امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی نے ملک کو مزید محفوظ بنایا اور معاشی تحفظ فراہم کیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کو چار سال پہلے کے مقابلے میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد قوم ملے گی۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر بائیڈن نے اپنی چار سالہ کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے نیٹو کو وسعت دینے کے علاوہ یوکرین کو عسکری امداد فراہم کرنے کے لیے اتحادیوں کو اکھٹا کیا جبکہ چین کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکی چپ کی تیاری کے لیے وسائل فراہم کیے۔صدر بائیڈن نے محکمہ خارجہ سے خطاب کے دوران اپنی کامیابیوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’چار سال پہلے کے مقابلے میں امریکہ دنیا بھر سے مقابلے میں جیت رہا ہے۔ امریکہ مضبوط ہے۔ ہمارے اتحادی مضبوط ہیں۔ ہمارے مخالف اور حریف کمزور ہیں۔ ہم نے اپنے اہداف کو جنگ کے ذریعے نہیں حاصل کیا۔‘انہوں نے کہا کہ اگلی انتظامیہ کے لیے وہ مضبوط ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور امریکہ ایک مرتبہ پھر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ کو جنگ، آفات اور غلط اندازوں کا سامنا تھا اور انہوں نے اس وقت مضبوط قائدانہ کردار ادا کیا جب دنیا کو اس کی ضرورت تھی۔جو بائیڈن کے چار سالہ دور پر نظر دوڑائی جائے تو افغانستان سے اچانک انخلا نے ان کی حکومت کے لیے شروع میں ہی مشکل صورتحال پیدا کر دی تھی۔سال 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج نکال کر جو بائیڈن نے نہ صرف امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کیا بلکہ اپنا وعدہ بھی پورا کیا جو انہوں نے صدارتی مہم کے دوران اپنے ووٹرز سے کیا تھا۔لیکن 20 سالہ اس تنازع کے منتقی انجام سے مزید مسائل نے جنم لیا۔ امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کا تختہ الٹ گیا، اسی دن ایک بم دھماکہ ہوا جس میں 13 امریکی فوجیوں کے علاوہ 170 افراد ہلاک ہوئے، کابل ایئرپورٹ افراتفری کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں پریشان حال افغان جان کی بازی لگاتے ہوئے آخری پرواز پر سوار ہونے کی کوشش میں تھے۔
جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو غزہ میں تباہی کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ فوٹو: اے ایف پی
بائیڈن کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی آٹھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ افغانستان کے تنازع نے ایک نیا رخ اپنایا جس سے بائیڈن انتظامیہ کو نکلنے میں کئی مسائل کا سامنا رہا۔
تقریر کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ ’جنگ کو ختم کرنا درست اقدام تھا اور میرے خیال میں تاریخ بھی یہی ثابت کرے گی۔ ناقدین کہتے تھے کہ اگر ہم نے جنگ ختم کی تو اس سے ہمارے اتحاد کو نقصان پہنچے گا اور افغانستان سے براہ راست دہشت گردانہ کارروائیوں سے ہماری سرزمین کو خطرہ لاحق ہوگا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘یوکرین کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا جنگ کے آغاز میں ولادیمیر پوٹن کا خیال تھا کہ روسی افواج کچھ ہی دنوں میں اور آسانی سے یوکرین کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن ’آج تک یوکرین ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔‘تاہم جو بائیڈن کی مشرق وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی کو غزہ میں ہونے والی تباہی کے تناظر میں ہی دیکھا جائے گا۔مشرق وسطیٰ میں جو بائیڈن نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا جب نیتن یاہو نے حماس کو غزہ سے اکھاڑنے کے لیے تباہ کن جنگ لڑی، اس لڑائی نے لبنان میں ایک اور جنگ کو جنم دیا جہاں ایران کے طاقتور اتحادی حزب اللہ پر اسرائیل نے حملے کیے، اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے ایران کے اندر بھی کامیاب فضائی حملے کیے۔جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا ’ایران اب کمزور ہے جو کئی دہائیوں میں نہیں تھا۔‘
صدر بائیڈن کے مطابق امریکہ کی وجہ سے یوکرین آج بھی آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
دوسری جانب غزہ میں پندرہ ماہ قبل شروع ہونے والی جنگ کے بعد بھی 98 یرغمالی ابھی تک جنگ زدہ علاقے میں زیرِ حراست ہیں جبکہ اسرائیلی حکام کے خیال میں ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا ہے کہ ان کی حلف برداری تک یرغمالیوں کو نہ رہا کیا گیا تو ’آفت ٹوٹ پڑے گی‘۔
بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون نے ٹرمپ کے حماس سے متعلق بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے اور جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان اہم امور پر اتفاق ہو گیا ہے۔