اکرم افغانستان میں طالبان کی حکومت میں انٹیلیجنس افسر ہیں اور وہ ہر مہینے کابل میں واقع ’مجاہدین بازار‘ ضرور آتے ہیں تاکہ اپنی پسند کا اسلحہ اور دیگر سامان خرید سکیں۔ لیکن یہاں ملنے والا اسلحہ افغانستان میں تیار نہیں کیا جاتا بلکہ یہ وہ سازوسامان ہے جو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے انخلا کے وقت یہاں چھوڑ گئے تھے۔
اکرم افغانستان میں طالبان کی حکومت میں انٹیلیجنس افسر ہیں اور وہ ہر مہینے کابل میں واقع ’مجاہدین بازار‘ ضرور آتے ہیں تاکہ اپنی پسند کا عسکری و دیگر سامان خرید سکیں۔
لیکن یہاں ملنے والا عسکری سامان افغانستان میں تیار نہیں کیا جاتا بلکہ یہ وہ سازوسامان ہے جو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے انخلا کے وقت یہاں چھوڑ گئے تھے۔
اکرم کہتے ہیں کہ وہ اس بازار میں اپنی رائفل کے لیے دوربین (سکوپ) ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس بازار میں موجود ایک دُکاندار نے انھیں اس کی قیمت 16 ہزار افغانی (212 ڈالر) بتائی۔
لیکن اکرم چاہتے ہیں کہ یہاں ان کا کوئی سستا سودا بن جائے۔ وہ دُکاندار کو بتا رہے ہیں کہ ’دوسری دُکان پر تو یہ سکوپ آٹھ ہزار افغانی (106 ڈالر) میں فروخت ہو رہا ہے۔‘
امریکہ نے افغانستان میں ایک مہنگی جنگ لڑی تھی جس پر تقریباً 20 برس میں دو کھرب 30 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔
سنہ 2021 میں افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی فوج نے اپنا زیادہ تر ساز و سامان تباہ کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ اور دیگر سامان پیچھے رہ گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر طالبان 2021 میں امریکہ کے انخلا کے بعد قبضے میں لیے گئے فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے تو افغانستان کے لیے انسانی امداد میں کمی کر دی جائے گی۔
2022 میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد سات ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا۔
سنہ 2003 اور 2016 کے درمیان امریکہ نے افغان فورسز کے لیے بھاری مقدار میں فوجی سازوسامان بھیجا جو ان کے ساتھ لڑائی میں شریک تھے۔
امریکی حکومت کی احتساب کی رپورٹ کے مطابق اس سامان میں مختلف ساخت کی تین لاکھ 58 ہزار 530 رائفلیں، 64 ہزار سے زیادہ مشین گن، 25،327 گرینیڈ لانچر اور 22،174 ہمویز (تمام اقسام کی سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں) شامل تھیں۔
تاہم اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کابُل میں واقع ’مجاہدین بازار‘ میں خریداری کے لیے آنے والے طالبان کے انٹیلیجنس افسر اکرم کہتے ہیں کہ ’ہمیں امریکہ کے چھوڑے ہوئے سامان کی ضرورت نہیں۔‘
تاہم جب انھیں بتایا گیا کہ ’آپ کی بندوق تو امریکی ہے؟‘ تو کہنے لگے کہ ’یہ امریکی ہے لیکن میرے ہاتھوں میں ہے۔ اب امریکی اس کا استعمال نہیں کر سکتے، اب اسے ہم استعمال کرتے ہیں۔‘
لیکن اسلحے اور دیگر ساز و سامان کی مارکیٹ کا نام ہمیشہ سے ’مجاہدین بازار‘ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل اس کے نام کو امریکی اور سوویت یونین کے رہنماؤں کے ناموں سے منسوب کیا گیا تھا۔
’مجاہدین بازار‘ کا پہلے کیا نام تھا؟
اس بازار میں اسلحے کی مرمت بھی کی جاتی ہے لیکن طالبان کی جانب سے بی بی سی کو ان دُکانوں کی ویڈیوز بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
لیکن اس بازار کی کہانی بیان کرنے کے لیے یہاں عبدالقدوس نامی دُکاندار ضرور موجود تھے جو یہاں دہائیوں سے روسی اور امریکی ساز و سامان فروخت کر رہے ہیں۔
سویت یونین نے 1979 میں جب افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت اس کے رہنما لیونڈ بزژنف تھے۔
عبدالقدوس کہتے ہیں کہ ’یہ مارکیٹ لیونیڈ بریژنف کے زمانے میں بنائی گئی تھی، اسی لیے اسے بریژنف بازار کا نام دیا گیا تھا۔‘
لیکن پھر وقت بدلا اور سوویت یونین کی فوج کا انخلا ہوا۔ تاہم 2001 میں جب امریکی اور اتحادی افواج کا حملہ ہوا تو ایک بار پھر اس بازار کا نام بدلنے کا وقت آ گیا تھا۔
عبدالقدوس بتاتے ہیں کہ ’جب امریکہ (سنہ 2001 میں) افغانستان میں آیا تو ہم نے اسے بُش بازار کا نام دے دیا، لیکن جب وہ یہاں سے چلے گئے اور طالبان واپس آئے تو ہم نے پُرانا بورڈ اُتار دیا اور اسے مجاہدین بازار کا نام دیا گیا۔‘
اس بازار میں اب امریکی افواج کی چھوڑی گئی اشیا فروخت کی جاتی ہیں اور اسی سبب یہاں طالبان کے جنگجوؤں کا رش لگا رہتا ہے۔
طالبان کے انٹیلیجنس افسر اکرم کہتے ہیں کہ ’میں یہاں رائفل کا سکوپ، یونیفارم اور دیگر سامان خریدنے آیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے رائفل کے یہ سکوپس بہت پسند ہیں اور میں اوریجنل کی تلاش میں ہوں۔‘
اس بازار میں کچھ ہیلمٹ بھی نظر آئے جو کہ کبھی غیر ملکی فوجیوں کے سروں پر ہوتے تھے لیکن اب وہ یہاں فروخت کیے جاتی ہیں۔
عبدالقدوس امریکی فوج کے ہیلمٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہاں فوجی اڈوں میں وہ (امریکی فوجی) ایسے بہت سارے ہیلمٹس پیچھے چھوڑ گئے تھے۔‘
اگر افغانستان میں طویل عرصے تک جنگیں نہ جاری رہتیں تو ہو سکتا ہے یہاں کاروبار کرنے والے تاجر کوئی اور کام کر رہے ہوتے۔
عبدالجبار نامی تاجر کہتے ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے خواتین کے کپڑوں کی دکان کھولنا چاہتا تھا، لیکن ہمارے ملک میں ہمیشہ جنگ ہی رہی۔ یہاں میرے پیدائش سے قبل جنگ چل رہی ہے۔‘
اب ان ہی جنگوں کے سبب ’مجاہدین بازار‘ میں بھی کاروبار چل رہا ہے۔
عبدالجبار کہتے ہیں کہ ’مجاہدین یہاں اپنے ہتھیاروں کو سجانے کے لیے سکوپس، لیزر لائٹیں اور دیگر سامان لینے کے لیے آتے ہیں۔‘
’ہم ان کے ہتھیار صاف بھی کرتے ہیں اور انھیں سامان بھی فروخت کرتے ہیں۔‘