بنگلہ دیش کی عدالت نے جلاوطنی اختیار کرنے والی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی گرفتاری کے وارنٹ دوسری بار جاری کر دیے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے منگل کو کہا کہ اس بار جبری گمشدگیوں کے مبینہ کردار کے حوالے سے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے 77 سالہ حسینہ واجد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جا چکے ہیں، جن میں ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات لگائے گئے تھے۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ اگست میں چلنے والی طلبہ کی ایک احتجاجی تحریک کے نتیجے میں الٹ دیا گیا تھا اور وہ قریبی اتحادی انڈیا فرار ہو گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق 15 سال پر مشتمل ان کے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں، جن میں بڑے پیمانے پر سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے مقامی چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام کا کہنا ہے کہ ’دوسری بار جاری ہونے والے وارنٹس ان کے دور میں ہونے والی جبری گمشدگیوں سے متعلق ہیں۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے سکیورٹی حکام نے 500 سے زائد افراد کو مبینہ طور پر اغوا کیا تھا، جن میں سے کچھ کو برسوں تک خفیہ مقامات پر رکھا گیا۔
اس سے قبل جاری ہونے والے وارنٹ میں حسینہ واجد پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا الزام لگایا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد متاثرین ان کے ساتھ ہونے والے مبینہ مظالم کی داستانوں کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوئے۔
تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ ’عدالت نے شیخ حسینہ واجد اور 11 دوسرے افراد کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں جن میں ان کے فوجی مشیر کے علاوہ، فوجی حکام اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے حکام بھی شامل ہیں۔‘
بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے دسمبر میں انڈیا سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ شیخ حسینہ واجد کو واپس بھیجا جائے تاکہ وہ مقدمات کا سامنا کریں، تاہم انڈیا نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔
تاج الاسلام کا کہنا تھا کہ ’کورٹ مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مقدمے کی کارروائی جلد از جلد تکمیل تک پہنچے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قانون کو توڑیں گے یا مقدمے کے لیے ضروری قانونی عمل کے بغیر ہی فیصلہ مسلط کریں گے۔‘
حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے درجنوں ساتھیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی شورش کے دوران اس پولیس کریک ڈاؤن میں ملوث تھے، جس کے نتیجے میں 700 افراد ہلاک ہوئے۔