ٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیں

صدر ٹرمپ نے ملک سے دس لاکھ افراد کو نکالنے کے ہدف کے ساتھ بغیر قانونی دستاویزات والے تارکین وطن کے لیے ملک بدری کی سخت پالیسی نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے اعلیٰ حکام نے بھی تارکین وطن کی پناہ گاہ کہلانے والے شہروں پر اپنی نگاہیں جما رکھی ہیں۔
امریکہ تارکین وطن کا مسئلہ
Getty Images
امریکہ میں تارکین وطن کا مسئلہ

اگرچہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پر باتیں ہوئی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد تارکین وطن کے لیے بڑا چیلنجبن گئی ہے۔

بدھ کے روز امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے گوانتانامو بے میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ایک حراستی مرکز بنانے کا حکم دیا جہاں 30 ہزار افراد کو رکھا جا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر بنایا جانے والا حراستی مرکز وہاں موجود ہائی سکیورٹی جیل سے الگ ہوگا جہاں ان ’بد ترین جرائم پیشہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو رکھا جائے گا جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔‘

یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتانامو بے کو غیرقانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کا کہنا ہے وہاں پہلے سے موجود مرکز کی توسیع کی جائے گی۔ ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) سنبھالے گی۔

یہ واضح نہیں ہے کہ اس مرکز کی توسیع پر کتنی لاگت آئے گی یا یہ کب تک مکمل ہو سکے گا لیکن کیوبا کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے ملک سے دس لاکھ افراد کے قریب ایسے تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکہ کے وہ شہر رکاوٹ بن سکتے ہیں جنھیں ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ قرار دیا جاتا ہے۔

ان میں لاس اینجیلس، نیویارک، ہیوسٹن، شکاگو اور اٹلانٹا جیسے شہر شامل ہیں جہاںبنا قانونی دستاویز والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی نسبت نقل مکانی کے لیے زیادہ دوست نواز ہیں۔

یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو شہر سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کے کا آغاز کیا اور اور اس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے آخر تک اسی قسم کی کارروائياں اٹلانٹا، ڈینور، میامی اور سان انتونیو میں بھی شروع ہو گئیں۔

لیکن کسی شہر کا اپنے آپ کو ’پناہ گاہ‘ کہنے کا مطلب کیا ہے اور یہ بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو کیسے فائدہ پہنچا سکتا ہے؟

مہاجروں کی قابل فخر بیٹیاں
Getty Images
لاس اینجیلس تارکین وطن کی پناہ گاہ کہلانے والے شہروں میں شامل ہے

تعاون کا سوال

ان شہروں میں استعمال ’پناہ گاہ‘ کی اصطلاح عہد وسطیٰ سے لی گئی ہے۔ اُس زمانے میں سرائے اور خانقاہیں یا موناسٹریز ہوتی تھیں جو مسافروں کے لیے ایک پناہ گاہ یا تحفظ فراہم کرنے کا کام کرتی تھیں۔

وہ ایسے لوگوں کو پناہ دیتی تھیں جو خود کو مجرموں سے بچانا چاہتے تھے یا پھر ان غلاموں کی پناہ دی جاتی تھی جو ظلم ستم کا شکار تھے۔ لیکن امریکہ میں اس کا استعمال 20ویں صدی کے آخر میں ہونا شروع ہوا۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی میں امیگریشن لیبارٹری اور سینٹر فار لیٹن امریکن سٹڈیز کے ڈائریکٹر ارنیسٹو کاستانیدا نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’سنہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسے روایت کو کچھ مذہبی اراکین اور سماجی کارکنوں نے زندہ کیا جنھوں نے ایل سلواڈور یا گوئٹے مالا سے آنے والے تارکین وطن کو آمرانہ حکومتوں سے بچنے اور امریکہ میں داخل ہونے اور لاس اینجلس، سان فرانسسکو یا واشنگٹن جیسے شہروں میں محفوظ کمیونٹیز میں رہنے میں مدد کی۔‘

