چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک نے چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایسی حریف ایپز کو مات دے کر امریکہ، برطانیہ اور چین میں ایپل کے ایپ سٹور پر ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن بن گئی ہے۔
چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک نے چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایسی حریف ایپز کو مات دے کر امریکہ، برطانیہ اور چین میں ایپل کے ایپ سٹور پر ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن بن گئی ہے۔
رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے ہی اس ایپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس ایپ کی بڑھتی مقبولیت نے اس نظریے کو چیلنج کیا ہے کہ امریکہ ہیاے آئی کی صنعت میں اچھوت لیڈر ہے۔
یہ ایپ اوپن سورس ڈیپ سیک وی تھری ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے اور محقیقین کا دعویٰ ہے کہ اسے چھ ملین ڈالرز سے کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ جب کہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مصنوعی ذہانت کی ایپس پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔
تاہم کمپنی کے اس دعوے کو مصنوعی ذہانت کی دنیا میں دیگر نے متنازعہ قرار دیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں کمپنی نے ڈیپ سیک آر ون کے لانچ کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارکردگی چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کپمنی اوپن اے آئی کے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔ ان ماڈلز کو ریاضی، کوڈنگ اور عام زبان کے استدلال جیسے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سلیکون ویلی وینچر کیپیٹلسٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈریسن نے ڈیپ سیک-آر 1 کو 'اے آئی کی دنیا میں سپوٹنک کے لمحہ' کے طور پر بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس کا موازانہ سنہ 1957 میں سوویت یونین کے ذریعہ لانچ کیے گئے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ سے کیا۔
چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک جیسی ایپس کے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو تیار کرنے اور ان کے مؤثر طرح سے کام کرنے کے لیے جدید اور ایڈوانس چپیس درکار ہوتی ہیں۔ مگر سنہ 2021 سے امریکہ نے چین کو یہ جدید چپس فروخت کرنے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
درآمد شدہ جدید چپس کی مسلسل فراہمی کے بغیر اپنا کام جاری رکھنے کے لیے، چینی اے آئی ڈویلپرز نے اپنے کام کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا ہے اور ٹیکنالوجی کے لیے نئے طریقوں کے ساتھ تجربہ کیا۔
اس کے نتیجے میں ایسےاے آئی ماڈلز سامنے آئے ہیں جن کے لیے پہلے سے کہیں کم کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی لاگت اس سے بہت کم ہے جو پہلے سوچا گیا تھا۔ اور یہ مصنوعی ذہانت کی صنعت میں تہلکہ مچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پیر کی صبح اینویڈیا، مائیکروسوفٹ اور میٹا جیسی امریکی اے آئی کمپنیوں کے حصص میں گراوٹ دیکھی گئی۔ اور اس پیش رفت کا اثر یورپی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں پر بھی ہوا۔
چپ تیار کرنے والی ایک ڈچ کمپنی اے ایس ایم ایل کے حصص کی قیمت میں 10 فیصد سے زیادہ گراوٹ دیکھی جبکہ سیمنز انرجی کے حصص، جو کہ اے آئی سے متعلق ہارڈ ویئر بناتی ہے کے حصص کی قیمت میں 21 فیصد کمی دیکھی گئی۔
سٹی انڈیکس کی سینئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا سنکوٹا کا کہنا ہے کہ 'کم قیمت چینی ورژن کو ابھی اتنی توجہ حاصل نہیں تھی مگر اس نے لانچ کے بعد مارکیٹ کو قدرے حیرت میں ڈال دیا ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ ' لہذا اگر آپ کو اچانک یہ کم لاگت والا اے آئی ماڈل مل جاتا ہے، تو اس سے حریفوں کے منافع پر تشویش بڑھے گی، خاص طور پر اس رقم کو دیکھتے ہوئے جو وہ پہلے ہی زیادہ مہنگے اے آئی انفراسٹرکچر میں لگا چکے ہیں۔'
سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ 'ممکنہ طور پر پوری اے آئی سپلائی چین کے لیے سرمایہ کاری کو پٹڑی سے اتار سکتا ہے۔'
لیکن وال سٹریٹ بینکنگ کمپنی سٹی نے خبردار کیا کہ ڈیپ سیک اوپن اے آئی جیسی امریکی کمپنیوں کے غلبے کو چیلنج کر سکتا ہے، اور چینی فرمیں ان کی ترقی کو روک سکتی ہیں۔
سٹی بینک کے تجزیہ کاروں نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 'ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ یقیناًزیادہ پابندی والے ماحول میں، امریکہ کی زیادہ جدید چپس تک رسائی ایک فائدہ ہے۔'
پچھلے ہفتے، امریکی ٹیک فرموں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ایک کنسورشیم نے سٹار گیٹ پروجیکٹ کا اعلان کیا، ایک کمپنی جو ٹیکساس میں اے آئی انفراسٹرکچر میں 500 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
ڈیپ سیک کی بنیاد کس نے رکھی؟
ڈیپ سیک کمپنی کی بنیاد سنہ 2023 میں جنوب مشرقی چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔
40 سالہ لیانگ ایک انفارمیشن اینڈ الیکٹرانک انجینیئرنگ گریجویٹ ہیں نے ڈیپ سیک کو سہارا دینے والے ایک فنڈ کی بنیاد بھی رکھی تھی۔
مبینہ طور پر انھوں نے چین میں ایک ایونیڈیا اے 100 چپس کا ایک سٹور بنایا تھا۔ اب چین کو یہ چپس برآمد کرنے پر پابندی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار یہ چپس موجود تھی جنھیں انھوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو لانچ کیا ہے۔ سستی چپس اب بھی چین کو درآمد کرنے کی اجازت ہے۔
لیانگ کو حال ہی میں ایک اے آئی صنعت کے ماہرین اور چینی وزیر اعظم کے مابین ایک ملاقات میں دیکھا گیا ہے۔
جولائی 2024 کو چائنا اکیڈمی کودیے گئے ایک انٹرویو میں لیانگ نے کہا تھا کہ وہ اپنے اے آئی ماڈل کے پچھلے ورژن پر ردعمل سے حیران ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ قیمتوں کا تعین اتنا حساس مسئلہ ہو گا۔
'ہم صرف اپنی رفتارسے کام کر رہے تھے، اخراجات کا حساب لگا رہے تھے، اور اس کے مطابق قیمتیں مقرر کر رہے تھے۔'