ڈائٹ کوک بٹن، فائلوں کا ڈھیر اور ایئر فورس ون: ٹرمپ 2.0 کا ’بے خوف رویہ اور تاریخ میں امر ہونے کی خواہش‘

جہاز کی پرواز کے دوران ٹیلی ویژن سکرینز پر سی این این کی جگہ فاکس نیوز نے واپس لے لی تھی اور ایک ہفتے میں امریکی حکومت کو بدلنے اور اس کی امیگریشن پالیسیوں میں یکسر تبدیلیاں لانے والے صدر ٹرمپ خود کو پہلے سے زیادہ پراعتماد محسوس کر رہے تھے۔
دوران پرواز صدر ٹرمپ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے
Getty Images
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نامہ نگار انتھونی زرچر اور دیگر صحافیوں نے ایئر فورس ون میں سوار صدر سے سوالات کیے

سینیچر کے روز انتہائی مصروف دن گزارنے والے امریکی صدر ٹرمپ کا طیارہ لاس ویگاس سے میامی کی طرف رواں تھا۔ ایسے میں جب وہ ایئر فورس ون کے پچھلے حصے میں جمع صحافیوں سے بات کرنے آئے تو خود اعتمادی ان کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔

بطور صدر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کا ایک ساحل سے دوسری ساحل کا یہ پہلا دورہ تھا۔

پرواز کے دوران ٹیلی ویژن سکرینز پر سی این این کی جگہ فاکس نیوز نے واپس لے لی تھی اور ایک ہفتے میں امریکی حکومت کو بدلنے اور اس کی امیگریشن پالیسیوں میں یکسر تبدیلیاں لانے والے صدر ٹرمپ خود کو پہلے سے زیادہ پراعتماد محسوس کر رہے تھے۔

سوال و جواب کے دوران انھوں نے بی بی سی کے ایک سوال پر کہا کہ ’ہمارے کام کے معیار اور اس کی مقدار انتہائی شاندار(اے پلس) ہیں اور اس کا ثبوت لوگوں کا رد عمل ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ بطور صدر یہ کسی بھی دوسرے کے مقابلے میں سب سے کامیاب پہلا ہفتہ گزرا ہے۔‘

صحافیوں کے ساتھ 20 منٹ کی گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے تصدیق کی کہ انھوں نے رات گئے کئی سرکاری اداروں کے آزاد نگرانوں کو برطرف کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ امریکہ ’گرین لینڈ‘ کو اپنی سرزمین کے طور پر حاصل کرے گا۔

انھوں نے مصر اور اردن سے مزید فلسطینیوں کو پناہ دینے کا مطالبہ کیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں باوجود اس کے کہ وہ ’لبرل ہیں۔‘

یہ ایک غیر رسمی سوال و جواب کا ایسا سیشن تھا جو سابق صدر جو بائیڈن نے اپنے دور میں شاذ و نادر ہی کیا تھا اور واشنگٹن اور امریکی سیاست میں وہ سب کچھ تبدیل ہونے کی تازہ ترین علامت تھی جو ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے صرف چھ دن بعد ہوا۔

صدر ٹرمپ
Reuters

صدر ٹرمپ کے لیے اوول آفس میں ڈائیٹ کوک کا بٹن واپس آ چکا ہے جو دراصل ایک ایسا ایک منفرد سسٹم ہے جو ایک شاندار لکڑی کے ڈبے میں نصب ہے اور صدر کو دن کے کسی بھی وقت اپنی پسندیدہ مشروب کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

اسی طرح برطانیہ کے جنگی دور کے رہنما ونسٹن چرچل کا مجسمہ، رونالڈ ریگن کا استعمال کیا ہوا قالین اور ساتویں صدر اینڈریو جیکسن کی تصویر بھی واپس آ گئی ہیں۔ لیکن واشنگٹن میں ہونے والی یہ تبدیلیاں صرف ان صدارتی علامتوں تک محدود نہیں ہیں۔