اُس زمانے میں جاری تارکین وطن کے حقوق کی تحریک، جو فرانس اور دیگر ممالک میں ہونے والی جدوجہد سے متاثر تھی، کے کچھ کارکنوں نے امریکہ میں ان شہروں کا پناہ گاہ کے طور پر حوالہ دینا شروع کیا جہاں بغیر دستاویزات والے افراد کی بڑی آبادی تھی۔

ارنیسٹو کاستانیدا نے کہا کہ ’یہ اپنے آپ میں ایک علامتی اعلان ہے۔ اس کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے، کوئی وفاقی ’سینکچوئری‘ (پناہ گاہ) کا قانون نہیں ہے جو یہ کہے کہ کیا قانونی ہے، کیا غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ وہ شہر ہیں جہاں غیر ملکیوں، اقلیتوں اور بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے لیے رواداری دیکھی جاتی ہے۔‘

اس وقت سے نیو یارک اور لاس اینجیلس جیسے بڑے شہروں میں حکام نے ایسی پالیسیاں اپنانا شروع کیں جو ان تارکین وطن کے لیے دوستانہ ہوں۔ ان پالیسیوں میں سے ایک اہم پالیسی یہ ہے کہ وفاقی امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ کس حد تک تعاون کیا جائے۔

صدر ٹرمپ نے پہلے دن بہت سے احکامات پر دستخط کیے
Getty Images
صدر ٹرمپ نے دوسرے دور صدارت کے پہلے دن بہت سے احکامات پر دستخط کیے

مثال کے طور پر جب مقامی پولیس بغیر معقول دستاویز کے کسی شخص کو حراست میں لیتی ہے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں: ان کی امیگریشن کی حیثیت کی تصدیق کرے اور متعلقہ حکام کو مطلع کرے یا پھر ایسا کچھ نہ کرے۔

کاستانیدا نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’مثال کے طور پر نیویارک میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر کسی کو حراست میں لیا گیا ہے اور اس کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں تو وفاقی حکام کو فوری طور پراس کے متعلق مطلع کیا جائے۔ لیکن امیگریشن حکام اس شخص کو حراست میں لینے کی درخواست کر سکتے ہیں۔‘

دوسرے شہر خاص طور پر ملک کے جنوب میں واقع شہروں کی رپبلکن حکومتوں میں وفاقی ایجنسیوں کے ذریعے غیر دستاویزی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرنے کی زیادہ کوشش کی جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسران ان وفاقی حکام کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ان سے پوچھ گچھ کریں اور ملک بدری کے مقدمات شروع کریں، یا اگر وہ سنگین جرائم کے مرتکب نہ ہوں تو انھیں رہا کر دیا جائے۔ یعنی یہ ان کی صوابدید پر ہے۔‘

چونکہ ہر ریاست یا مقامی اتھارٹی کے اپنے قوانین اور پالیسیاں ہیں اور ہر مقامی پولیس فورس، یہاں تک کہ ایک ہی شہر کے اندر کام کرنے والی مختلف پولیس کے محکمے بھی اپنی صوابدید کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کہ وفاقی امیگریشن ایجنسیوں کو اس متعلق اطلاع دینی ہے یا نہیں۔

لاس اینجیلس سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ سانتا مونیکا پولیس ڈیپارٹمنٹ سے مختلف ہے حالانکہ دونوں ایک ہی شہر میں واقع ہے۔ میئرز کی طرح پولیس کے سربراہ بھی اپنی پالیسیوں پر عمل کر سکتے ہیں۔

کاستانیدا نے یہ بھی بتایا کہ ’خود پولیس افسران کی اپنی اپنی صوابدید ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہر علاقے میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ سروس (آئی سی ای) کے دفاتر میں بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے۔‘

