سنہ 1966 میں امریکہ میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ کتب اور رسائل انڈیا بشمول پاکستان اور نیپال سے امریکی یونیورسٹیوں میں بھجوائے گئے۔تو کیا اناج کے بدلے کتابوں کی ڈیل نے فائدہ دیا؟
سنہ 1996 میں شکاگو کی ریجینسٹین لائبریری میں، پی ایچ ڈی کی طالبہ آننیا واجپائی کو جنوبی ایشیا کی معروف کتابوں کا ذخیرہ ملا۔
آننیا جو وہاں انڈیا کے سینٹر برائے ڈویلپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی سی) میں فیلو ہیں نے مجھے بتایا کہ میں نے آکسفرڈ اور کیمبریج، ہارورڈ اور کولمبیا سمیت دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں وقت گزارا مگر جنوبی ایشیا کے حوالے سے شکاگو یونیورسٹی کے مقابلے میں کہیں کچھ نہیں۔
132 سالہ شکاگو یونیورسٹی میں آٹھ لاکھ کتابوں سے زیادہ جنوبی ایشیا سے ہیں اور اس تعداد کے ساتھ یہ اس خطے کے بارے میں معلومات پر دنیا کی سب سے بڑے ذخیرے میں سے ایک ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیائی لٹریچر کا اتنا بڑا خزانہ یہاں تک پہنچا کیسے؟
اس سوال کا جواب امریکہ کی جانب سے پبلک لا 480 کی صورت میں لیے جانے والے اقدام میں چھپا ہے جو اس نے 1954 میں شروع کیا۔ امریکہ کا یہ اقدام ’فوڈ فار پیس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کی سفارت کاری کی پہچان بنا۔
ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اس قانون پر دستخط کیے تھے۔ پبلک لا 480نے دراصل انڈیا جیسے ممالک کو یہ اختیار دیا کہ وہ امریکی اناج کو مقامی کرنسی میں خریدیں، یہ ان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے بوجھ کو کم کرنے کا باعث بنا۔ انڈیا اس امدادی خوراک کو حاصل کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک تھا۔
خاص طور پر سنہ 1950 سے 1960 کی دہائی کے دوران جب یہ بہت زیادہ غذائی قلت کا سامنا کر رہا تھا۔ اس میں شامل ہونے والی یونیورسٹیوں کو مقامی کرنسی میں کم سے کم قیمت پر فنڈ دیے گئے۔
ان فنڈز کو مقامی کتابوں، رسائل، فونوگراف ریکارڈ اور متعدد انڈین زبانوں میں دیگر میڈیا مواد کو خریدا گیا، جس سے دو درجن سے زائد یونیورسٹیوں میں موجود کلیکشن میں اضافہ ہوا۔
اس کے نتیجے میں یونیورسٹی آف شکاگو جیسے ادارے جنوبی ایشیائی مطالعے کا مرکز بن گئے۔ (ہندوستانی قدیمی قوانین کی وجہ سے مخطوطات کو خارج کر دیا گیا تھا۔)
شکاگو یونیورسٹی میں ڈیجیٹل ساؤتھ ایشیا لائبریری کے ڈائریکٹر جیمز نائے نے بی بی سی کو بتایا کہ شکاگو یونیورسٹی اور دیگر 30 سے زائد امریکی کلیکشنز پر پی ایل 480 کے حیرت انگیز اور غیر یقینی اثرات تھے۔
جنوبی ایشیا سے اس متاثر کن لائبریری کلیکشن کو بنانے کا عمل اتنا آسان نہیں تھا۔
سنہ 1959 میں دلی میں 60 انڈین اہلکاروں پر مشتمل خصوصی ٹیم بنائی گئی۔ ابتدا میں ان کی توجہ سرکاری اشاعتی مواد کو منتخب کرنے پر مرکوز تھی، پھر یہ پروگرام پانچ سال تک کے لیے بڑھادیا گیا اور اس میں کتابوں اور رسالوں کو بھی شامل کر دیا گیا۔
