اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت مسلح گروہ نے گذشتہ برس سات اکتوبر کو قیدی بنائی گئی چار خواتین اسرائیلی فوجی اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے۔
israel military
Getty Images

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت مسلح گروہ نے گذشتہ برس سات اکتوبر کو قیدی بنائی گئی چار خواتین اسرائیلی فوجی اہلکاروں کو رہا کر دیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے 200 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا ہے۔

سنیچر کو کرینا اریوم ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور لیری الباگ کو غزہ شہر میں ہلالِ احمر کے حوالے کیا گیا اور اس حوالگی کے دوران حماس کی جانب سے کسی تقریب کا سا سماں سجایا گیا جس میں تنظیم کے درجنوں مسلح افراد بھی نظر آئے۔

تاہم اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اربیل یہود نامی سویلین خاتون کو رہا نہیں کیا۔ اسی سبب اسرائیل نے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی شمالی غزہ طے شدہ واپسی کو بھی معطل کر دی ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائی گئی سویلین خاتون کو اگلے ہفتے رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک دیا ہے جس کے بعد حماس نے اسرائیل پر معاہدے کی شرائط پر عمل کو معطل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اس تنازع کے باوجود اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور ان میں سے سنگین جرائم میں ملوث 70 قیدیوں کو فوری طور پر مصر کے راستے پڑوسی ممالک بھیجا گیا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے کچھ قیدیوں کو غزہ منتقل کیا جائے گا، جبکہ کچھ قیدیوں کو مقبوضہ غربِ اردن اور مشرق یروشلم میں اپنے گھروں تک واپسی کی اجازت دی جائے گی۔

19 جنوری کو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سنیچر کو قیدیوں کی رہائی کا یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ اس سے قبل پچھلے ہفتے حماس نے تین قیدی اور اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔

پچھلے ہفتے تین اسرائیلی قیدیوں کی حوالگی کے مقابلے میں سنیچر کو غزہ شہر کے فلسطین سکوائر میں حماس کی جانب سے چار اسرائیلی خواتین فوجی اہلکاروں کی رہائی ایک تقریب کی شکل میں نظر آئی۔

چاروں قیدی خواتین کاروں سے باہر نکلیں اور پھر انھیں ماسک پہنے ہوئے مسلح افراد نے ایک سٹیج تک پہنچایا جہاں کچھے لمحوں پہلے ڈیسک پر ایک ہلالِ احمر کے عہدیدار آ کر بیٹھے تھے تاکہ ایک دستاویز پر دستخط کر سکیں۔

اسرائیل
Reuters
رہا ہونے والی خواتین فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کی جانب سے بیانات بھی جاری کیے گئے ہیں

قیدیوں اور حماس کے مسلح افراد نے اس موقع پر گلے میں شناختی بیجز پہنے ہوئے تھے۔ سٹیج پر رکھی گئی میز پر جھنڈے اور بیوروکریسی کی نشانیاں موجود تھیں لیکن ساتھ ہی وہاں ایک مشین گن بھی موجود تھی۔

اس وقت وہاں موجود حماس کے مسلح افراد اور عام فلسطینی شہری موجود تھے اور اس موقع پر چاروں قیدی خواتین ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔

حماس نے ہر قیدی کو ایک ’گفٹ بیگ‘ بھی دیا جس میں کچھ اشیا موجود تھیں اور انھیں امید ہے کہ ان مناظر کے سبب ایک ایسی تنظیم کی تصویر کشی ہو گی جو کہ نہ صرف منظم ہے بلکہ مضبوط بھی ہے۔

ان کی رہائی سے قبل حماس کی جانب سے جاری کردہ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان گفٹ بیگز میں اون کی ٹوپیاں، کی چین اور سرٹیفیکیٹس بھی دیے گئے جن پر ’طوفان الاقصیٰ‘ درج تھا۔

حماس کی جانب سے پیغام شاید ان فلسطینیوں کو دیا جا رہا ہے جو کہ غزہ کا انتظام سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو کو بھی جنھوں نے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد مسلح تنظیم کو تباہ کرنے کا اعادہ کیا تھا۔

تاہم اسرائیلیوں کے لیے یہ ایک اطمینان کی بات ہو گی کہ چار قیدی رہا ہو کر بخیر و عافیت اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔

رہا ہونے والی خواتین فوجی اہلکاروں کے خاندانوں کی جانب سے بیانات بھی جاری کیے گئے ہیں۔ ڈینیلا گلبوا کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے ’477 دن غزہ میں کسی جہنم کا سامنا کیا اور اب وہ اپنے خاندان کی آغوش میں واپس آ چکی ہیں۔‘

اسرائیل
Reuters
سنیچر کو کرینا اریوم ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور لیری الباگ کو غزہ شہر میں ہلالِ احمر کے حوالے کیا گیا

غربِ اردن میں جشن

اسرائیل کی جانب سے 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے موقع پر غربِ اردن میں جشن کا سا سماں دیکھا گیا۔ جب رہا کیے گئے قیدی بسوں سے باہر آئے تو وہاں موجود لوگوں نے کچھ قیدیوں کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور آتش بازی بھی کیا۔

رہا کیے گئے 200 میں سے 121 قیدی اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان میں سے کچھ قیدیوں کو متعدد اسرائیلی افراد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔

