ٹرمپ انتظامیہ کا امریکی امداد بند کرنے کا فیصلہ: پاکستان کس حد تک متاثر ہو گا؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد امریکہ نے ایسی تمام امداد کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جو کسی بھی غیر ملک کو دی جا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھنئی امداد کی فراہمی پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے پاکستان کتنا متاثر ہو گا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
Getty Images

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد امریکہ نے ایسی تمام امداد کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جو کسی بھی غیر ملک کو دی جا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھنئی امداد کی فراہمی پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔

امریکہ نے پابندی سے متعلق یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو بھی بھیجا گیا ہے۔ اس دستاویز کے تحت صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل اور مصر کے لیے فوجی امداد کو اس حکم سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

دستاویز کےمطابق ’اس دوران نہ کوئی نیا فنڈ جاری ہو گا اور نہ ہی موجودہ معاہدوں میں توسیع کی جائے گی جب تک کہ ہر نئے معاہدے یا توسیع کا جائزہ لے کر اس کی نئے سرے سے منظوری نہ دی جائے گی۔‘

یہ معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیر کے روز جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا، جس میں انھوں نے 90 دن کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد کو مؤخر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ اس کے مؤثر ہونے اور ان کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کا جائزہ لیا جا سکے۔

یاد رہے کہ امریکہ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔

محکمہ خارجہ کا یہ میمو ترقیاتی امداد سے لے کر فوجی امداد تک سب پر اثرانداز ہو گا۔

احکامات میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکام فوری طور پر متعلقہ معاہدوں کی شرائط کے مطابق کام روکنے کی ہدایات جاری کریں جب تک کہ اس سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا جائے۔

اس میمو کے مطابق تین ماہ کے اندر غیر ملکی امداد کے تمام پروگراموں کے وسیع پیمانے پر جائزے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کو پورا کرتی ہے۔

اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کہہ چکے ہیں کہ بیرونِ ملک امریکی اخراجات اور امداد صرف اسی وقت کی جائے گی جب ان سے امریکہ کی مضبوطی، اسے محفوظ یا زیادہ خوشحال بنانا ثابت ہو سکے گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ یہ نوٹس امریکی امدادی پروگراموں پر ممکنہ طور پر بہت بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔

امریکہ
Getty Images

امریکہ پاکستان کو کس طرح اور کن شعبوں میں یہ امداد دے رہا تھا؟

جن شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مدد دی گئی ان میں ایمرجنسی رسپانس، گورنمنٹ اینڈ سول سوسائٹی، آپریٹنگ اخراجات، بنیادی شعبہ صحت، توانائی، زراعت اور دیگر سماجی خدمات اور دیگر شعبے شامل ہیں۔

پاکستان میں امداد بہم پہنچانے والے امریکہ اہم پارٹنرز میں ورلڈ فوڈ پروگرام، یو این چلڈرن فنڈ، امریکی حکومت کی اپنی ایجنسی، جے ایس آئی ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، نومارک ایسوسی ایٹس، یو این آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم اور یو این پاپولیشن فنڈ شامل ہیں۔

امریکہ کے پاکستان میں سفارتخانے کی ویب سائٹ پر درج تفصیلات کے مطابق امریکہ نے گذشتہ 20 برس میں پاکستان کو 32 ارب ڈالر کی براہ راست امداد دی ہے۔

امریکی دستاویزات کے جائزے سے یہ پتا چلتا ہے کہ 2001 سے لے کر 2010 تک پاکستان کی امداد میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی یہ امداد 2001 میں 175 ملین ڈالر سے بڑھ کر 268 ملین ڈالر تک ہو گئی۔

یہ وہ عرصہ تھا جب امریکی اور اتحادی افواج افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں اور پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیا۔

2013 سے 2015 تک امریکہ نے پاکستان کی امداد میں قدرے اضافہ کیا مگر پھر 2018 تک اس میں مسلسل کمی کرنا شروع کر دی۔سنہ 2018 اور 2019 کے درمیان اس امداد میں قدرے اضافہ کیا گیا مگر اس کے بعد پھر کمی لائی گئی۔

