عرفان خان جو فلم میں ’کردار ایڈٹ ہو جانے پر ساری رات روتے رہے‘

image
’میں بہت سے منصوبے اور خواب لیے اپنی ہی ترنگ میں تیزی سے چلا جا رہا تھا کہ اچانک ٹکٹ کلکٹر نے پیٹھ پر تھپکی دی کہ آپ کا سٹیشن آ رہا ہے، ازراہِ مہربانی اُتر جائیں۔‘

یہ الفاظ اداکار عرفان خان کے ہیں جو انہوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک دوست کے نام ایک خط میں لکھے تھے۔

اداکار کی زیست کے اوراق پلٹنے سے قبل سنہ 2007 میں آئی ایک فلم کا ذکر کرتے چلیں، یہ فلم تھی ’1:40 کی لاسٹ لوکل‘ جس میں ابھے دیول نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں نوازالدین صدیقی بھی تھے، مگر اُن کا کردار ایک ایکسٹرا سے زیادہ نہیں تھا۔ اور صرف چند ہی برس بعد اُن کا شمار بالی وُڈ کے صفِ اول کے اداکاروں میں ہونے لگا۔

آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ ذکر عرفان خان کا ہو رہا تھا تو یہ نوازالدین صدیقی درمیان میں کہاں سے آ گئے؟

ایک اور فلم کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سنہ 1988 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سلام بمبے‘ تھی، اس فلم میں 18/20 برس کے ایک لڑکے کا مختصر کردار بھی تھا، ایک دو مکالمے اور بس۔

اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ’سنہ 1986 میں نیشنل سکول آف ڈرامہ کے دورے پر مِیرا نائر اپنی فلم میں سٹریٹ کڈز کے کرداروں کے لیے تربیت یافتہ اداکاروں کی تلاش میں تھیں تو عرفان اُن کا انتخاب ٹھہرے۔‘

انہوں نے ذکر کیا تھا کہ ’میں اُس کی توجہ، اُس کی شدت، اُس کی غیرمعمولی شخصیت اور آنکھوں سے متاثر ہوئی۔‘

اخبار کے مطابق ’مِیرا نائر نے جب عرفان کو یہ بتایا کہ فلم میں اُن کا کردار ایڈٹ کرنے کے بعد نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے تو وہ ساری رات روتے رہے۔‘

اداکار نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اِس تجربے نے مجھ میں کچھ تبدیل کر دیا۔ اور میں کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔‘

اور ہوا بھی ایسا ہی، عرفان خان نے آگے چل کر بالی وُڈ میں ہی نہیں بلکہ ہالی وُڈ میں بھی اپنی منفرد شناخت قائم کی۔

عرفان ’سلام بمبے‘ کے بعد ’کملا کی موت‘، ’اِک ڈاکٹر کی موت‘ اور ’درشتی‘ جیسی فلموں میں نظر آئے مگر اُن کو اپنی پہچان، اپنی شناخت بنانے کے لیے ابھی طویل جدوجہد کرنا تھی۔

فلم ’سلام بمبے‘ میں عرفان خان نے ایک مختصر کردار ادا کیا تھا۔ (فوٹو: ایکس فلم ہسٹری پکس)

’کیا دِلی کیا لاہور‘ کے ہدایت کار اور اداکار وجے راز درست ہی تو کہتے ہیں کہ ’سٹرگل وہ ہوتی ہے جو ایک چوکیدار کرتا ہے۔ وہ 12 ہزار روپے ماہانہ میں اپنے چار بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ وہ چوکیداری کرنا نہیں چاہتا لیکن وہ کرتا ہے۔ جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور آپ وہ کر رہے ہیں تو یہ سٹرگل نہیں بلکہ پریویلج ہے۔ یہ انتخاب زندگی میں ہر کسی کو نہیں ملتا۔‘

وجے راز کی بات ہوئی ہے تو اُن کی فلم ’کیا دِلی کیا لاہور‘ غالباً وہ واحد فلم ہے جو لاہور کے واہگہ بارڈر پر ریلیز ہوئی تھی۔ واہگہ بارڈر کے ذکر سے یاد آیا کہ عرفان خان کی بھی یہ دیرینہ آرزو تھی کہ وہ پاکستان انڈیا کی سرحد پر پتنگ بازی کریں۔