جنوبی ایشیائیمطالعے کے حوالے سے ایک نامور ببلیو گرافر مورئین ایل پی پیٹرسن کے مطابق سنہ 1968 تک 20 امریکی یونیورسٹیاں ایسی تھیں جو یہ مواد اس بڑھتے ہوئے ذخیرے سے حاصل کر رہی تھیں۔
سنہ 1969 میں شائع ہونے والے ایک پیپر/ مقالےمیں پیٹرسن نے کہا کہ پی ایل 480 کے ابتدائی عرصے میں انڈیا میں موجود ٹیم کو ایک بڑے اور متنوع ملک میں جہاں زبانوں کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہے کتابوں کو حاصل کرنے میں مشکلات تھیں۔
پیٹرسن جن کی سنہ 2012 میں وفات ہو گئی نے لکھا کہ ’انھیں ایسے کتب فروشوں کی مہارت کی ضرورت تھی جو اچھی پرکھ اور کارکردگی رکھتے ہوں۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے حجم اور ادبی منظر نامے کی پیچیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ایک ڈیلر خریداری کو اکیلے نہیں ہینڈل کر سکتا تھا۔
اس کے بجائے ڈیلرز کو مختلف اشاعتی مراکز سے منتخب کیا گیا، اس میں ہر ایک خاص زبانوں یا زبانوں کے گروہ پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔
پیٹرسن کے مطابق یہ باہمی تعاون بنا کسی رکاوٹ کے کام آیا، ڈیلرز نے وہ ٹائٹلز بھجوائے جن کی منظوری کے بارے میں انھیں یقین نہیں تھا۔اس سلسلے میں حتمی چناؤ کا اختیار دلی میں موجود دفتر کے پاس تھا۔
یہ پروگرام تمام انڈین زبانوں میں موجود فکشن کو اکھٹا کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔
پیٹرسن نے لکھا کہ’پالیسی نے جاسوسی کہانیوں اور ناولوں کی بڑی تعداد کو اکھٹا کیا جن کی کوئی دیرپا اہمیت نہیں تھی۔‘
سنہ 1963 میں پھر کتابوں کا چناؤ تحقیقی مواد تک لے جایا گیا اور بہت سی زبانوں میں فکشن پر مبنی کتب کی تعداد نصف ہو گئی۔
سنہ 1966 میں امریکہ میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ کتب اور رسائل انڈیا بشمول پاکستان اور نیپال سے امریکی یونیورسٹیوں میں بھجوائے گئے۔اس مواد میں انڈیا سے آنے والے رسائل اور کتب کی تعداد چھ لاکھ تینتیس ہزار سے زیادہ تھی۔
1967 میں اس پروگرام پر ایک امریکی لائبریری میں ہونے والی میٹنگ کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ہم نے 1000 سے 1770 عیسوی تک ہندوستان کی تاریخ، ہندوستان میں دستکاری، ہندو ثقافت اور شخصیت: ایک نفسیاتی مطالعہ، اور بہت کچھ ایسے کام بھیجے ہیں۔‘
یونیورسٹی آف وسکونسن – میڈیسن میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے لائبریرین ٹوڈ مائیکلسن-امبیلانگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکہ اور دیگر مغربی لائبریریوں میں خطے کے وسیع ذخیرے نے برصغیر پاک و ہند سے ادبی وسائل چھین لیے ہیں۔
سرد جنگ کے تناؤ کے دوران قائم کیا گیا اورپی ایل 480 کے ذریعے فنڈ دیا گیا، ان کی یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائیمرکز نے اپنی لائبریری کو 21 ویں صدی تک 200,000 سے زیادہ عنوانات تک پہنچا دیا۔