امریکہ نے 2023 میں پاکستان کو 170 ملین ڈالر تک کی مدد فراہم کی جبکہ گذشتہ برس 2024 میں یہ امداد کم کر کے 116 ملین ڈالر کر دی گئی تھی۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کے مطابق یہ امداد پاکستان کے عوام کو براہ راست نہیں ملتی تھی بلکہ اس کا بڑا حصہ تو پارٹنرز اور این جی اوز پر ہی خرچ ہو جاتا تھا۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اس امداد میں بہت خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں امریکہ پارٹنرز اور این جی اوز کے ذریعے دے رہا تھا۔ بڑے منصوبے یو ایس ایڈ، ڈیموکریسی رائٹس اینڈ لیبر، یو این ایس پی اور اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ذریعے چل رہے تھے۔

’پاکستانی فوج کو ملنے والی امداد براہ راست امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے آتی تھی۔‘

احمد بلال کے مطابق تین ماہ تک اب یہ امداد معطل ہے اور اس کے بعد تقریباً آدھے منصوبے بند کر دیےجائیں گے اور ان میں سے بھی بڑی تعداد میں معاہدات میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔

ان کے مطابق اس سے قبل ’جینڈر انکلیوسونس‘ ہر معاہدے کا حصہ ہوتی تھی مگر اب یہ ٹرمپ کی ترجیح میں شامل نہیں ہے اور انھوں نے واضح کیا کہ صرف مرد اور عورت کی صورت دو جینڈر ہی ہیں۔

احمد بلال کے مطابق صدر ٹرمپ جمہوریت کے فروغ سے متعلق بھی زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ اب ان منصوبوں کے بجائے وہ سرمایہ کاری اور اکنامک لٹریسی جیسے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔

پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے بڑے منصوبوں میں 21 اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کا ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس پروگرام تھا۔ اس کے علاوہ صحت کے منصوبوں پر دس ملین ڈالر، یو ایس پے اینڈ بینیفٹس پر آٹھ ملین ڈالر سے زائد خرچ ہو رہے تھے۔ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے ساڑھے سات ملین ڈالر جبکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے سات اعشاریہ سات ملین ڈالر امداد دی جا رہی تھی۔

انسانی امداد میں سات ملین ڈالر اور پولیو ویکسین کی مدد میں چھ اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر اور پانچ اعشاریہ نو ملین ڈالر یونیسف کو پاکستان میں جاری منصوبوں کے لیے امریکی امداد مل رہی تھی۔

فاٹا اصلاحات کے لیے تقریباً ساڑھے پانچ ملین ڈالر کی امداد دی گئی۔

امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کیسے متاثر ہوگا؟

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کو دی جانے والی یہ امریکی امداد بہت ہی معمولی نوعیت کی ہے۔

ملیحہ لودھی کے مطابق ’پاکستان نے کافی عرصے سے امریکہ پر انحصار ختم کر دیا ہے اور اب کبھی کبھار ایف 16 کے سپیر پارٹس کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ آسانی سے مل جاتے ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں ملیحہ لودھی نے بتایا کہ ماضی میں اگر امریکہ نے پاکستان کی مدد کی بھی ہے تو وہ اپنی خوشی اور مفادات کو دیکھ کر کی ہے۔ ان کے مطابق ’اس وقت اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نہ ہونے کے برابر پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور نہ پاکستان کو ایسی مدد کی ضرورت ہے۔‘

ڈویلپمنٹ شعبے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حارث خلیق اس رائے سے متفق ہیں۔

ان کے مطابق تاریخی طور پر بین الاقوامی سطح پر امریکی حکومت کی ترقیاتی امداد اس کے جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔

ان کے مطابق ’یہ اتنی بڑی امداد نہیں ہے مگر یہ خاص طرح کا رویہ ہے جس سے پوری دنیا ہی متاثر ہو گی۔ اس سے ادارے اور اقوام متحدہ کے ادارے بھی متاثر ہوں گے۔‘

حارث خلیق کے مطابق ’اس اعلان پر عملدرآمد ہوا تو پھر امریکہ عالمی سطح پر آہستہ آہستہ تنہا ہوتا جائے گا۔ یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے مختصر مدت میں ہی نقصان دہ ثابت ہوگا۔‘

حارث خلیق کے مطابق ایوب دور میں امریکہ زور و شور سے پاکستان میں امداد لے کر آیا اور ولیج ایڈ نامی پروگرام متعارف کرایا۔ ان کے مطابق امریکہ نے سب سے زیادہ مدد فوجی آمروں کے دور میں ہی دی ہے جس سے امریکہ کے حوالے سے عوامی جذبات بھی متاثر ہوئے۔