سنہ 2017 میں ریلیز ہوئی فلم ’دی سانگ آف سکارپیئنز‘ میں عرفان کے ساتھ اداکار ششانک اروڑا بھی بڑے پردے پر نظر آئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب اداکار کی صحت خراب رہنے لگی تھی، مگر انہوں نے اپنی شرائط پر جینا نہیں چھوڑا تھا۔

اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ ششانک اروڑا کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’ہم جب فلم ’دی سانگ آف سکارپیئنز‘ کے لیے ملے تو وہ (عرفان) بہت زیادہ بیمار تھے۔ وہ تکلیف میں تھے۔ میری اُن دنوں کی بہت خوبصورت مگر پریشان کن یادیں ہیں۔‘

وہ ذکر کرتے ہیں کہ ’انہوں نے ایک روز مجھ سے کہا کہ بائیک نکالو، سرحد تک چلتے ہیں اور پھر ہم پتنگ اُڑائیں گے۔ میرا ردِعمل تھا ’لیکن وہاں کیوں تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے، میں سرحد پر پتنگ اُڑانا چاہتا ہوں اور یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون اسے پہلے نشانہ بناتا ہے۔‘

ششانک اروڑا جب فلم ’دی سانگ آف سکارپیئنز‘ کے لیے عرفان خان سے ملے تو وہ بہت زیادہ بیمار تھے۔ (فوٹو: او ٹی ٹی پلے)

بات عرفان خان کی ہو رہی ہے تو یہ ذکر کرتے چلیں کہ اداکاری کو ایک نیا آہنگ دینے والا یہ فنکار آج ہی کے روز سات جنوری 1967 کو راجھستان کے ایک چھوٹے سے شہر ٹونک میں پیدا ہوا۔

اداکار نے انڈیا کے راجیہ سبھا ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا بچپن زیادہ تر جے پور میں گزرا۔ چھٹیوں میں ہم اپنی والدہ اور والد کے شہر ٹونک آ جایا کرتے تو یوں ایک طرح سے ٹونک میں بھی بچپن گزرا۔‘

خاندان میں کوئی اداکار نہیں تھا اور تو اور فلمیں دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اداکار نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سال میں ایک آدھ بار جب چچا آیا کرتے تو یہ ہوتا تھا کہ چچا آئے ہیں تو وہ اب ہمیں سینما لے کر جائیں گے۔‘

انہوں نے اسی انٹرویو میں اپنی اوائل عمری کا قصہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’متھن چکرورتی کی فلم ’مر گیا‘ آئی ہوئی تھی۔ کسی نے کہا تیرا چہرہ متھن سے ملتا ہے۔ بس مجھے لگا کہ میں بھی فلموں میں کام کر سکتا ہوں۔ کئی دنوں تک میں متھن جیسے بال بنا کر گھومتا رہا۔‘

یہ عرفان کی جدوجہد کے دن تھے یا پھر وجے راز کے الفاظ میں یہ اُن کا پریولیج تھا کہ وہ اپنی مرضی کا کام کر رہے تھے۔ اداکار نے بہرحال دلی کے نیشنل سکول آف ڈرامہ سے سنہ 1987 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ فلموں اور ڈراموں میں کام کیا مگر بات بن نہ سکی۔ اِن میں ایک قابلِ ذکر ڈرامہ ’کہکشاں‘ بھی تھا جسے معروف شاعر علی سردار جعفری نے پروڈیوس کیا تھا اور اس میں عرفان نے مارکسسٹ اُردو شاعر مخدوم محی الدین کا کردار ادا کیا تھا۔

عرفان خان نے سنہ 2016 میں ٹام ہینکس کے ساتھ ہالی وُڈ فلم ’انفرنو‘ میں بھی کام کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2001 میں آصف کپاڈیہ نے انہیں فلم ’دی واریئر‘ میں کاسٹ کیا تو وہ اپنی جاندار اور حقیقت کے قریب تر اداکاری سے فلم بینوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے، جس کے بعد اُن کے لیے بالی وُڈ کے دروازے کھل گئے۔

اداکار اپنی جدوجہد کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں اس انتظار میں تھا کہ کب ایسا کام کروں گا جو مجھے دیکھ کر اچھا لگے۔‘

’بہت بوریت ہوئی کہ یہ جو میں ایکٹنگ کر رہا ہوں اتنے برس سے، دل نہیں لگ رہا اس میں تو ایسا احساس ضرور ہوا کہ چھوڑ دیتے ہیں، کچھ اور کرتے ہیں۔‘

