ماضی کے باغی اور جنگجو: وہ شخصیات جنھوں نے جنگ کا میدان چھوڑ کر سیاست کا میدان سنبھال لیا

شام کے عبوری صدر احمد الشرع اِن لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں جنھیں ایک وقت تک دہشتگرد قرار دیا جاتا رہا اور ان کے سر پر انعام بھی مقرر ہوا۔ مگر بعد میں وہ ملک کے سربراہ بن گئے جن سے مغربی ممالک نے بھی سفارتی تعلقات قائم کیے۔
احمد ال شرح
Getty Images
ایک وقت تک ’دہشتگرد‘ سمجھے جانے والے احمد الشرع اب شام کے قائم مقام رہنما ہیں

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے والے باغی رہنما احمد الشرع کو ’عبوری مدت‘ کے لیے شام کا صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔

صنعا نیوز ایجنسی کے مطابق باغی فوجی کمانڈر حسن عبدالغنی نے شام کے 2012 کے آئین کی منسوخی اور سابق حکومت کی پارلیمنٹ، فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کو تحلیل کرنے کا بھی اعلان کیا۔

انھوں نے کہا کہ صدر کی حیثیت سے احمد الشرع ایک عبوری قانون ساز کونسل تشکیل دیں گے جو نئے آئین کی منظوری تک حکومت کرنے میں مدد کرے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ 13 سالہ خانہ جنگی میں بشار الاسد کی مخالفت کرنے والے تمام باغی گروہوں کو تحلیل کر کے ریاستی اداروں میں ضم کر دیا جائے گا۔

یہ اعلان بدھ کے روز دمشق میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا جس میں الشرع کے اسلامی گروپ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی سربراہی میں باغی اتحاد کے ساتھ لڑنے والے دھڑوں کے کمانڈروں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا عنوان ’شام کے انقلاب کی فتح کا اعلان کرنے والی کانفرنس‘ تھا۔

امریکہ، برطانیہ اور ترکی سمیت کئی ممالک نے شام کے عبوری صدر احمد الشرع کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

ان کے مسلح گروہ ہیئت الحریر الشام کو کئی ملکوں نے ماضی میں القاعدہ کے ساتھ روابط کی وجہ سے دہشتگرد گروہ قرار دیا تھا۔

امریکہ نے حال ہی میں ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم ختم کر دی ہے۔ بظاہر الشرع (جن کا پرانا نام ابو محمد الجولانی تھا) ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں پہلے دہشتگرد قرار دیا گیا اور بعد میں وہ سیاسی قائد کے طور پر تسلیم کیے جانے لگے۔

ایسا ماضی میں بھی متعدد بار ہوا ہے جس کی دنیا بھر سے چار مشہور مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

مناخم بیگن: فلسطین میں یہودی ملیشیا ارگن کے رہنما سے نوبیل انعام یافتہ تک

مناخم بیگن (دائیں) اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر (بائیں) نے مصر کے ساتھ امن معاہدہ قائم کیا
Getty Images
مناخم بیگن (دائیں) اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر (بائیں) نے مصر کے ساتھ امن معاہدہ قائم کیا

مناخم بیگن ایک سابق اسرائیلی وزیر اعظم تھے جنھوں نے 1978 میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یوں دو پڑوسی ممالک کے درمیان 30 سالہ دشمنی اختتام پذیر ہوئی تھی۔

’کیمپ ڈیوڈ معاہدوں‘ کے بعد دونوں رہنماؤں کو نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا۔

تاہم 1940 کی دہائی کے دوران بیگن یہودی مسلح گروہ ارگن کے سربراہ تھے۔ اس گروہ نے قیامِ اسرائیل کے قبل فلسطین میں برطانوی حکام اور عربوں پر حملے کیے تھے۔

وہ 1913 کے دوران سابق روسی سلطنت میں پیدا ہوئے اور پولینڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہودی یوتھ موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جو وہزئيف جابوتينسکی کی سخت گیر صہیونی تحریک کا حصہ تھی۔

Menachem Begin addresses Irgun fighters in Palestine in 1947
Getty Images
فلسطین میں برطانوی راج کے دوران بیگن یہودی مسلح گروہ ارگن کے رہنما رہے

دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں سوویت فورسز نے پکڑا لیا اور جرمن فوج سے لڑنے کے لیے پولینڈ کی فوج میں بھرتی کر دیا۔ فوج چھوڑنے کے بعد وہ یروشلم منتقل ہوگئے اور مسلح گروہ ارگن (نیشنل ملٹری آرگنائزیشن) کے رہنما بنے۔ اس گروہ کا مقصد فلسطین میں برطانوی راج کو ختم کرنا تھا۔

سنہ 1946 کے دوران ارگن نے یروشلم میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر بمباری کی جس میں 91 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ سنہ 1948 کے دوران مسلح تنظیم نے یروشلم کے قریب دیر یاسین میں درجنوں فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ یہ بات فلسطین میں پھیل گئی جس سے عربوں نے نقل مکانی شروع کر دی جس کے بعد اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی۔

مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد وہ دائیں بازو کی جماعت حیروت کے رہنما بنے۔ 1977 میں وہ لیکوڈ اتحاد کے تحت اسرائیل کے وزیر اعظم بن گئے۔

فلسطین میں برطانوی حکام نے بیگن کو پکڑنے پر انعام مقرر کر رکھا تھا
Getty Images
فلسطین میں برطانوی حکام نے بیگن کو پکڑنے پر انعام مقرر کر رکھا تھا

اسی سال بیگن نے مصری صدر انور سادات کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر دیے۔ نتیجتاً 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے طے پائے جس کے تحت مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔

سنہ 1978 میں بیگن اور سادات کو مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں کے لیے نوبیل امن انعام سے نوازا گیا۔

Menachem Begin (L) receives the Nobel Peace Prize, 1978
Getty Images
جب بیگن نے نوبیل امن انعام کی تقریب میں شرکت کے لیے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کا دورہ کیا تو پُرتشدد مظاہرے ہونے لگے اور تقریب کو ایک دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا

تاہم جب بیگن نے تقریب میں شرکت کے لیے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کا دورہ کیا تو پُرتشدد مظاہرے ہونے لگے۔ حفاظتی خدشات کے پیش نظر اس تقریب کو آکرشوس قلعے میں منتقل کر دیا گیا۔

بیگن کو نوبیل امن انعام سے نوازے جانے سے تین دہائیاں قبل فلسطین میں برطانوی حکام نے انھیں مطلوب دہشتگرد قرار دے رکھا تھا اور انھیں پکڑنے پر 50 ہزار ڈالر کی پیشکش کی جا رہی تھی۔

یاسر عرفات: وہ جنگجو جس نے اسرائیل کے ساتھ امن کی بات کی

یاسر عرفات
Getty Images
یاسر عرفات نے دہشتگردی کو مسترد کیا اور خود کو 'آزادی کے لیے لڑنے والا' قرار دیا

سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 1993 میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے بیچ اوسلو معاہدہ طے کیا۔ اس کے تحت فلسطینی اتھارٹی (پی اے) قائم کی گئی اور فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے ایک حصے پر کنٹرول ملا۔

عرفات 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے پہلے صدر بنے۔ یہ عہدہ 2004 میں ان کی موت تک ان کے پاس رہا۔ انھیں بھی نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا۔

عرفات 1929 میں مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئے اور ان کے والد ایک فلسطینی تاجر تھے۔

مصر میں بطور طالبعلم انھوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی تاکہ 1948 میں اسرائیل کے قیام یا ’نکبہ‘ کے خلاف لڑا جائے۔

اسرائیل کے قیام کے بعد خطے میں قریب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا تھا۔ 1950 کی دہائی کے اواخر میں یاسر عرفات نے اپنے ساتھی پناہ گزین کے ہمراہ ’فتح‘ قائم کی جو فلسطین کی آزادی کی تحریک تھی۔ وہ اس تحریک کے عسکری ونگ کے سربراہ بنے۔

دسمبر 1964 کے دوران انھوں نے پڑوسی ملکوں سے اسرائیل کے خلاف گوریلا حملے کیے۔

Passengers outside a plane hijacked by the PFLP in the Jordan desert, 1970
Getty Images
پی ایل او نے 70 کی دہائی کے دوران کئی طیارے ہائی جیک کیے

سنہ 1969 کے دوران مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے یاسر عرفات کو فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا سربراہ منتخب کیا۔

70 اور 80 کی دہائیوں کے دوران اس گروہ کے ارکان نے قتل، بمباری اور ہائی جیکنگ میں حصہ لیا۔ یاسر عرفات نے کبھی ان واقعات پر تبصرہ نہیں کیا تاہم وہ دہشتگردی کو مسترد کرتے تھے۔ وہ خود کو ’آزادی کے لیے لڑنے والا جنگجو‘ تصور کرتے تھے۔

