بتایا کہ جیل میں قیدیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے۔ انھیں سڑا ہوا کھانا دیا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ مزاحمت کرے اسے ٹارچرچیمبر(عقوبت خانے) میں بند کر دیا جاتا ہے۔جون کے مطابق ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس احتجاج میں شامل ہوئے۔
عقوبت خانے میں قید آدمی کا خاکہ
BBC

’وہ مجھے پہلے ہی بے حد اذیت دے چکے ہیں اور ہر طرح کا ظلم ڈھایا ہے لیکن وہ مجھے خاموش نہیں کر سکتے۔ میری آواز ہی وہ واحد چیز ہے جو میرے پاس بچی ہے۔‘

یہ الفاظ 20 سالہ جون (فرضی نام) کے ہیں جنھوں نے اپنی کہانی کا آغاز جذبات سے بھرپور ان الفاظ سے کیا۔

جون کا دعویٰ ہے کہ انھیں وینزویلا کی سکیورٹی فورسز نے 28 جولائی کے صدارتی انتخابات کے موقع پر ہونے والے احتجاج کے دوران گرفتار کیا اور پھر انھیں بے تحاشا جسمانی اور جذباتی اذیت سے گزارا۔

جون ان سینکڑوں لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں وینیزویلا میں حکام کی جانب سے انتخابات نکولس مادورو کے جیتنے کے اعلان کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

نکولس مادورو کی جیت کے حوالے سے انتخابی ریکارڈ کو عام نہیں کیا گیا جس کے باعث وینزویلا کی اپوزیشن جماعتیں اور متعدد ممالک ان نتائج کو متنازع اور انتخابی فراڈ کہتے ہیں۔

جب الیکشن کمیشن نے نکولاس مادورو کی جیت کا اعلان کیا تو اس اعلان کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

جون کے مطابق ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس احتجاج میں شامل ہوئے۔

ان گرفتاریوں پر سرکاری اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ گزشتہ برس اگست کے شروع میں نکولس مادورو نے کہا کہ ’اب تک 2,229 دہشت گرد‘ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

نومبر کے وسط میں جب نکولس مادورو سے عدالتوں نے کہا کہ وہ گرفتار افراد کے معاملے میں کسی بھی ناانصافی کو درست کریں تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد جون کی رہائی عمل میں آ گئی۔

بی بی سی نے ان سے ویڈیو کال پر بات کی۔ ان کی حفاظت کے لیے بی بی سی نے نہ صرف ان کا اصل نام مخفی رکھا بلکہ کیس کی کچھ تفصیلات حذف کر دی ہیں۔

جون نے بتایا کہ جیل میں قیدیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے۔ انھیں سڑا ہوا کھانا دیا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ مزاحمت کرے اسے ٹارچرچیمبر(عقوبت خانے) میں بند کر دیا جاتا ہے۔

جون نے بی بی سی کو وہ دستاویزات اور شواہد دکھائے جو ان کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کی باتیں نہ صرف دیگر قیدیوں بلکہ غیر سرکاری تنظیموں کی شکایات سے بھی مطابقت رکھتی ہیں۔

نکولس مادورو
Reuters
وینیزویلا میں الیکشن کمیشن حکام نے نکولس مادورو کومتنازع انتخابات میں فاتح قرار دیا تھا

حکومت مخالف سیاسی کارکن کے طور پر جون کہتے ہیں کہ ان سمیت ملک کے بیشتر افراد نے انتخابی مہم اور انتخابات سے پہلے کے دن ایک خاص امید کے ماحول میں گزرے۔

ان کے مطابق اس دوران لوگ تبدیلی کے لیے پرجوش تھے اور ووٹ دینے کے لیے بے تاب نظر آ رہے تھے۔ لیکن اتوار کی رات، جب آدھی رات کے بعد نکولس مادورو کی جیت کا اعلان ہوا تو لوگوں میں موجود وہ خوشی اور جوش و خروش اچانک مایوسی اور غصے میں بدل گیا۔

وینزویلا کے ہزاروں شہری احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے اس نتیجے کوایک بڑی دھاندلی قرار دیا۔