ان قیدیوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنھیں کچھ ہی عرصہ قید میں گزارنا پڑا تھا اور کچھ ایسے جن پر کبھی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔

رہا کیے گئے ایک فلسطینی قیدی بکر کاوش کا کہنا تھا کہ: 'خدا کا شکر ہے، یہ میرے لیے ایک بہت اچھا احساس ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا، میں نے چھ برس اور دو مہینے جیل میں گزارے۔'

خاتون قیدی کی عدم رہائی پر تنازع

اسرائیل نے ایک خاتون قیدی کو رہا نہ کرنے پر حماس پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اسرائیلی کو امید تھی کہ اربیل یہود نامی خاتون کو بھی رہا کیا حائے گا کیونکہ معاہدے کے تحت عام خواتین قیدیوں کی رہائی کو ترجیح دی جانی تھی۔

سنیچر کو جب اربیل یہود کو رہا نہیں کیا گیا تو اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے گا۔

جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق اسرائیل کو غزہ کے کچھ مقامات سے اپنی فوج کو واپس بُلانا ہے۔ تاہم اب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اربیل یہود کا معاملہ حل ہونے تک فلسطینیوں کو اپنے گھروں تک واپسی کی اجازت نہیں دے گا۔

اسرائیل
Reuters
ڈینیلا گلبوا کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے '477 دن غزہ میں کسی جہنم کا سامنا کیا اور اب وہ اپنے خاندان کی آغوش میں واپس آ چکی ہیں'

حماس سے قریب ایک فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ 'حماس نے ثالث کاروں کو مطلع کیا ہے کہ اسرائیلی قیدی اربیل یہود زندہ ہیں اور انھیں اگلے سنیچر کو رہا کیا جائے گا۔'

عرب میڈیا نے قیدیوں کی رہائی کوریج کس طرح کی؟

مشرقِ وسطیٰ کے عرب قوم پرست میڈیا نے قیدیوں کی رہائی کے عمل کو براہ راست کوریج دی اور قطری چینل الجزیرہ اپنی رپورٹنگ کے لیے 'ایکسکلوسِو' جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہوا نظر آیا۔

ان ٹی وی چینلز نے قیدیوں کی رہائی سے قبل غزہ کے فلسطین سکوائر پر کی جانے والی تیاریوں کی بھی کوریج دی۔ اس وقت الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور سعودی عرب کے العربیہ ٹی وی کے رپورٹر خضر الذنون بھی وہاں موجود تھے۔

صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس قیدیوں کی رہائی کی ان تیاریوں سے اسرائیل کو پیغام دینا چاہتی تھی۔

ابو ظہبی میں واقع سکائی نیوز عربیہ کے رپورٹر محمود اُلاین کا کہنا تھا کہ فلسطین سکوائر پر نظر آنے والے مناظر حماس کی جانب سے سجایا گیا ایک 'شو' تھا اور اس وہاں غزہ میں مقبول ایکشن ٹیموں کے اہلکار بھی موجود تھے جو کہ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ منظرِ عام پر آئے ہیں۔

العربیہ کے رپورٹر کے مطابق وہاں پر عزالدین القسام بریگیڈ اور فلسطینی اسلامک جہاد کی القدس بریگیڈ کے 'مسلح افراد' بھی عام فلسطینی شہریوں کے ساتھ بڑی تعداد میں موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے مقابلے میں سنیچر کو کی جانے والی اسرائیلی خواتین فوجی اہلکاروں کی حوالگی 'بہت منظم' تھی اور اس وقت اسرائیلی ڈرون ہوا میں موجود نہیں تھے، بلکہ لوگوں کے سروں پر جو ڈرونز نظر آ رہے تھے وہ حماس کے میڈیا کے تھے۔

قیدیوں کی رہائی کی کوریج کرنے والے صحافی فلسطین سکوائر میں بنائے گئے سٹیج اور وہاں لگائی گئی میز پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔

اس سٹیج کے پیچھے ایک بڑا سے بینر لگا ہوا تھا جس پر عربی، انگریزی اور عبرانی زبانوں میں لکھا تھا 'فلسطین، مظلموں کی نازی صہیونیت پر فتح' ایک اور جگہ لکھا تھا کہ 'غزہ مجرم صہیونیوں کا قبرستان ہے۔'

فوجی لباس میں ملبوس قیدی

عرب ٹی وی چینلز حماس کی جانب قیدیوں کو فوجی لباس پہنانے کے معاملے پر بھی تبصرے کرتے ہوئے نظر آئے۔ سکائی نیوز عربیہ کے رپورٹر کا کہنا تھا کہ حماس یہ بات باور کروانا چاہتی تھی کہ یہ وہ فوجی اہلکار تھے جنھیں عسکری مقامات پر ڈیوٹی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حماس نے اصرار کیا کہ قیدویوں کو مسکراتا ہوا دکھایا جائے تاکہ 'قیدیوں کی صحت اور پریشانیوں کے حوالے سے بنائے گئے اسرائیلی حکومت کے بیانیے' کو رد کیا جا سکے۔

اپنی کوریج کے دوران الجزیرہ کے رپورٹر کا کہنا تھا کہ حماس کا فلسطین سکوائر کے انتخاب کا مقصد اسرائیل کو یہ بتانا تھا کہ تمام گروہوں کے 'مزاحمت کار جنگجوؤں' کو وہاں موجود افراد کی جانب سے 'حمایت کے نعرے' سُننے کو مل رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.