سنہ 1974 میں انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ وہ ’دوستی کے ہاتھ اور جنگجو کی بندوق کے ساتھ آئے ہیں۔ دوستی کو میرے ہاتھ سے گِرنے مت دینا۔‘

سنہ 1987 کے دوران امریکہ نے پی ایل کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا اور عرفات کی امریکہ آمد پر پابندی لگا دی۔

Yasser Arafat shakes hands with Israeli PM Yitzhak Rabin after signing the Oslo Accords in 1993. US President Bill Clinton, who brokered the deal, looks on.
Getty Images
یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان 1993 میں اوسلو معاہدہ طے پایا

1988 میں عرفات نے پی ایل او کی طرف سے دہشتگردی کو خیرباد کہا۔ 1993 میں انھوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور اپنے وجود کے حق کے لیے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے بدلے فلسطینیوں کو پی ایل کے ذریعے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے ایک حصے پر کنٹرول ملا۔

اس کے لیے عرفات کو 1994 میں نوبیل امن انعام سے نوازا گیا۔

جب عرفات کی وفات ہوئی تو امریکہ سمیت 50 ملکوں کے نمائندوں نے قاہرہ میں ان کی آخری رسومات کے لیے شرکت کی۔

مارٹن مک گوئنس: آئی آر اے کمانڈر جنھوں نے ملکہ الزبتھ سے مصافحہ کیا

Former IRA commander Martin McGuinness shakes hands with Britain's Queen Elizabeth.
Getty Images
227 جون 2012 کو ملکہ الزبیتھ دوئم نے شمالی آئرلینڈ کے دورے کے دوران پہلے علاقائی ڈپٹی وزیر مارٹن مک گوئنس سے مصافحہ کیا

مارٹن مک گوئنس عبوری آئی آر اے (آئرش رپبلکن آرمی) کے سینیئر کمانڈر ہوا کرتے تھے جنھوں نے 60 سے 90 کی دہائی تک شمالی آئرلینڈ میں دہشتگرد حملے کیے۔ اس کا مقصد شمالی آئرلینڈ میں برطانوی راج ختم کرنا اور متحدہ آئرلینڈ کا قیام تھا۔

تاہم 1998 کے دوران انھوں نے گڈ فرائیڈے معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا جس سے تین دہائیوں تک جاری پُرتشدد واقعات ختم ہوئے۔ مک گوئنس شمالی آئرلینڈ کے نائب فرسٹ منسٹر بنے۔

Martin McGuiness (L) at an IRA press conference with two other leaders in 1972.
Getty Images
مارٹن مک گوئنس کو 1973 میں قید کیا گیا۔ انھیں ایک کار کے قریب ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ پکڑا گیا تھا

مگ گوئنس شمالی آئرلینڈ میں ڈیری کے پسماندہ علاقے بوگسائیڈ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے 60 کی دہائی کے اواخر میں آئی آر اے میں شمولیت اختیار کر لی۔

سنہ 1972 میں جب برطانوی پیراسٹروپرز نے ڈیری میں ’بلڈی سنڈے‘ کے دوران 13 افراد کو قتل کیا تو وہ شہر میں آئی آر اے کے دوسرے سب سے سینیئر کمانڈر تھے۔ بعدازاںایک تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مرنے والا کوئی بھی شخص برطانوی فوجیوں کے لیے خطرے کا باعث نہیں بن رہا تھا۔

آئی آر اے نے شمالی آئرلینڈ میں 1987 کی ایک پریڈ کے دوران بمباری کی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے
Getty Images
آئی آر اے نے شمالی آئرلینڈ میں 1987 کی ایک پریڈ کے دوران بمباری کی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے

مک گوئنس کو 1974 میں قید ہوئی۔ انھیں ایک کار کے قریب دھماکہ خیز مواد اور گولیوں کے پانچ ہزار راؤنڈز کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔

ان پر الزام تھا کہ وہ کئی مخبروں اور یرغمالیوں کی ہلاکتوں میں ملوث رہے۔ جبکہ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھیں شمالی آئرلینڈ میں 1987 کی ایک پریڈ کے دوران بم دھماکے کی اطلاع تھی جس میں 11 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ وہ ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔

تاہم برطانوی جاسوسوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے انھوں نے آئی آر اے کی طرف سے جنگ بندی کی راہ ہموار کی اور گڈ فرائیڈے نامی امن معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

شمالی آئر لینڈ کے نائب فرسٹ منسٹر بننے کے بعد انھوں نے ریاست کے مخالفین کی مذمت کی اور پُرتشدد حملوں میں حصہ لینے والوں کو 'جزیرہ آئرلینڈ کے غدار' قرار دیا۔

انھوں نے ملکہ الزبتھ دوم سے ایک سے زیادہ مرتبہ ملاقات کی اور مصافحہ کیا۔

یہ اس بات کی علامت تھی کہ مشکل وقت گزر چکا ہے۔ سنہ 1979 کے دوران آئی آر اے نے ملکہ کے کزن لارڈ لوئیس ماؤنٹ بیٹن کو قتل کیا۔ وہ آئرش ساحل سے کشتی پر سفر کر رہے تھے۔

گستاوو پیترو: گوریلا گروہ کا رکن جو کولمبار کا صدر بنا

صدر گستاوو پیترو
Getty Images
خیال ہے کہ ایم 19 نامی گوریلا گروہ کے 10 سال تک رکن رہنے والے پیترو نے چوری شدہ ہتھیاروں کا انبار جمع کر رکھا تھا

سنہ 2022 کے دوران 62 سال کی عمر میں گستاوو پیترو کولمبیا کے پہلے صدر بنے۔ وہ اس ملک کے پہلے بائیں بازو کے حامل ریاستی سربراہ ہیں۔

تاہم وہ ایک وقت تک 19 اپریل موومنٹ (ایم 19) کے رکن رہے۔ یہ ملک کے سب سے پُرتشدد مسلح گروہوں میں سے ایک ہے۔ پیترو ہتھیار رکھنے پر جیل بھی بھگت چکے ہیں۔

وہ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوتا کے قریب نمک کی کان والے علاقے سیپاکیرا میں پلے بڑھے۔ 17 سال کی عمر سے انھوں نے بوگوتا کی ایک یونیورسٹی سے اکنامکس کی تعلیم شروع کر دی اور ایم 19 جوائن کر لی۔

یہ کولمبیا کے 1970 کے صدارتی الیکشن کے بعد قائم کردہ ایک گوریلا گروہ تھا۔ بائیں بازو کے حامل کئی لوگوں کو لگتا تھا کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

1970 میں ایم 19 کے ارکان بوگوتا میں سرنگ بنا کر ایک فوجی اڈے میں گھسے اور ہتھیاروں کی کھیپ چُرا لی۔

سنہ 1980 میں اس گروہ نے ڈومینیکن رپبلک کے سفارتخانے میں داخل ہو کر اِن 50 لوگوں کو یرغمال بنا لیا جو کاکٹیل پارٹی میں شریک تھے۔

پیترو کا دعویٰ ہے کہ وہ اِن پُرتشدد کارروائیوں میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

سنہ 1985 کے دوران انھیں ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد رکھنے پر گرفتار کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں پھنسایا گیا تھا اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں گرفتاری کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے فوجی تحویل اور جیل میں 18 ماہ گزارے۔

آئی آر اے نے شمالی آئرلینڈ میں 1987 کی ایک پریڈ کے دوران بمباری کی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے
Getty Images
ایم 19 نے 1985 میں بوگوتا کے پیلس آف جسٹس پر قبضہ کیا اور اس کے خلاف آپریشن کے بعد تک قریب 100 افراد کی ہلاکت ہوئی

جب پیترو جیل میں تھے تو اس وقت ایم 19 نے اپنی سب سے بڑی کارروائی کی۔ اس نے بوگوتا کے پیلس آف جسٹس میں گھس کر سینکڑوں افراد کو یرغمال بنایا تھا۔

کولمبیا کی مسلح افواج نے 27 گھنٹے کی لڑائی کے بعد عمارت کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا۔ اس دوران قریب 100 افراد کی ہلاکت ہوئی۔

1990 میں ایم 19 غیر متحرک ہوگئی اور قانونی طور پر سیاسی جماعت بن گئی۔ اس کا نیا نام ڈیموکریٹک الائنس ایم 19 رکھا گیا۔

پیترو کانگریس کے رکن رہے، سینیٹر بنے اور بوگوتا کے میئر بھی منتخب ہوئے۔ انھوں نے 2022 میں صدارتی الیکشن جیتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.