یہ سنہ 1937 کا ذکر ہے، جب غیرمنقسم ہندوستان میں ایک ہی آواز کا جادو چل رہا تھا جس نے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا تو ایسے میں بمبئی (موجودہ ممبئی) کا ایک کاروباری خاندان چاہتا تھا کہ وہ اُن کی شادی کی تقریب پر چند گھنٹوں کے لیے گانا گائیں جس کا انہیں 25 ہزار روپے معاوضہ دینے کی پیشکش کی گئی جو اس زمانے میں ایک خطیر رقم تھی مگر انہوں نے یہ پیشکش اس لیے ٹھکرا دی کیوںکہ وہ اپنے ایک غریب معاون سے اُس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کا وعدہ کر چکے تھے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ وعدہ خلافی کرتے۔یہ کہانی ہے گلوکار کندن لال سہگل کی جنہیں دنیا کے ایل سہگل کے نام سے جانتی ہے جن کے بارے میں بے مثل موسیقار نوشاد نے ایک بار کہا تھا کہ ’وہ گلوکاروں کے بادشاہ تھے جن کی آواز فرشتوں کی سی تھی اور دل سونے کا تھا۔‘
بات ہو سپرسٹار کی تو کے ایل سہگل حقیقی معنوں میں سپرسٹار تھے۔ حیران مت ہوئیے کیوںکہ ہو سکتا ہے سپرسٹار کے لفظ سے آپ کے ذہنوں میں راجیش کھنہ یا امیتابھ بچن کا خیال آتا ہو مگر غیرمنقسم ہندوستان میں کے ایل سہگل کے عہد میں کوئی اور اداکار یا گلوکار ایسا نہیں تھا جو اُن کی حکمرانی کو چیلنج کر سکتا۔
اس کہانی کا آغاز کلکتہ (کولکتہ) سے ہوا کیوںکہ اُس وقت لاہور اور کلکتہ ہی انڈین فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز تھے۔ یہ رابندر ناتھ ٹیگور کا شہر ہے جو موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے، وہ ٹیگور جنہوں نے ادب کے علاوہ موسیقی کو بھی نیا آہنگ دیا، جو نہ خالص کلاسیکی انداز لیے ہوئے تھی اور نہ مکمل طور پر لوک موسیقی کی تعریف پر پورا اُترتی تھی تو انہوں نے وہ درمیانی راستہ تلاش کیا تھا جسے عروج پر پہنچانے میں سہگل نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سہگل نے جب مغربی آرکسٹرا کے ساتھ گیت گائے تو لوگوں کو اس انداز نے متوجہ کیا اور یوں وہ اپنے عہد کے مصروف ترین گلوکار بن گئے۔پران نیول کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’ ‘Lahore: A Sentimental Journeyاوائل عمری میں پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کتاب کا ترجمہ نعیم احسن نے ’لاہور جب جوان تھا‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس کتاب میں ایک پورا باب کے ایل سہگل کی لاہور کے تاریخی منٹو پارک میں پرفارمنس سے متعلق ہے۔وہ اُس دن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سہگل نے ٹویڈ کی جیکٹ، پولو گلے والا سویٹر اور گنجے ہوتے ہوئے سر پر برائون ٹوپی پہن رکھی تھی۔ اپنے سادہ اور دلکش ظاہر کے ساتھ وہ بہت رومانٹک لگ رہے تھے جب اُنہوں نے حاضرین کو اپنی دلکش مسکراہٹ سے نوازا تو اس کی بھوری آنکھیں جگمگا اُٹھیں۔تالیوں کا بے پناہ شور اور کے ایل سہگل زندہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ سہگل نے ہارمونیم سنبھالا اور جیسے ہی اس کی شاندار آواز فضا میں گونجی، پورے پنڈال میں سکوت طاری ہو گیا۔ اُنہوں نے اپنی معروف غزل چھیڑی؛ ’لگ گئی چوٹ کلیجوا میں۔‘اس کے بعد اُنہوں نے فلم دھوپ چھاؤں کے لیے گایا مقبول گانا گایا؛ ’اندھے کی لاٹھی تو ہی ہے، تو ہی جیون اجیارا ہے۔‘ پنڈال میں ہر طرف سے فرمائشوں کی بھرمار ہو گئی۔ سہگل کے چاہنے والے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے بینچوں اور کرسیوں پر کھڑے ہو گئے۔ ہر طرف شور اور افراتفری مچ گئی۔‘لاہور میں سہگل کی آمد کا احوال تو آپ نے پران نول کی زبانی سن لیا تو یہ بتاتے چلیں کہ ان دنوں ریڈیو سیٹ بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا مگر سہگل کی آواز کا جادو کلکتہ سے لاہور اور بمبئی سے آگرہ تک چل رہا تھا۔