سنہ 2003 عرفان کے فنی سفر میں فیصلہ کن ثابت ہوا جب اُنہوں نے تگمانشو دھولیا کے ساتھ فلم ’حاصل‘ اور وشال بھردواج کے ساتھ فلم ’مقبول‘ میں کام کیا۔ ان دونوں فلموں کو ہی ناقدین کی جانب سے سراہا گیا جبکہ ’حاصل‘ پر تو اداکار کو بہترین منفی کردار ادا کرنے پر فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آنے والے برسوں میں اداکار نے ان دونوں ہدایت کاروں کے ساتھ دوبارہ بھی کام کیا۔

تگمانشو دھولیا کی فلم ’پان سنگھ تومر‘ پر ہی عرفان کو بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ ملا تھا جبکہ وہ ہدایت کار کی سنہ 2013 میں آئی فلم ’صاحب، بیوی اور گینگسٹر ریٹرنز‘ میں بھی بڑے پردے پر نظر آئے۔

تگمانشو دھولیا نے عرفان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ ایک ایسے اداکار تھے جن کے لیے کردار لکھنے میں مزہ آتا تھا۔ میں اُن کے لیے پیچیدہ کردار اور حالات کو لکھنا پسند کرتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اسے سمجھ سکیں گے اور ادا کر سکیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کوئی دوسرا اداکار نہیں ہے جس کو یہ سمجھ ہو۔‘

عرفان خان کو فلم ’حاصل‘ میں بہترین منفی کردار ادا کرنے پر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

سنہ 2007 میں اداکار کی ایک اور اہم فلم ’لائف اِن اے میٹرو‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم باکس آفس پر تو کامیاب رہی ہی بلکہ ناقدین کی جانب سے بھی اس فلم کو سراہا گیا۔ اس فلم پر عرفان کو بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ ملا۔ اس دوران اداکار ’نیم سیک‘، ’اے مائٹی ہارٹ‘ اور ’دارجلنگ لمیٹڈ‘ جیسی فلموں کے ذریعے عالمی سطح پر شہرت حاصل کر چکے تھے مگر انہوں نے ٹیلی ویژن سے اپنا ناتا نہیں توڑا۔

سنہ 2008 میں ہی ہالی وُڈ کی فلم ’سلم ڈاگ میلنئر‘ ریلیز ہوئی جس میں عرفان نے مختصر مگر جاندار کردار ادا کیا تھا جس پر فلم کے ہدایت کار ڈینی بوئل بھی اَش اَش کر اُٹھے تھے۔ اس دوران وہ امریکی فلم ’نیویارک، آئی لَو یو‘ کے علاوہ ایچ بی او کی سیریز ’اِن ٹریٹمنٹ‘ میں بھی نظر آئے۔

بات عرفان کے فن و زیست کی ہو رہی ہو تو اُن کی فلم ’لنچ باکس‘ پر بات نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں۔ سنہ 2013 میں ریلیز ہوئی اس فلم کو نہ صرف بین الاقوامی فلمی میلوں میں سراہا گیا بلکہ یہ باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔ اس فلم میں عرفان کے ساتھ اداکارہ نمرت کور نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جو اِن دنوں اداکار ابھیشک بچن کے ساتھ افیئر کے باعث خبروں میں ہیں۔

اخبار ’انڈیا ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ ’لنچ باکس عرفان کے کیریئر کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے جس میں درمیانی عمر کے ایک مرد کی ایک گھریلو خاتون سے دوستی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ‘

اداکار بالی وُڈ میں اگر ’غنڈے‘، ’حیدر‘ اور ’پیکو‘ جیسی فلموں میں نظر آئے تو اس دوران وہ ہالی وُڈ فلم ’جراسک پارک‘ میں بھی نظر آئے۔ ’تلوار‘ اور ’جذبہ‘ میں ایک بار پھر اُن کی اداکاری کو سراہا گیا جبکہ سنہ 2016 میں ٹام ہینکس کے ساتھ ہالی وُڈ فلم ’انفرنو‘ میں دکھائی دیے۔

عرفان خان کو فلم ’ہندی میڈیم‘ پر بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ (فوٹو: فلپ کارٹ)

سنہ 2017 میں ان کی فلم ’ہندی میڈیم‘ باکس آفس پر زبردست کامیاب رہی جس پر انہیں بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ خیال رہے کہ پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے اس فلم کے ذریعے ہی بالی وُڈ ڈبیو کیا تھا۔

