قطر میں مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر ’بہت جلد‘ اتفاق ہو سکتا ہے اور دوحہ میں فریقین کے درمیان بلواسطہ بات چیت ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو گئی ہے۔
قطر میں مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر ’بہت جلد‘ اتفاق ہو سکتا ہے اور دوحہ میں فریقین کے درمیان بلواسطہ بات چیت ’حتمی مرحلے‘ میں داخل ہو گئی ہے۔
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں فریقین کے درمیان بڑے مسائل حل ہو گئے ہیں اور ممکنہ معاہدے کے مجوزات اسرائیلی حکام اور حماس کے مذاکرات کاروں کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
لیکن یہ ممکنہ امن منصوبہ کیسا ہو گا اور اس پر عمل درآمد ممکن ہو گا یا نہیں یہ ایسے سوالات ہیں جن کے مکمل جوابات دینا ابھی ممکن نہیں ہے۔
اسرئیل کے ایک حکومتی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس اور اس کے اتحادی غزہ میں یرغمال بنائے گئے 33 اسرائیلی شہریوں کو رہا کریں گے۔
دوسری جانب بی بی سی کو ایک فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل نے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان میں تقریباً 190 وہ افراد شامل ہیں جو 15 برس یا اس سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
ان کے مطابق اس کے بدلے میں حماس تمام یرغمالیوں بشمول خواتین، بزرگوں، بیمار اور زخمی افراد کو رہا کر دے گی۔
فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ میں بے گھر ہونے والے کچھ افراد کو واپس اپنے گھروں میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔
اس دوران اسرائیل اور حماس کسی مستقل امن معاہدے پرمذاکرات کریں گے۔ اس حوالے سے فریقین میں تاحال اتفاق نہیں ہوا ہے۔
امن معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟
اس امن معاہدے کی ابتدائی شرائط امریکہ نے مئی 2024 میں مرتب کی تھیں اور تب ہی سے اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار بلواسطہ طور پر پیرس، قاہرہ اور دوحہ میں بات چیت میں مصروف ہیں۔ ان مذاکرات میں قطری، مصری اور امریکی سفارتکار ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پیر کی رات موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے گذشتہ برس مئی میں مرتب کردہ تین فیز پر مشتمل امن معاہدے بالآخر کامیابی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
فیز ون: 42 روزہ جنگ بندی
بی بی سی سے گفتگو کرنے والے فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے روز حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تین افراد کو رہا کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق اس کے بعد اسرائیل غزہ میں گنجان آبادی والے علاقوں بشمول نیٹزارم کوریڈور سے اپنے فوجی اہلکاروں کا انخلا کرے گا۔
اس پیش رفت کے بعد اطلاعات کے مطابق حماس چار مزید یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جبکہ غزہ کے شمالی علاقے سے جنوب میں نقل مکانی کرنے والے رہائشیوں کو اپنے گھروں تک جانے کی اجازت دے گا۔
پیدل سفر کرنے والے افراد کو ساحلی روڈ کے ذریعے غزہ میں اپنے گھروں تک جانا ہوگا۔ جو لوگ گاڑیوں کے ذریعے سفر کریں گے انھیں صلاح الدین روڈ کے ذریعے وسطی غزہ میں داخلے کی اجازت ہو گی۔
اطلاعات کے مطابق اس عمل کے دوران اسرئیلی فوج مصر کے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحد کے پاس محورِ صلاح الدین میں موجود رہے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنگ بندی کے ابتدائی دنوں میں کچھ اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی پٹی سے نکال لیا جائے گا۔
اس کے بعد غزہ اور مصر کے درمیان واقع رفح کراسنگ کو کھولا جائے گا تاکہ بیمار یا زخمی افراد کا انخلا ممکن ہو سکے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل غزہ کے مشرق اور مغربی حصوں میں 800 میٹر پر محیط بفر زون برقرار رکھے گا۔ اسی دورن حماس اور اس کا اتحادی گروہ فلسطینی اسلامک جہاد تمام 33 اسرئیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیل بھی ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اطلاعات کے مطابق حماس کے جن جنگجوؤں نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا انھیں رہا نہیں کیا جائے گا۔
جنگ بندی کے 16ویں روز اسرائیل اور حماس معاہدے کے دوسرے اور تیسرے فیز کی تفصیلات پر پر مذاکرات کریں گے۔
فیز ٹو: بقیہ یرغمالیوں کی اسرائیل کو حوالگی
جنگ بندی کے دوسرے فیز میں زندہ مرد فوجیوں اور شہریوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا، جبکہ مارے جانے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت 94 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 34 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ میں چار مزید اسرائیلی شہری بھی موجود ہیں جنھیں جنگ کے شروع ہونے سے قبل اغوا کیا گیا تھا۔
فیز تھری: غزہ کی تعمیرِ نو
توقع کی جا رہی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کا تیسرا فیز غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ہے۔ خیال رہے حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
کن نکات پر اتفاق ہونا باقی ہے؟
جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے اور تیسرے فیز پر اسرائیل اور حماس کے درمیان اتفاق نہیں ہوپایا ہے۔ اس پر مذاکرات 42 روزہ جنگ بندی کے 16ویں دن شروع ہوں گے۔
یہاں سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ: غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟
اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔
اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔
تاہم اسرائیل امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کا انتظام چلائے گی۔
اس وقت حماس شاید اس پریشانی کا بھی شکار ہو کہ کہیں جنگ بندی کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکار ہی نہ کر دے۔
اگر اسرائیلی وزیر اعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لیے راضی بھی ہو جاتے ہیں تب بھی ہو سکتا ہے کہ شاید وہ اپنی کابینہ کو اس بات پر راضی نہ کر سکیں۔
اسرائیلی وزیرِ خزانہ بتسلئيل سموتريش اور قومی سلامتی کے وزیر إيتمار بن غفير ایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔
سموتریش نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایسا کوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ’قیامت خیز‘ ثابت ہوگا اور وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔
غزہ میں جنگ جنوبی اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے بعد شروع ہوئی تھی۔ مسلح گروہ کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 شہریوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کے لیے غزہ پر حملہ کر دیا تھا۔
غزہ میں فلسطین کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق رواں مہینے کی 14 تاریخ تک غزہ میں 46 ہزار 640 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