افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ نے کابل میں سعودی عرب کے نئے سفیر سے اپنی پہلی ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ان کے ملک کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ’بیش بہا‘ ہیں۔عرب نیوز کے مطابق وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اتوار کو سعودی عرب کے سفیر برائے افغانستان فيصل ترکی البقم سے ملاقات کی۔ سعودی عرب کو کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولے ایک مہینے سے بھی کم وقت ہوا ہے۔افغان وزارت خارجہ کے ترجمان حافظ ضیا احمد نے ایک بیان میں کہا کہ ’ملاقات میں افغانستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے سے متعلق امور پر زور دیا گیا۔‘’وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سعودی عرب کے سفیر کو خوش آمدید کہا اور افغانستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو بیش بہا اور تاریخی قرار دیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان وفود کے تبادلے کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔‘
سعودی عرب ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور افغانستان سے امریکہ کی زیرِقیادت افواج کے انخلا کے بعد کابل سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔
اگرچہ طالبان کو دنیا کا کوئی بھی ملک سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، لیکن سعودی عرب نے غیرملکی حکومتوں کی طرح کابل میں اپنے سفارتی مشن کے کام کو دوبارہ شروع کیا ہے۔سعودی عرب نومبر 2021 سے افغانوں کے لیے قونصلر خدمات فراہم کر رہا ہے اور اسی برس کے آخر میں اس نے ’شاہ سلمان انسانی امداد اور امدادی مرکز‘ کے ذریعے امداد بھیجنا دوبارہ شروع کر دی۔افغان وزارت خارجہ کے دوسرے سیاسی ڈویژن کے ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا مقصد ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے جو ہمیں دستیاب ہیں۔‘’ہم نے سعودی سفارت خانے کے دوبارہ کھلنے کا بھی خیر مقدم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ سعودی عرب کی مذہبی، سیاسی اور علاقائی حیثیت اس کے ساتھ تعلقات کو افغانستان کے لیے اہم بناتی ہے۔‘
سعودی عرب ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد کابل سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
طالبان کے 2001-1996 تک کے پہلے دور اقتدار میں ان کی حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا۔
کابل کے سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ ریجنل سٹڈیز کے بورڈ ممبر عبدالصبور مبارز نے اس پیش رفت کے حوالے سے کہا کہ ’سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا مطلب امارت اسلامیہ کی قانونی حیثیت اور اسے تسلیم کیے جانے کی طرف مزید ایک قدم ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان اور سعودی عرب کے درمیان دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کو ایک افرادی قوت کی ضرورت ہے، اور افغانوں کے لیے ورکنگ ویزوں کے معاہدے اور سہولت کی صورت میں افغانستان اس سلسلے میں تعاون کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی ترغیب بھی دے سکتا ہے۔‘