چاہے اپنے مخصوص سیاہ قلم سے یکے بعد دیگرے جاری ہونے والے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرنا ہو یا اوول آفس میں پریس کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ، صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی نے چند دنوں میں ان کے پیشرو کی نمایاں کامیابیوں کو مدہم کر دیا ہے اور بہت سے لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ٹرمپ کبھی گئے ہی نہیں تھے۔

2021 میں صدارتی دفتر چھوڑنے اور کیپیٹل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے اس وقت جس طرح ٹرمپ سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ تاریخ دہرائی جاتی محسوس ہو رہی ہے۔

صدر نے اس دن تشدد میں ملوث 1,500 سے زیادہ حامیوں کو معاف کر دیا ہے جو اس ہفتے ان کے دلیرانہ اقدامات میں سے ایک تھا۔ انھوں نے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرکے خلیج امریکہ رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ صرف دو جنسوں کو تسلیم کرتا ہے۔

انھوں نے ملک کو ماحولیاتی تبدیلی کے پیرس معاہدے سے باہر نکال دیا اور امریکہ کے غیر ملکی امداد کے بڑے پروگرام کو معطل کر دیا اور ڈیووس میں بین الاقوامی کمپنیوں کو متنبہ کیا کہ اگر وہ اپنی مصنوعات امریکہ میں نہیں بنائیں گے تو اربوں ڈالر کے محصولات کا سامنا کرنا ہو گا۔

روزویلٹ ڈیسک پر موجود ڈھیروں ایگزیکٹو آرڈرز کی فائلیں اس بات کا اظہار ہیں کہ ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت ان کے چار سال پہلے کے سیاسی منظرنامے سے مختلف ہے اور اس بار ایک زیادہ پُراعتماد کمانڈر ان چیف جنم لے چکا ہے۔

’صدر ٹرمپ کا پہلا دن مخالفین کے لیے سب سے بڑا دھچکہ‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ
Reuters
صدر ڈونلڈ ٹرمپ

2016 کے انتخابات جیتنے کے بعد جب ٹرمپ نے پہلی بار براک اوباما سے ملاقات کی تو وہ صدارت کے عہدے سے متاثر نظر آئے جسے انھیں سنبھالنا تھا۔

وہ اب واشنگٹن کے لیے اجنبی نہیں اور اس بار تمام سوئنگ ریاستوں سے زبردست فتح پانے کے بعد وہ 20 سال میں پہلے ریپبلکن بنے ہیں جنھوں نے عوامی ووٹ بھی جیتا۔

ٹرمپ نے اپنی وائٹ ہاؤس واپسی کے ابتدائی دنوں میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ایگزیکٹو اختیارات کا بڑی حد تک استعمال کر کے ملک کوکس طرح بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ تمام مشیراب منظر سے غائب ہو چکے ہیں جنھوں نے پہلی مدتِ صدارت کے دوران صدر ٹرمپ کو سیاسی اصولوں کا احترام اور تحمل سے چلنے کی تلقین کی تھی۔

اس بار ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ ان وفاداروں سے بھری ہوئی ہے جنھوں نے کبھی ان سے منھ نہیں موڑا اور نچلی سطح کے عہدے ان نوجوان معاونین سے پُر کیے جا رہے ہیں جو رپبلکن پارٹی کے قائد کی حیثیت سے صرف ٹرمپ کو ہی جانتے پہچانتے ہیں۔

اس کےعلاوہ ان کی جماعت کم از کم اگلے دو سال کے لیے کانگریس پر مضبوط گرفت رکھتی دکھائی دے رہی ہے۔

صدارتی منصب پر براجمان ہونے کے پہلے دن صدر ٹرمپ کے واشنگٹن میں موجودہ نظام کو بدلنے اور اپنے پیشرو (جو بائیڈن) کے کام کو قصہ پارینہ بنانے کی خواہش اس وقت عیاں ہو گئی جب انھوں نے ایک کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔

صدارتی آرڈرز کی یہ تعداد کسی بھی سابق صدر کی جانب سے دستخط کیے گئے آرڈرز سے کہیں زیادہ تھی۔

جہاں سابق صدر بائیڈن نے 2021 میں صرف نو دستخط کیے تھے وہیں صدر ٹرمپ نے اس تعداد کو تقریباً تین گنا بڑھاتے ہوئے 26 صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے۔