اداکارہ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فلم کے بعد جب اُن (عرفان) کی صحت بگڑنے لگی تو میں اُن کو کال کرنے کا سوچتی رہی لیکن میں شوٹنگ اور سفر میں اس قدر مصروف تھی کہ اُن سے بات نہیں ہو سکی۔ ایک روز مجھے ان کی وفات کی خبر ملی اور میں ٹوٹ گئی۔ ‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ ایک زبردست اداکار تھے، ایک شاندار انسان۔ مزہ آ گیا اُن کے ساتھ کام کر کے۔ میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔‘

عرفان نے اپنے کیریئر میں متنوع اور عام ڈگر سے ہٹ کر کردار ادا کیے۔ وہ اگر مختصر کرداروں میں بھی نظر آئے تو اپنی گہری چھاپ چھوڑنے میں ضرور کامیاب رہے جس کی ایک مثال ’سلم ڈاگ ملینئر‘ ہے، جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ’کبھی کبھی کوئی کردار آپ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ آپ کو بہت کچھ سکھا رہا ہوتا ہے۔‘

معروف مصنف اسیم چھابڑا اپنی کتاب ’عرفان خان: دا مین، دا ڈریمر، دا سٹار‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 2020 میں عرفان نیویارک میں ایک ریستوران میں تھے تو سامنے والی میز پر انہوں نے ہالی وُڈ اداکار مارک رفلو کو دیکھا۔ عرفان ایک مداح کی طرح اُن سے ملنا چاہتے تھے لیکن ہچکچا رہے تھے کیوںکہ وہ بڑا نام تھے۔ اسی اثنا میں مارک رفلو خود اُٹھ کر اُن کے پاس آئے اور گویا ہوئے، آپ کا کام دیکھا سلم ڈاگ میں۔ آپ نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔‘

عرفان خان نے فلم ’سلم ڈاگ ملینئر‘ بارے میں کہا تھا کہ ’کبھی کبھی کوئی کردار آپ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ آپ کو بہت کچھ سکھا رہا ہوتا ہے۔‘ (فوٹو: شٹر سٹاک)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اداکار کا پورا نام صاحب زادہ عرفان علی خان تھا مگر انہوں نے پہلے تو اپنے نام کے انگریزی ہجوں میں ایک ’آر‘ کا اضافہ کیا کیوں کہ اُن کے خیال میں اس اضافی ’آر‘ کی آواز اُن کے کانوں کو بھلی لگتی ہے جس کے بعد اپنے نام کے ساتھ سے ’خان‘ بھی ہٹا دیا کیوںکہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ ’میں اپنے کام سے اپنی پہچان بنانا چاہتا ہوں، اپنے نسب سے نہیں۔‘

سنہ 2018 میں اداکار کو نیورواینڈروکرائن ٹیومر کی تشخیص ہوئی جس پر انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی کہ ’وہ پُرامید ہیں کہ وہ مزید کہانیاں سنانے کے لیے جلد واپس آئیں گے۔‘ وہ مگر ایک ہی فلم ’انگریزی میڈیم‘ میں کام کر سکے جو اُن کی وفات سے ایک ماہ قبل ریلیز ہوئی تھی۔

انہوں نے اُن دنوں سماجی میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’میرے جسم میں کچھ ’ان چاہے‘ مہمان ہیں جو مجھے مصروف رکھے ہوئے ہیں۔‘

عرفان کی نجی زندگی کبھی خبروں میں نہیں رہی۔ انہوں نے سنہ 1995 میں شادی کی۔ اُن کے دو بیٹے ہیں، بابل اور آیان۔ بابل اداکار کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے ہیں اور نیٹ فلیکس سیریز ’دی ریلوے مین‘ میں اُنہوں نے متاثرکن اداکاری سے فلم بینوں کو چونکا دیا تھا۔

عرفان خان بالی وُڈ میں ایک عہد کے نمائندہ فنکار تھے جو اپنی آنکھوں کے تاثرات سے اداکاری کرنے میں یکتا تھے اور مکالمے یوں کردا ادا کرتے کہ اُن میں غیرمعمولی شدت پیدا ہو جاتی۔

یہ بے مثل فنکار 29 اپریل 2020 کو چل بسا مگر وہ اپنی فلموں کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں اور سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.