یاد رہے کہ ان مظاہروں کے دوران پولیس کے سخت رویے کی بھی مذمت کی گئی ہے اور جبکہ ایک اندازے کے مطابق ان مظاہروں میں 20 سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

دوسری طرف نکولس مادورو اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ان ہلاکتوں کا الزام حزب اختلاف کے ’انتہا پسند گروہوں‘ اور ’شدت پسندوں‘ پر لگایا۔

فورو پینال نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اس دوران ایسے 23 افراد کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جو گرفتار ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے۔

تنظیم کے نائب صدر گونزالو ہیومیوب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔‘

وینزویلا کی حکومت نے ان لاپتہ افراد کے بارے میں تاحال کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا۔

گونزالو ہیومیوب نے مزید کہا، ’بہت سے لوگوں کو بلا وجہ گرفتار کیا گیا صرف اس لیے کہ انھوں نے حزب اختلاف کے امیدوار ایڈمنڈو گونزالیز کی حمایت میں خوشی منائی یا سوشل میڈیا پر کچھ لکھا۔‘

انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ افراد جو احتجاج کا حصہ بھی نہیں تھے، صرف مظاہرے کے قریب موجودگی کی وجہ سے گرفتار کر لیے گئے۔

جون کا کہنا ہے کہ وہ بھی انھی بدقسمت لوگوں میں سے ایک ہیں۔

حراستی کیمپ

قیدیوں کے کیمپ میں خاکے
Daniel Arce-Lopez/BBC
عینی شاہدین کے مطابق ٹوکورون جیل میں سزا کے دو سیل ہیں جہاں ’باغی‘ قیدیوں کو بھیجا جاتا ہے۔

جون کے مطابق وہ ایک ضروری کام کے لیے جا رہے تھے جب اچانک بعض نقاب پوش افراد نے انھیں دبوچ لیا اور ان کا چہرہ ڈھانپ کر انھیں زدوکوب کیا۔

ان افراد نے جون پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا۔

جون کہتے ہیں کہ ’انھوں نے خطرناک ہتھیار اور پٹرول رکھنے کا الزام مجھ پر عائد کیا اور مجھے پھنسانے کی کوشش کی اور پھر مجھے ایک حراستی مرکز لے جایا گیا‘

کئی ہفتوں تک انھیں وینزویلا کے ایک اندرونی علاقے کی جیل میں رکھا گیا اور اس کے بعد انھیں توکورون منتقل کر دیا گیا جو دارالحکومت کاراکاس سے تقریباً 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ونیزویلا کی ایک بدنام زمانہ ہائی سیکیورٹی جیل ہے۔

جون کا کہنا ہے کہ اس جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے بدترین دن گزارے جو ان کے لیے انتہائی تلخ یادیں ہیں۔

’جب ہم توکورون پہنچے تو ہمیں بے لباس کیا اور بے دریغ مارا گیا۔ اس دوران مسلسل ذلیل کیا گیا۔ ہمیں اپنی نظریں نیچے رکھنے کو کہا گیا جبکہ گارڈز کی طرف دیکھنا بھی منع تھا۔‘

جون کو ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا جس کا سائز تین میٹر بائے تین میٹر تھا اور اس چھوٹی سی جگہ کو انھیں پانچ دیگر افراد کے ساتھ شیئر کرنا پڑا۔

سیل میں چھ بستر تھے جو تین منزلہ بنک بیڈز کی شکل میں لگے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک سیپٹک ٹینک تھا اور ایک پائپ جو ’شاور‘ کا کام کرتا تھا۔ یہی ان کا باتھ روم تھا۔

جون کا کہنا ہے کہ ’وہاں مجھے جیل سے زیادہ ایک حراستی کیمپ میں ہونے کا احساس ہوا۔‘

جون وہاں کے بستروں کو ’کنکریٹ کی ایسی قبریں‘قرار دیتے ہیں جن پر ایک پتلی سی گدی رکھی گئی تھی۔

’ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت دی گئی۔ ہمیں سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ گارڈز بار بار آتے اور ہمیں لائن میں کھڑا ہونے کا حکم دیتے۔ ہمیں صبح پانچ بجے جگایا جاتا تھا تاکہ ہم سیل کے پیچھے لائن میں کھڑے ہوں۔ گارڈز ہم سے ہمارے پاسز اور نمبر دکھانے کا مطالبہ کرتے تھے۔‘