کے ایل سہگل اپنے 15 برس کے مختصر کیریئر کے دوران 36 فلموں میں نظر آئے۔ (فوٹو: سینستان)
سہگل 11 اپریل 1904 کو جموں میں ایک پنجابی ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ زیادہ پڑھ نہیں پائے کیوںکہ گھر کے مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کبھی کبھار ستار بجا لیا کرتے مگر موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
والد امرچند سہگل جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے دربار سے بطور تحصیل دار وابستہ تھے جب کہ والدہ کیسر بائی سہگل چوںکہ مذہب کی جانب جھکاؤ رکھتی تھیں تو وہ اکثر مذہبی تقریبات میں جایا کرتیں، سہگل بھی اُن کے ساتھ ہوتے جنہوں نے بھجن اور کیرتن گاتے ہوئے موسیقی کے رموز سے واقفیت حاصل کی۔موسیقی اور گائیکی سہگل کے خون میں رَچی بسی تھی مگر یہ اُن کا ذریعہ معاش نہیں تھی اور نہ ہی اُن کا اسے اپنا ذریعہ معاش بنانے کا کوئی منصوبہ تھا کیوںکہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی صرف راجواڑوں میں ہی فروغ پا سکتی تھی اور سہگل جیسے آزاد منش انسان کے لیے اپنی آزادی کی قربانی دینا آسان نہ تھا۔دوسرا سہگل کے لیے معاشی وجوہات کے باعث بھی اپنا یہ شوق پورا کرنا آسان نہیں تھا چناںچہ وہ جلد ہی ملازمت کرنے لگے اور پہلے ریلوے میں ٹائم مین اور بعدازاں ٹائپ رائٹرز کے سیلزمین کے طور پر ملازمت اختیار کی۔اسی زمانے میں ان کی ملاقات مہرچند جین سے ہوئی جو شہرِ بے مثل لاہور کے تاریخی انارکلی بازار میں پبلشنگ کا کام کیا کرتے تھے جہاں اُن کی ’دکان مہرچند لچھمن داس‘ کے نام سے تھی جس نے سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع کیا تھا تو یوں سہگل کی فنی زندگی کا بیان لاہور کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے کیوںکہ یہ مہرچند جین ہی تھے جنہوں نے سہگل کے ٹیلنٹ کو پہلی بار پہچانا۔سہگل کا اسی زمانے میں کلاسیکی موسیقار ہریش چند بالی سے بھی تعارف ہوا جو انہیں اپنے ساتھ کلکتہ لے آئے اور ان کو رائے چند بورال سے متعارف کروایا جنہیں دنیا آر سی بورال کے نام سے جانتی ہے اور وہ انڈین فلمی سنگیت کے بانی قرار دیے جاتے ہیں تو یوں سہگل کو نیوتھیٹرز میں ملازمت مل گئی۔انڈین اخبار ’ڈی این اے‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’اپنی نئی ملازمت کے سلسلے میں سفر کے دوران ہی سہگل کی مہرچند جین سے دوستی ہو گئی جنہوں نے سہگل میں پنہاں گلوکاری کے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی۔ 30 کی دہائی میں سہگل کلکتہ منتقل ہو گئے جہاں وہ 200 روپے ماہوار تنخواہ پر نیو تھیٹرز سے منسلک ہو گئے۔‘نیوتھیٹرز کی فلموں کی شہرت کی ایک وجہ اس کی موسیقی بھی تھی۔ موسیقار پنکج ملک، تامیر برن، کے سی ڈے اور پہاڑی سانیال بھی اسی کمپنی سے منسلک تھے مگر یہ بورال تھے جنہوں نے سہگل کے فن کو نکھارا اور اس میں پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔اس دوران انڈین گراموفون کمپنی نے سہگل کی آواز میں کچھ پنجابی گیت ریکارڈ کیے جن کی موسیقی ہریش چند بالی نے دی تھی یوں وہ سہگل کے اولین موسیقار بن گئے۔ڈی این اے کے مطابق سنہ 1932 میں ہی سہگل کو پہلی بریک ملی جب اُن کی فلم ’محبت کے آنسو‘ ریلیز ہوئی۔