امریکی ریاست کیلیفورنیا میں جنگل کی آگ کے باعث عمومی تباہی کو دیکھتے ہوئے مقامی قانون سازوں نے سنہ 2020 میں ضوابط منظور کیے تھے جن کے مطابق خشک لکڑیوں سمیت آتش گیر اشیا کو گھروں سے پانچ فٹ کے فاصلے تک ہٹایا جانا تھا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق خشک لکڑیوں اور دیگر ایسی اشیا کو گھروں کے چاروں اطراف سے دور ہٹانے کے رولز یا ضوابط پر یکم جنوری 2023 سے عمل کیا جانا تھا۔ماہرین کو یہ یقین تو نہیں کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو لاس اینجلس کی حالیہ تباہ کن آگ سے اتنے بڑے پیمانے پر نقصان سے بچا جا سکتا تھا مگر عملی طور پر نفاذ نہ کیے جانے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ریاست کے ڈیموکریٹک سینیٹر ہنری سٹرن نے کہا کہ ’یہ ہر طرح سے مایوس کن ہے۔ مکمل صاف گوئی سے کہتا ہوں کہ میں اس کو ناکامی کی طرح محسوس کرتا ہوں۔‘سینیٹر ہنری سٹرن اُن قانون سازوں کے گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے گھروں کو محفوظ رکھنے کے یہ ضوابط منظور کیے تھے۔پلیسیڈس کے آتشزدگی سے تباہ ہونے والے علاقے میں زیادہ تر ایسی آبادیاں ہیں جن کو ان ضوابط پر عمل کر کے اپنے گھروں سے آس پاس خشک لکڑیوں اور آتش گیر مواد دور رکھنا تھا۔کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات کی طرف سے خشک لکڑیوں کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ آگ لگنے اور پھیلنے کا باعث بنتی ہیں۔جنگلات کی حالیہ آگ کو سمندری طوفان سے چلنے والی ہواؤں نے دور تک پھیلایا اور پیسیفک پیلیسیڈس، مالیبو اور ٹوپانگا وادی سمیت قریبی علاقوں میں کم از کم 5 ہزار عمارتیں تباہ ہوئیں جبکہ دیگر شہروں کو بھی ملایا جائے تو یہ تعداد دس ہزار سے بھی بڑھ جاتی ہے۔کیلیفورنیا کے ایک سابق فائر فائٹر جو ان دنوں انشورنس انڈسٹری کے ریسرچ گروپ سے وابستہ ہیں، نے بتایا کہ اگر ضوابط پر عمل کیا جاتا تو کچھ علاقوں میں آگ کم پھیلتی اور تباہی کم ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ ریسرچ کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ فرق پڑتا تاہم یہ بات یقینی طور پر اس لیے نہیں کہی جا سکتی کہ آگ کی شدت بہت زیادہ تھی۔