رائس یونیورسٹی کے صدارتی مؤرخ ڈگلس برنکلی کا کہنا ہے کہ ’صدارت کا عہدہ سنبھالنے کا پہلا دن ایسا ہونا چاہیے جس میں آپ قوم کو سیاسی تقسیم سے بچائیں یا تلخ انتخابات کے زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے برعکس صدر ٹرمپ کا پہلا دن ان کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا دھچکہ تھا۔‘

’صدیوں تک نام یاد رکھے جانے کی خواہش‘

یہ تمام صدارتی احکامات صدر ٹرمپ کی سوچ کی جھلک بھی پیش کرتے ہیں۔

ڈگلس برنکلی خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرنے کا موازنہ تقریباً 90 سال پہلے کیے گئے فرینکلن ڈی روزویلٹ کے ایک اقدام سے کرتے ہیں جب فرینکلن نے ہربرٹ ہوور کو شکست دی تو انھوں نے کولوراڈو دریا پر تعمیر ہونے والے نئے ڈیم کو ’بولڈر ڈیم‘ کا نام دیا نہ کہ پہلے سے طے شدہ ’ہوور ڈیم‘ رکھا تاکہ ان کے حریف کو یہ اعزاز نہ مل سکے۔

انھوں نے دونوں صدور کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کے لیے بے حد خود اعتمادی اور بے خوف رویے اور بے رحم نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

ڈگلس برنکلی کے مطابق ’ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین کو مات دی، متعدد قانونی مقدمات میں سزا سے بچ گئے، اور حتیٰ کہ ایک قاتل کے گولی سے بھی بچ نکلےاور یہی ان کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔‘

گزشتہ سال نیویارک میں مجرم قرار دیے جانے والے ٹرمپ کو اپنی میراث کو دوبارہ تشکیل دینے کا موقع ملا ہے۔

صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ محکمہ انصاف نے ان کے ساتھ ناانصافی کی جبکہ ان کے مخالفین نے ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔

اپنی صدارت کے پہلے دن انھوں نے ایک حکم پر دستخط کر کے اپنے اٹارنی جنرل کو ہدایات کیں کہ وہ سابقہ انتظامیہ کے زیر اثر وفاقی ایجنسیوں کی کارروائیوں کی تحقیقات کریں ان میں کیپیٹل ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کے خلاف محکمہ انصاف کی قانونی کارروائیوں کی تحقیقات کا حکم بھی شامل ہے۔

ڈگلس برنکلی نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان کا نام ’صدیوں تک یاد رکھا جائے‘ اور انھوں نے یہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ ایک طاقتور شخصیت ہیں اور انھوں نے سیاسی کششِ ثقل کے قوانین کو چیلنج کیا ہے۔‘

صدر ٹرمپ کے لیے اوول آفس میں ڈائیٹ کوک بٹن کا منفرد سسٹم واپس آ چکا ہے
EPA
صدر ٹرمپ کے لیے اوول آفس میں ڈائیٹ کوک بٹن کا منفرد سسٹم واپس آ چکا ہے

دوسری جانب سابق انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے ہفتے کے دوران جاری صدارتی احکامات اور دیگر اقدامات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ ان کی ٹیم اس بار 2017 کے مقابلے میں کافی زیادہ تیار ہو کر واپس آئی ہے۔

لارنس موئر وائٹ ہاؤس کے قومی منشیات کنٹرول پالیسی کے دفتر کے سابق اہلکار ہیں۔ ان کا اس حوالے سے موقف ہے کہ ’یہ زیادہ منظم اور مسئلہ پر توجہ مرکوز رکھنے والی ٹیم ہے۔‘

یاد رہے کہ لارنس موئر کو 2016 کے ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم میں انتظامی عملہ بھرتی کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آنے والے وائٹ ہاؤس نے اس وقت تیاری کو ’عملاً نظرانداز‘ کر دیا تھا۔

