افغانستان میں طالبان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ انڈیا کو ایک ’اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ بیان دونوں ملکوں کے اعلٰی سفارتی عہدیداروں کی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔یہ اگست 2021 میں طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد انڈیا سے اعلٰی سطح پر پہلا سفارتی رابطہ ہے۔انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے بدھ کو دبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔افغانستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کہ انہوں نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے اور ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر بات چیت کی۔انڈیا اپنے حریف پاکستان کی کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران کی چابہار بندرگاہ کو سامان کی رسد کے لیے تیار کر رہا ہے۔بدھ کو دیر گئے افغان وزارت خارجہ سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’افغانستان کی متوازن اور معیشت پر مرکوز خارجہ پالیسی کے مطابق امارت اسلامیہ کا مقصد انڈیا کے ساتھ ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔‘انڈیا کی وزارت خارجہ نے اجلاس کے بعد بیان میں کہا کہ انڈیا افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہونے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر غور کر رہا ہے۔انڈیا سمیت کوئی بھی پڑوسی ملک طالبان انتظامیہ کو سرکاری طور پر افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔تاہم انڈیا اُن متعدد ممالک میں سے ایک ہے جس کا کابل میں ایک چھوٹا سا سفارتی مشن تجارت، امداد اور طبی امداد کے لیے موجود ہے اور اس نے طالبان کے زیرِانتظام افغانستان میں انسانی امداد بھیجی ہے۔
کابل میں انڈیا اور افغانستان کے جھنڈوں کے قریب ایک پولیس اہلکار پہرہ دے رہا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
چین اور روس سمیت اہم علاقائی ملکوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں۔
دہلی کا افغان طالبان سے رابطہ اور یہ ملاقات پاکستان کو سفارتی پریشانی کا شکار کر سکتی ہے جس کی سرحد دونوں پڑوسی ممالک سے ملتی ہے اور ماضی میں پاکستان انڈیا سے تین جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کی سرزمین پر ہونے والے متعدد عسکریت پسند حملے افغان علاقوں سے کیے گئے۔ اس الزام کو افغان طالبان مسترد کرتے ہیں۔رواں ہفتے کے آغاز میں انڈیا کے دفتر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال کے اواخر میں پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر کیے گئے فضائی حملوں کی مذمت کی تھی۔