میچلسن ایمبی لانگ نے بی بی سی کو بتایا کہ پی ایل 480 جیسے پروگراموں کے ذریعے جنوبی ایشیا سے کتانوں کو ہٹائے جانے نے علم کے بیچ فاصلے پیدا کیے، جیسے کہ محققین کو اکثر ان وسائل تک پہنچنے کے لیے مغرب کا سفر کرنا پڑتا تھا۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا اس وقت امریکی یونیورسٹیوں کے لیے جن کتابوں کو انڈیا سے لیا گیا تھا کیا وہ اب بھی موجود ہیں۔
انڈیا کی فلیم یونیورسٹی سے وابستہ مایا ڈوڈ کہتی ہیں کہ بہت سی کتابیں جو شکاگو یونیورسٹی میں لائبریری کے ذخیرے میں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان تمام پر پی ایل 480 کی سٹیمپ لگی ہوئی ہے ، ان میں سے بہت سی کتب اب انڈیا میں دستیاب نہیں ہیں۔
میچلسن ایمبی لانگ کا کہنا ہے کہ عام طور پر جو کتابیں پی ایل 480 پروگرام کے ذریعے لائی گئی اب بھی جنوبی ایشیا میں موجود ہیں تاہم ان کو محفوظ رکھنا سفید چیونٹیوںاور کیڑوں، اور مناسب درجہ حرارت کی کمی اور نمی کو کنٹرول نہ کر سکنے کی وجہ سے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں موجود زیادہ تر مواد اچھے طریقے سے محفوظ ہوتا ہے، ہماری لائبریریوں کی محفوظ کرنے کی کوششوں کا شکریہ۔
مائیکلسن امبیلانگ کی جانب سے مغربی لائبریریوں کو نوآبادیاتی آرکائیوز کہنے کی ایک اور وجہ ’جزوی طور پر یہ ہے کہ وہ ماہرین تعلیم کی خدمت کرتی ہیں، اکثر باہر کے اداروں سے منسلک کو یہ سہولت نہیں دیتیں۔جب کہ لائبریرین جنوبی ایشیائی مواد تک رسائی میں تفاوت کو سمجھتے ہیں، کاپی رائٹ قوانین اشتراک کو محدود کرتے ہیں، ان خلا کو تقویت دیتے ہیں۔‘
تو پھر کیا ہوا جب پی ایل 480 پروگرام بند ہو گیا؟
نائے کا کہنا ہے کہ سنہ 1980 میں اس پروگرام کا خاتمہ ہوا اور اس سے مالی بوجھ امریکی لائبریریوں پر پڑا۔
ان کا کہا ہے کہامریکی یونیورسٹیوں میں اس مواد کے چناؤ، خریداری، اکھٹا کرنے اور پہنچانےکے لیے ادائیگیاں کرنی ہوتی تھیں۔
مثال کے طور پر شکاگو یونیورسٹی ہر سال دلی میں لائبریری آف کانگرس فیلڈ کے دفتر سےکتابوںاور رسائل کی خریداریکے لیےایک لاکھ ڈالر سے زیادہ تک خرچ کرتی ہے۔
آننیا واجپائی کا ماننا ہے کہ اناج کے بدلے کتابوں کی ڈیل کا مثبت نتیجہ نکلتا ہے۔
انھوں نے سنسکرت پڑھی ہے لیکن شکاگو یونیورسٹی میں ان کی ریسرچ کا احاطہ انڈین اور یورپی زبانوں- فرینچ، مراٹھی، جرمن اور ہندی تک تھا۔ انھوں نے لسانیات، لٹریچر، فلسفے اور بشریات اور دیگر کو بھی پڑھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ریجینٹین لائبریری میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے کبھی کتابوں کو حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی ہو، یا انھیں جلد حاصل نہ کر پائی ہوں جبکہ وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔
آننیا واجپائیکا کہنا ہے کہ کتابیں محفوظ، قابل قدر، قابل رسائی اور استعمال شدہ ہیں۔ میں نےانڈیا کے ہر حصے میں لائبریریوں، آرکائیوز اور اداروں کا دورہ کیا ہے اور ہمارے ملک کی کہانی مایوس کن ہے۔
یہاں وہ یا تو گم ہو گئی ہیں یا تباہ ہو چکی ہیں یا عدم توجہی کا شکار ہیں یا اکثر ان تک رسائی کو ناممکن کر دیا گیا ہے۔