جون کے مطابق ’صبح چھ بجے پانی کھولا جاتا تھا، اور وہ بھی صرف چھ منٹ کے لیے، تاکہ قیدی نہا سکیں۔ چھ لوگوں کے لیے صرف چھ منٹ اور ایک ہی شاور۔ پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اگر آپ آخری نمبر پر تھے اور صابن دھونے کا وقت ختم ہو جاتا تو پورے دن صابن لگا رہتا تھا۔‘

اس جیل میں ناشتے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کبھی یہ صبح چھ بجے آتا، کبھی دوپہر 12 بجے۔اسی طرح رات کا کھانا بھی غیر یقینی تھا جو کبھی رات نو بجے ملتا، اور کبھی رات دو بجے۔

’کھانے کے انتظار کے علاوہ وہاں کچھ کرنے کو نہیں تھا۔ ہم بس سیل کے اندر گھوم سکتے تھے یا کہانیاں سنا سکتے تھے۔ کبھی ہم سیاست پر بات کرتے، لیکن آہستہ آواز میں کیونکہ اگر گارڈز سنتے تو ہمیں سزا دیتے۔‘

مار کی اذیت

جون نے بتایا کہ ان کے کئی ساتھی قیدی بہت افسردہ تھے اور وہ ایک زومبی کی طرح دکھائی دینے لگے تھے جو جذبات سے عاری ہو۔

’ہمیں سڑا ہوا کھانا دیا جاتا تھا، جیسے گوشت کے وہ ٹکڑے جو آپ مرغیوں یا کتوں کو دیتے ہیں یا وہ سارڈین مچھلی جو پہلے ہی خراب ہو چکی ہوتی تھی۔‘

جون نے بتایا کہ جیل میں کئی قیدیوں کو روزانہ مارا پیٹا جاتا تھا۔ کبھی انھیں مینڈکوں کی طرح چلنے پر مجبور کیا جاتا تھا، جس میں ان کے ہاتھ ٹخنوں پر رکھے جاتے تھے۔

جون کے لیے سب سے زیادہ ان تکلیف دہ یاد ان پنیشمنٹ سیلز کی تھی جہاں سیاست پر بات کرنے والوں، اپنے رشتہ داروں سے بات کرنے کے لیے فون کرنے کی درخواست کرنے یا ان کی بیہودہ باتوں کو ماننے سے انکار کرنے والوں کو بھیجا جاتا تھا۔

جون کہتے ہیں کہ انھیں توکورون کے ایک ایسے سیل میں رکھا گیا تھا اور جہاں ہر دو دن بعد صرف ایک وقت کھانا ملتا تھا۔

’یہ ایک بہت تاریک سیل تھا، جس کا سائز ایک میٹر بائے ایک میٹر تھا۔ میں بہت بھوکا تھا۔ مجھے جو چیز جینے کی امید دیتی تھی وہ یہ سوچنا تھا کہ جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں، ان کے باوجود ایک دن میں وہاں سے باہر آ سکوں گا۔‘

ایک اور عذاب دینے والا سیل ایڈولفو کے بیڈ کے نام سے جانا جاتا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس سیل کا نام یہاں مرنے والے پہلے شخص کے نام پر رکھا گیا تھا۔

’یہ ایک تاریک، آکسیجن سے محروم کمرہ ہوتا ہے جس کا سائز ایک تہہ خانے جتنا ہوتا ہے۔ آپ کو وہاں کچھ منٹ کے لیے ڈالا جاتا ہے یہاں تک کہ آپ کا سانس نہ اکھڑ جائے، آپ کا دم گھٹنے لگے، آپ بے ہوش نہ ہو جائیں۔ مجھے وہاں ڈالا گیا اور میں پانچ منٹ سے کچھ زیادہ ہی برداشت کر سکا۔ مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا۔‘

حراستی تشدد اور قیدیوں پر ظلم کی رپورٹس

قیدیوں کی سزا کے خاکے
Daniel Arce-Lopez/BBC
جیل کے دن کے قیدیوں کو ہر ہفتے تین بار صرف دس منٹ کے لیے اپنے سیل چھوڑنے کی اجازت ہے