حارث خلیق کے مطابق ’جہاں جہاں امریکہ نے بہت سارے منصوبوں میں مدد دی ہے اس سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے۔ اگر یہ امداد بند ہوتی ہے تو پھر اس کے پاکستان پر معاشی اثرات کم اور امریکہ کے لیے سفارتی اثرات زیادہ ہوں گے کیونکہ امریکی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ان کے مطابق اس سے ’امریکہ کی اچھی ساکھ ختم ہو گی۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’فوجی امداد کا ترقیاتی امداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجی امداد اس وقت ہی ملتی ہے جب پاکستان امریکی مقاصد کے ساتھ کھڑا ہو تو اس معاملے میں فوجی امداد ملے گی۔ وگرنہ پاکستان امریکی ایجنسیوں سے یہ چیزیں خریدتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس اعلان کے بعد پاکستان میں امریکہ کے جاری منصوبوں پر نفسیاتی اثر ضرور پڑے گا مگر جو معاہدے ہو چکے ہیں وہ منصوبے مکمل ہوں گے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’90 کی دہائی میں ماضی میں امریکہ نے پاکستان کے لیے جاری منصوبے بھی بند کر دیے تھے۔‘

’ہم وسائل کی کمی کا شکار ملک ہیں تو اس میں ضرور اس کے اثرات مثبت ہیں مگر یہ امداد کہیں کم ہیں۔‘

واشنگٹن میں موجود تجزیہ کار مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے امریکی امداد وصول کر رہا تھا اور پاکستان میں یو ایس ایڈ ان امدادی منصوبوں میں بہت مگن تھی۔

ان کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو دی جانے والی امریکی امداد پر بہت تنقید بھی ہو رہی تھی۔ اسی وجہ سے نئی انتظامیہ نے ایسا فیصلہ کیا۔

مائیکل کگلمین کے مطابق اس فیصلے سے ضرورت مند طبقات بری طرح متاثر ہوں گے اور اس پابندی کا وقت بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس وقت پاکستان پہلے سے ہی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔

’ایکسچینج پروگرام اور فلبرائٹ کے طلبہ متاثر نہیں ہوں گے‘

پاکستان میں امریکی منصوبوں پر کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ہر برس پانچ سو پاکستانی مختلف ایکسچینج پروگرامز اور تعلیمی سکالرشپ پر امریکہ جاتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ امداد تکنیکی طور پر غیرملکی امریکی امداد کے زمرے میں نہیں آتی جسے معطل کیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اہلکار نے بتایا کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے یہ پروگرام جاری رہیں گے اور امریکہ میں اس وقت فلبرائٹ سکالرشپ پر زیر تعلیم طلبہ بھی اس پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے۔

خراسان ڈائری سے منسلک سینیئر صحافی افتخار فردوس کے مطابق امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان میں مقیم 14 ہزار کے قریب افغان پناہ گزین بھی متاثر ہوں گے جن کی بڑی تعداد امریکہ جانے کی منتظر تھی۔

ان کے مطابق فی الحال تو 90 دن کے لیے سب کچھ ہی رک گیا ہے۔ ان کے مطابق اس پابندی سے سب زیادہ غیرسرکاری شعبہ متاثر ہو گا، جن کے ذریعے یہ امداد دی جا رہی تھی۔ ان کے مطابق اس پابندی سے اقوام متحدہ کا بجٹ بھی متاثر ہوگا۔

تاہم ان کی رائے میں اس پابندی کا پاکستان کے کاونٹر ٹیررازم کے شعبے پر بہت کم ہی اثر ہوگا۔

افتخار فردوس کے مطابق بلوچستان کی سرحد پر کاؤنٹر ٹیررازم کی کچھ عمارتیں ہیں جو امریکہ امداد سے چلائی جا رہی تھیں اور اب وہ آپریشن اس پابندی سے متاثر ہوں گے۔

ملیحہ لودھی کے مطابق امریکہ کی اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا اور اگر امریکہ نے عالمی سطح پر جاری آپریشنز میں مدد نہ بھی فراہم کی تو اقوام متحدہ 193 ممالک کا نام ہے یہ صرف امریکہ نہیں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.