کے ایل سہگل کی اسی برس دو اور فلمیں ’صبح کا ستارا‘ اور ’زندہ لاش‘ ریلیز ہوئیں مگر یہ باکس آفس پر کوئی جادو جگانے میں ناکام رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فلموں کے لیے سہگل نے اپنا نام سہگل کشمیری استعمال کیا تھا مگر بعدازاں ریلیز ہونے والی فلموں میں اپنا پورا نام استعمال کیا۔سنہ 1933 میں بالآخر سہگل کو وہ بریک ملا جس کے وہ منتظر تھے۔ ’پورن بھگت‘ کو انڈیا بھر میں غیرمعمولی کامیابی ملی۔ لاہور کے سنیماؤں میں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پران نول نے اس کا ذکر اپنی سوانح عمری میں بھی کیا ہے۔ یہ آر سی بورال کی بھی پہلی کامیاب ہندی فلم تھی۔ اس فلم کے گیت بھی سپرہٹ رہے جس کے بعد سہگل کی فلمیں ’یہودی کی لڑکی‘، ’چندی داس‘، ’روپ لیکھا‘ اور ’کاروانِ حیات‘ ریلیز ہوئیں جنہوں نے سہگل کی بطور اداکار اور گلوکار شناخت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
کے ایل سہگل پہلے غیربنگالی گلوکار تھے جنہیں رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے گیت گانے کی اجازت دینے سے قبل خود سنا۔ (فوٹو: پوئٹری فاؤنڈیشن)
سنہ 1935 میں سہگل فلم ’دیوداس‘ میں نظر آئے۔ یہ بنگالی ناول نگار سرت چندر چیٹرجی کے شہرہ آفاق ناول پر بنی پہلی ہندی فلم تھی۔ اس سے قبل اس ناول پر بنگالی فلم بن چکی تھی جس میں سہگل نے ایک مختصر کردار ادا کیا تھا جس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہی اسے ہندی میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے مرکزی کردار ادا کیا۔
اس فلم کی کامیابی کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی کہانی اپنے عہد کے نوجوانوں کے جذبات کی درست طور پر نمائندگی کرتی تھی جو ایک طرف جمہوریت، آزادی، سیکولرازم اور انسانی مساوات جیسی اقدار سے متعارف ہو رہے تھے تو دوسری جانب اُن کے اسی سماج میں ان اقدار کو روندا جا رہا تھا۔’دیوداس‘ ایک اعلٰی خاندان سے تعلق رکھتا ہے مگر وہ اس لیے اپنے خاندان کی مخالفت کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ ایک چھوٹی ذات کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس فلم کے گیت ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں‘ زبردست کامیاب رہے۔سہگل اس کے بعد بھی نیوتھیٹرز کی کئی کامیاب فلموں میں نظر آئے جن میں’ کروڑ پتی‘، ’پچارن‘، ’دیدی‘، ’سٹریٹ سنگر‘، ’دشمن‘ کے علاوہ کئی بنگالی فلمیں شامل ہیں۔ فلم ’سٹریٹ سنگر‘ کا گیت ’بال مورا نہیر چھوٹل جائے‘ تو ان کے چند بہترین گیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق سہگل نے یہ گیت کیمرے کے سامنے براہِ راست گایا تھا جبکہ اس زمانے میں پسِ پردہ گائیکی کا طریقہ مقبول ہو رہا تھا۔سہگل ایک پنچابی خاندان سے ہوتے ہوئے بھی بنگالی زبان پر غیرمعمولی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے نیو تھیٹرز کے بینر تلے بننے والی سات بنگالی فلموں میں کام کیا۔ وہ پہلے غیربنگالی گلوکار تھے جنہیں رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے گیت گانے کی اجازت دینے سے قبل خود سنا۔نیو تھیٹرز کے لیے کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد سہگل 1941 میں بمبئی آ گئے اور رنجیت سٹوڈیوز سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے اس زمانے میں ’بھگت سورداس‘ اور ’تان سین‘ جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا جس کے گیت ’بنا پنکھ پنچھی‘ میں سہگل اپنی فنی معراج پر نظر آتے ہیں۔
سنہ 1935 میں کے ایل سہگل فلم ’دیوداس‘ میں نظر آئے۔ (فوٹو: وکی کامنز)
