داعش کے خلاف امریکی فوج کا شام میں رہنا ضروی ہے: وزیر دفاع

image
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی امریکی افواج کو شام میں تعینات رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ داعش کو دوبارہ بڑے خطرے کے طور پر اُبھرنے سے روکا جا سکے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہاں امریکی افواج کی اب بھی ضرورت ہے، خاص طور پر ان حراستی کیمپوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جہاں دسیوں ہزار داعش کے سابق جنگجو اور اُن کے خاندان کے افراد موجود ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ان کیمپوں میں داعش کے آٹھ سے دس ہزار جنگجوؤں کو رکھا گیا ہے جن میں سے دو ہزار کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اگر شام کو غیرمحفوظ رکھا گیا تو ’میرا خیال ہے کہ داعش کے جنگجو دوبارہ مرکزی دھارے میں آ جائیں گے۔‘

امریکی وزیر دفاع نے یہ گفتگو جرمنی کی رامسٹین ایئربیس پر پہنچنے کے بعد کی جہاں وہ یوکرین کی فوجی امداد کے حوالے سے 50 شراکت دار ملکوں سے بات چیت کریں گے۔

لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’ہمیں داعش کے گلے پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے میرے خیال میں ابھی مزید کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران سنہ 2018 میں شام سے امریکی افواج واپس بلانے کی کوشش کی تھی جس کے باعث اُس وقت کے وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

شام میں گزشتہ ماہ جب حیات تحریر الشام گروپ نے بشار الاسد حکومت کے خلاف پیش قدمی کی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا کہ امریکی فوج کو اس تنازعے سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

شام میں داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کے تقریباً دو ہزار فوجی ہیں، یہ اُس تعداد سے کہیں زیادہ ہے جو حکام کے مطابق سنہ 20115 میں پہلی بار بھیجی گئی تھی اور 900 اہلکاروں پر مشتمل تھی۔

شام میں داعش کے جنگجوؤں کی جانب سے شہروں کی جانب پیش قدمی کے بعد امریکی افواج وہاں اتری تھیں۔

جب گزشتہ ماہ آٹھ دسمبر کو بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مسلح تنظیم نے برق رفتار پیش قدمی کی تو شام میں امریکی فوجیوں کی مسلسل موجودگی پر سوال اُٹھایا گیا۔

امریکی وزیر دفاع کے مطابق ایک وقت آئے گا جب شام کی افواج داعش کے جنگجوؤں کو روک سکیں گی۔ فوٹو: اے پی

امریکی افواج نے داعش کے خلاف کارروائیوں کے دوران کردوں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

شام میں کردوں کی اس مسلح تنظیم کو ترکی کردستان ورکرز پارٹی، یا پی کے کے سے منسلک سمجھتا ہے، اور اس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

شام میں اس وقت عبوری حکومت تشکیل پا رہی ہے، اور اس وقت بھی غیریقینی برقرار ہے کہ اس کے آگے بڑھنے کے دوران کیا ہوگا۔

امریکی وزیر دفاع نے کرد تنظیم کے حوالے سے کہا کہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ اچھی پارٹنرشپ رہی۔ کسی مرحلے پر ان کو بھی شام کی افواج میں شامل کر لیا جائے گا اور امید ہے کہ ایک وقت ہوگا جب شام داعش کے تمام حراستی کیمپوں کا کنٹرول سنبھال سکے گا۔‘

لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ ’لیکن فی الوقت میرا خیال ہے کہ ہمیں وہاں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.