لیکن ٹرمپ انتظامیہ (اور ماضی میں دیگر رپبلکن حکومتیں) ان میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اور تعاون پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نیویارک پولیس
Getty Images
نیو یارک میں پولیس عام طور پر حراست میں لیے جانے والے فرد کی تارکین وطن والی حیثیت نہیں پوچھتی ہے

مستقل ڈھال؟

اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وفاقی ایجنٹ بھی اس معاملے میں اپنا کام نہیں کر سکیں گے۔

اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتا چلتا ہے تو انھیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ کاروباری اداروں یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔

کاستانیدا بتاتے ہیں کہ ’دورِ حاضر کے امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتا ’پناہ گاہ‘ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر قانونی دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں بہت سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن جانتے ہیں کہ ’اگر ان کے پاس معقول دستاویزات نہیں ہیں اور ان پر ملک بدری کے احکامات عائد ہیں تو وہ تمام پولیس فورسز پر اعتماد نہیں کرتے، وہ کوئی بھی جرم کرنے سے بچتے ہیں، وہ ڈرائیونگ یا باہر جانے کی کوشش نہیں کرتے کہ کہیں پولیس کا سامنا نہ ہو جائے، وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے یا اس طرح کی کوئی چیز کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ان کے لیے ملک بدری کا باعث بنے۔‘

شکاگو میں ایسے پوسٹرز لگائے گئے ہیں جن میں چھاپوں کے بارے میں بتایا گيا ہے
Getty Images
شکاگو میں ایسے پوسٹرز لگائے گئے ہیں جن میں تارکین وطن کے خلاف چھاپوں کے بارے میں بتایا گيا ہے

بہر حال ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکینِ وطن کی پناہ گاہ کہے جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ ’تحفظ‘ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

وہ اس چیز کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ یہ تارکین وطن امریکہ کے سپورٹ یا صحت کے پروگراموں کا استعمال کر سکتے ہیں اور وہ عوامی وسائل کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

’امیگریشن ریئلیٹیز: چیلنجنگ کامن مس کانسیپشن‘ نامی کتاب کے شریک مصنف کاستانیدا کہتے ہیں کہ ’تارکین وطن دوسرے گروپوں کے مقابلے میں کم فلاحی پروگرامز کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس اور پنشن کی مد میں زیادہ ادائیگی کرتے ہیں جن کا وہ ریٹائر ہونے پر کبھی دعویٰ نہیں کرتے، کیونکہ انھوں نے یا تو غلط سوشل سکیورٹی نمبر استعمال کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ زائد ادا کیے ٹیکسوں کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ بے نقاب ہونے کے خوف سے امدادی پروگراموں پر اپنا حق نہیں جتاتے۔‘

حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس ان ریاستوں اور مقامی حکام کی حمایت کر سکتا ہے جو اس کی امیگریشن پالیسیوں میں مدد کرتے ہیں۔

جارج ڈبلیو بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور کی ریپبلکن انتظامیہ نے ’سیکشن 287 جی‘ جیسے ضابطوں کا استعمال کیا ہے تاکہ مقامی حکام کو امیگریشن کی حیثیت کا جائزہ لینے جیسے وفاقی کاموں کو انجام دینے کے لیے ترغیبات فراہم کی جائیں۔

ٹیکسس کے گورنر ٹرمپ کے احکامات کی حمایت کر رہے ہیں
Getty Images
ٹیکساس کے گورنر ٹرمپ کے احکامات کی حمایت کر رہے ہیں

شکاگو توجہ کا مرکز

اپنے دوسرے دور میں ٹرمپ نے دفتر میں پہلے دن امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے جس میں ایک قانون کو منسوخ کرنا شامل تھا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنھیں پہلے ’حساس‘ سمجھا جاتا تھا اور انھیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔

ٹام ہومن بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے خلاف حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک ہیں اور انھیں ٹرمپ نے ’بارڈر زار‘ کا عہدہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ بغیر دستاویزات والے افراد کو تلاش کرنے اور پکڑنے کی کارروائی سب سے پہلے شکاگو میں ہوگی۔