یہ سہگل کے عروج کا زمانہ تھا جب اُن کی اس حکمرانی کو نو آموز اداکاروں جیسا کہ اشوک کمار نے چیلنج کیا تو انہوں نے مے نوشی میں پناہ لی۔
اخبار ’ڈی این اے‘ لکھتا ہے کہ ’1940 کی دہائی کے وسط میں یہ کہا جاتا تھا کہ سہگل اگر نشے میں نہ ہوں تو وہ گیت نہیں گا سکتے۔ وہ سیٹ پر بھی نشے میں دھت نظر آتے مگر اس کے باوجود اُن کی فلمیں کامیابی حاصل کرتی رہیں۔‘سنہ 1947 تک سہگل اس قدر نشے میں دھت رہنے لگے تھے کہ یہ ان کی موت وجہ بن گئی اور وہ آج ہی کے دن 18 جنوری کو اپنے آبائی شہر جالندھر میں چل بسے۔ وفات کے وقت اُن کی عمر محض 42 برس تھی۔سہگل اپنے 15 برس کے مختصر کیریئر کے دوران 36 فلموں میں نظر آئے جن میں سات بنگالی اور ایک تامل فلم بھی شامل ہے جب کہ انہوں نے 180 گیت گائے جن میں ہندی کے علاوہ پشتو، پنجابی، بنگالی اور فارسی زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ’شاہجہاں‘ جیسی فلم دی جس کے گیت ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’اے دلِ بے قرار جھوم‘ اور ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ سپر ہٹ رہے۔ اس فلم کے موسیقار نوشاد تھے۔مشہور ہے کہ نوشاد نے اس گیت کے دو ورژن ریکارڈ کیے تھے، ایک سہگل نے بغیر پیے ریکارڈ کروایا اور دوسرا پی کر۔ انہوں نے بعد میں جب گیت سنا تو پہلے کو پسند کیا اور نوشاد سے کہا کہ تم مجھ سے پہلے کیوں نہیں ملے۔سہگل کی آخری فلم ’پروانہ‘ تھی جو اُن کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔کہا جاتا ہے کہ جب ہر موسیقار سہگل سے یہ کہتا کہ تھوڑی سی پی لیا کرو کیوں کہ اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے تو یہ خواجہ خورشید انور تھے جنہوں نے ان سے اس فلم کے گیت شراب پیے بغیر ہی ریکارڈ کروائے۔ یہ فلم تو اگرچہ کامیاب نہ ہوسکی مگر اس فلم کے گیت ضرور پسند کیے گئے۔سہگل نے ایک پورے عہد کو متاثر کیا جیسا کہ اُن کے بعد آنے والے گلوکاروں پر اُن کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے جن میں محمد رفیع، مکیش، کشور اور لتا جی بھی شامل ہیں۔ مکیش تو اس حد تک سہگل کے زیرِاثر تھے کہ ان کے گیت ’دل جلتا ہے تو جلنے دو‘ پر سہگل کا گماں ہوتا ہے۔
لتا منگیشکر بچپن سے سہگل کی آواز کی دیوانی تھیں۔ (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق، لتا منگیشکر نے کہا تھا کہ ’میں بچپن سے اُن کی آواز کی دیوانی تھی۔ میں نے گھر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر میں کبھی شادی کروں گی تو سہگل صاحب سے۔ اُن کی آواز میں اِک درد تھا، اِک کشش تھی جو میں نے اور کسی کی آواز میں نہیں سنی۔‘
کہا جاتا ہے کہ سہگل ایک بار آگرہ گھرانے کے کلاسیکی گائیک اُستاد فیاض علی خان، جنہیں ’آفتابِ موسیقی‘ کا خطاب بھی ملا، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ’تم اتنا جانتے ہو کہ میں تمہیں اور کیا سکھتا سکتا ہوں۔‘یہ بھی مشہور ہے کہ لیجنڈ کلاسیکی گائیک اُستاد عبدالکریم خان اُن کے کسی گیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انعام کے طور پر سو روپے منی آرڈر کر دیے۔ یہ ایک ایسے فنکار کی زیست کا بیاں تھا جو آج بھی سرحد کے دونوں جانب یکساں طور پر چاہا جاتا ہے اور اُن کا گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ تو اُن ایورگرین گیتوں میں سے ایک ہے جو انڈین سنیما کے اُس عہد کی یاد دلاتا ہے جب سہگل کی حکمرانی کو چیلنج کرنا ناممکن تھا کہ وہ آواز سے جادو کرنا جانتے تھے جس کا اثر دہائیاں گزر جانے کے باوجود برقرار ہے۔