جون کے مطابق ان جیلوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کی فہرست طویل ہے۔

انھوں نے بتایا کے ’جیل میں قیدیوں کو ہفتے میں تین بار باہر ورزش کرنے کے لیے صرف 10 منٹ ملتے ہیں لیکن بہت سے لوگ صرف اپنے سیلز میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔

فورو پینال کے ہیومیوب نے توکورون میں قیدیوں کی حالت کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یہاں قید ان افراد کو اپنے لیے وکیل کے انتخاب جیسے بنیادی حقوق تک کی رسائی کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

’ان سب کو حکومت کے دفاعی وکیل ملتے ہیں کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ اگر وہ کسی پرائیویٹ وکیل کو اجازت دیتی ہے جو سرکاری ملازم نہیں تو وہ ان تمام قانونی عمل کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دے سکتا ہے جو یہاں کی جا رہی ہیں۔

اکتوبر میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے صدارتی انتخاب اور اس کے بعد ہونے والے احتجاج میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ دی جن میں سیاسی طور پر تعاقب، طاقت کا حد سے زیادہ استعمال، جبری گمشدگیاں اور ماروائے عدالت قتل شامل تھے۔

بین الاقوامی کریمینل کورٹ اس وقت وینزویلا کی حکومت کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔

تاہم وینزویلا کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تحقیقات بین الاقوامی فوجداری انصاف کے نظام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی نیت کا ثبوت ہیں۔‘

بی بی سی نے حراستی تشدد اور قیدیوں پر ظلم کے الزامات کے بارے میں پبلک پراسیکیوٹ آفس سے انٹرویو کی درخواست کی تھی لیکن تا حال ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

’مجھے اب کسی کا ڈر نہیں ہے‘

مرد و عورت گلے ملتے ہوئے
Getty Images
مہینوں حراستمیں رہنے کے بعد حال ہی میں درجنوں افراد کو رہا کیا گیا ہے

جون کے مطابق توکورون میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر قیدی صرف ایک تاریخ کے بارے میں سوچتے ہیں جو ہے 10 جنوری 2025۔

وہ امید کرتے ہیں کہ اس دن انھیں رہا کر دیا جائے گا، کیونکہ یہی وہ دن ہے جب صدارتی انتخاب کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل ہونا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما ایڈمنڈو گونزالیز نے خود کو انتخاب کا فاتح قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ سپین میں اپنی جلاوطنی سے وطن واپس آئیں گے تاکہ منتخب صدر کے طور پر اپنے عہدے پر براجمان ہو سکیں۔

دوسری طرف نکولس مادورو کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ایک سازش چل رہی ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ جو بھی انتقال اقتدار کی حمایت کرے گا اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

جون کا کہنا ہے کہ انھیں عجیب سا پچھتاوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ان کے سینکڑوں ساتھی ابھی بھی جیل میں عذاب جھیل رہے ہیں تاہم وہ پرعزم ہیں کہ وہ 10 جنوری کو ایڈمنڈو گونزالیز کے ساتھ ملک کی سڑک پر حق کے لیے پھر موجود ہوں گے۔

خیال رہے کہ جون کو رہائی کے وقت (زبان بندی کی) دھمکیاں بھی ملی تھیں۔

حال ہی میں غیر سرکاری تنظیم پروویا نے حزب اختلاف کے سیاستدان ایڈون سانتوس کی موت کی مذمت کی تھی جو 25 اکتوبر کو مردہ پائے گئے تھے۔ گواہان نے بتایا کہ ان کے گرفتار ہونے سے دو دن پہلے نقاب پوش افراد کے گروہ نے انھیں حراست میں لیا تھا جو مبینہ طور پرسکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔

جون کو اندازہ ہے کہ ان کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور اس امکان ے پیش نظر انھوں نے پہلے ہی تحریری بیانات لکھ رکھے ہیں تاکہ ان کو کچھ ہونے کی صورت میں وہ کام آ سکیں۔

جون نے گفتگو کے آخر میں اپنا عزم دہرایا ’مجھے اب کسی کا ڈر نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.