اس شہر اور ریاست پر ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔ میئر برینڈن جانسن اور گورنر جے بی پرٹزکر نے کہا ہے کہ وہ ’سینکچوری سٹی‘ کے قوانین کی حمایت کرتے ہیں جنھیں ’ویلکمنگ سٹی‘ آرڈینینس کہا جاتا ہے۔

لیکن اتوار کو شکاگو میں متعدد ایجنسیوں کی طرف سے امیگریشن کے نفاذ کی کارروائیاں کی گئیں جن کی نگرانی کے لیے شہر کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

متعدد ذرائع نے بی بی سی نیوز کے امریکی شراکت دار کو بتایا کہ ان کارروائیوں میں ان تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا جن کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہیں۔

لیکن جب سے صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ کارروائیاں صرف ان لوگوں تک محدود نہیں رہیں گی جن کے خلاف پہلے سے کارروائیاں چل رہی ہیں بلکہ اس کا اطلاق تمام ایسے لوگوں پر ہوگا جن کے پاس معقول دستاویزات نہیں تاکہ لاکھوں لوگوں کو بے وطن کرنے کا ہدف پورا کیا جا سکے۔

شکاگو کے مضافات میں فیڈرل حکام نے چھاپے مارے ہیں
Getty Images
شکاگو کے مضافات میں فیڈرل حکام نے چھاپے مارے ہیں

اس وقت اتنا خوف ہے کہ ایک چرچ نے ہسپانوی زبان کا استعمال بند کر دیا کہ کہیں لاطینی تارکین وطن کو ایجنٹوں کے ذریعے نشانہ نہ بنایا جائے۔

ریورنڈ تانیا لوزانو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس پہلے ہی ایسے بچے ہیں جو سکول جانے اور گھر واپس آنے پر اپنے والدین سے نہ مل پانے کے خوف میں ہیں۔۔۔ ہم اپنی جماعت کے کسی بھی رکن کو ملک بدر کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہونے دینا نہیں چاہتے۔‘

کاستانیدا کا کہنا ہے کہ نام نہاد امیگریشن زار ہومین اب شکاگو جیسے شہروں کا سفر کر رہے ہیں تاکہ ’یہ مشاہدہ کر سکیں کہ آئی سی ای کے مقامی دفاتر کیسے کام کرتے ہیں اور وہ چھاپے مارنے کے لیے مقامی حکام پر دباؤ ڈال سکیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’شکاگو کے ایک بہت ہی میکسیکن اور لاطینی محلے لٹل ولیج میں لوگ خوفزدہ ہیں جہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سردی کے موسم سے بعد وہاں سڑکوں پر معاشی سرگرمیاں اور لوگوں کی موجودگی کم ہے۔ بہر حال اگر آئی سی ای والے آتے ہیں تو چھاپوں کو روکنے کے لیے میئر بہت کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔‘

دوسرے شہر جہاں ہفتے کے آخر میں وفاقی ایجنٹوں کے چھاپے یا آپریشن ہوئے ہیں ان میں ڈینور، ہیوسٹن، سان انتونیو، میامی اور اٹلانٹا شامل ہیں۔

تاہم کاستانیدا بتاتے ہیں کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پر کچھ بھی نہیں ہوا ہے یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دور میں بھی۔

نقل مکانی کے ماہر کہتے ہیں کہ ’جو بائیڈن اور براک اوباما سمیت ہر دور میں ملک بدریاں ہوئی ہیں، جو بڑے پیمانے پر تھیں۔ لیکن ان روز مرہ جلاوطنیوں کی میڈیا کوریج کم تھی۔ اور فی الحال تعداد ویسی ہی ہے لیکن کیا ہو رہا ہے اور یہ کیسے ہو رہا ہے اس طرح کی باتوں پر بہت زیادہ عوامی توجہ ہے۔‘

’لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ (ٹرمپ) زیادہ جارحیت کے ساتھ، تیز رفتاری سے اور بڑے پیمانے پر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.