دنیا اگلی عالمی وبا کے لیے تیار ہے یا نہیں، ماہرین کیا کہتے ہیں؟

image
کیا دنیا آئندہ آنے والی عالمی وبا کے لیے تیار ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کورونا وائرس گزرنے کے پانچ سال بعد آج بھی سائنسدانوں کے لیے غور طلب ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت اپنی تمام تر توجہ اس بات کا تعین کرنے پر مرکوز کیے ہوئے ہے کہ آئندہ کس ملک، خطے یا علاقے میں خطرناک صورتحال جنم لے سکتی ہے اور دنیا کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے قابل بنایا جائے۔

اگرچہ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں دنیا پہلے سے اب زیادہ تیار ہے بالخصوص 2019 کے مقابلے میں جب کورونا کی لہر عالمی وبا بن کر ابھری تھی، لیکن اس کے باوجود عالمی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ہم مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم سے جب سوال کیا گیا کہ ’اگر آج عالمی وبا کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے تو کیا دنیا کو ماضی والی کمزوریوں سے ہی گزرنا پڑے گا‘ اس پر ان کا کہنا تھا ’ہاں اور نہیں بھی۔‘

تاہم ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا کہ کورونا نے بہت سے دردناک سبق سکھائے ہیں اور دنیا نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات بھی کیے۔

عالمی ادارہ صحت کے وبائی امراض کی تیاری کے حوالے سے ایک خودمختار پینل نے ویکسین اور دیگر حفاظتی مواد تک غیرمساوی رسائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سال 2025 میں دنیا ایک اور عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘ 

نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والی وائرس کی ماہر ماریون کوپمینز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایم آر این اے ویکسینز کی جلد اور کامیاب تیاری ’گیم چینجر‘ ثابت ہوئی ہے۔

جبکہ عالمی سطح پر چند ایسے اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ آئندہ آنے والی عالمی وبا سے بہتر انداز میں نمٹا جا سکے۔

برلن میں قائم کیا گیا اقوام متحدہ کا ’پینڈیمک اینڈ انٹیلیجنس‘ سینٹر خطرات کی جانچ کرنے اور ان میں کمی لانے کے حوالے سے کام کر رہا ہے۔

برڈ فلو کے بڑھتے ہوئے کیسز نے عالمی وبا کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

عالمی بینک کا پینڈیمک کے حوالے سے فنڈ سال 2022 سے 75 ممالک میں 50 منصوبوں کے لیے 885 ملین ڈالر جاری کر چکا ہے۔

علاوہ ازیں ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے ایک سینٹر جنوبی افریقہ میں بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری کو بہتر بنایا جا سکے۔

عالمی سطح پر ماہرین اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگلی عالمی وبا کہاں جنم لے گی۔

دوسری جانب لندن کے امپیریئل کالج سے وابستہ وائرس کے ماہر ٹام پیکاک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایچ فائیو این ون برڈ فلو کے وبا میں تبدیلی کے امکان کو ’بہت سنجیدگی‘ سے لینا چاہیے۔

عالمی ادارہ صحت نے 1,652 پیتھوجنز جو زیادہ تر وائرس ہی ہوتے ہیں کا جائزہ لینے کے لیے 200 آزاد سائنسدانوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ سائنسدانوں نے 30 ایسے پیتھوجنز کی شناخت کی ہے جو اولین ترجیح کے حامل ہیں۔

ان میں سے اکثر پیتھوجن کورونا، ایبولا، لاسا بخار، ایم ای آر ایس، سارس اور زیکا وائرس کا باعث بنے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت فی الحال وسیع معلومات اکھٹی کرنے اور انسداد کے لیے ایسے اقدامات لینے کی کوشش کر رہا ہے جن کو بروئے کار لاتے ہوئے خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.