’اس وقت انھیں اس بات کا زیادہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں کیا اور کیسے ڈلیور کرنا ہے۔ (ٹرمپ) اس بار بہت بہتر کام کر رہے ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہے، اس پر وہ بہت بہتر طریقے سے عمل پیرا بھی ہیں اور انھیں علم ہے کہ اس کو ایجنسیوں کے ذریعے کیسے نافذ کرنا ہے۔‘

ٹرمپ کے 2017 میں عہدہ سنبھالنے کے پہلے روز اس وقت کی وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری شان سپائسر کی جانب سے ایک بریفنگ اس وقت موضوع بحث بن گئی جب انھوں نے رپورٹرز کو صدر کی افتتاحی تقریب کے ہجوم کے حجم پر لیکچر دے دیا تھا۔

ایک ہفتے بعد ٹرمپ نے (مسلم اکثریت والے ملکوں) ایران، عراق، شام، یمن، صومالیہ، سوڈان اور لیبیا کے شہریوں پر 90 دن کے لیے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔

اس متنازع حکم نامے سے ہوائی اڈوں پر افراتفری مچ گئی۔ اس حکم پرعمل درآمد ایک وفاقی عدالت نے روک دیا اور دو ترامیم کے بعد بالآخر 2018 میں سپریم کورٹ نے اس کی توثیق کی۔

ٹرمپ کے اتحادیوں کو یقین ہے کہ نئی انتظامیہ نے 2017 کے ابتدا میں عوامی مخالفت اور انتظامیہ کو درپیش دیگر قانونی جنگوں سے سبق سیکھلیا ہے۔

سخت امیگریشن کنٹرول کی حامی تنظیم 'نمبرز یو ایس اے‘ کے ریسرچ ڈائریکٹرایرک روارک کہتے ہیں کہ ’انھیں ممکنہ واپسی کی تیاری کے لیے جلاوطنی میں چار سال ملے اور اب ان کے پاس ایک منصوبہ تیار ہے جسے وہ نافذ کر سکتے ہیں۔‘

ٹرمپ اپنی اہلیہ میلانیا کے ساتھ جب وہ سمندری طوفان سے ہونے والے نقصانات کا دورہ کرنے شمالی کیرولائنا گئے تھے
EPA
ٹرمپ اپنی اہلیہ میلانیا کے ساتھ جب وہ سمندری طوفان سے ہونے والے نقصانات کا دورہ کرنے شمالی کیرولائنا گئے تھے

دوسری جانب لارنس موئرکا خیال ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم خاص طور پر امیگریشن ایجنڈے پر تیزی سے متحرک ہو گئی ہے اور انھوں نے اپنے حلف کے روز ہی جس طرح جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا، فوج تعینات کی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سینکڑوں دستاویز نہ رکھنے والے تارکین وطن کوگرفتار کیا وہ اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔‘

’یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کیونکہ (نئے بارڈر سربراہ) ٹام ہومین پہلے دور میں وہاں موجود تھے اور وہ جانتے ہیں کہ کیا غلط ہوا اور کیا صحیح اور اب اصل میں چیزوں کو کیسے انجام دینا ہے۔‘

ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں ان کی کئی اصلاحات عدالت میں چیلنج ہو جانے کے باعث ناکام ہوئیں تو دوسری طرف ناتجربہ کار ٹیم کی ناقص منصوبہ بندی اور ان پرعملدرآمد نہ ہونے نے ان اصلاحات کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔

اس بار ٹرمپ کی ٹیم زیادہ پُرامید ہے کہ وہ ایک پائیدار تبدیلی کی بنیاد رکھ رہی ہے اور ان کے پاس ایک زیادہ سازگار عدلیہ ہے جس میں ٹرمپ کے مقرر کردہ ججز شامل ہیں۔

اگرچہ ٹرمپ کے کچھ ایگزیکٹو آرڈرز اگر کالعدم بھی ہو جائیں تو صدر نے پہلے ہی اپنے اتحادیوں اور مخالفین دونوں کو ایک پیغام بھیج دیا ہے کہ ٹیک کمپنیوں کا مشہور مقولہ ’ تیزی سے آگے بڑھیں چاہے آپ سے غلطیاں ہوں‘ (move fast and break things) اب امریکی حکومت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.