’کسی کے زندہ بچنے کی امید نہیں‘: واشنگٹن میں طیارے اور ہیلی کاپٹر میں تصادم کے بعد دریا سے 28 لاشیں نکال لی گئیں

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں حکام کا کہنا ہے کہ مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے فضا میں تصادم کے بعد بدھ کی رات بھر جاری رہنے والی امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
واشنگٹن
Getty Images
حکام کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں 300 کارکن حصہ لے رہے ہیں جنھیں سرد موسم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں حکام کا کہنا ہے کہ مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے فضا میں تصادم کے بعد بدھ کی رات بھر جاری رہنے والی امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

امدادی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اب کسی بھی شخص کے زندہ ملنے کی امید نہیں اور تلاش اور بچاؤ کی کارروائی اب ’ریکوری آپریشن‘ کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

یہ حادثہ بدھ کی شب اس وقت پیش آیا جب کنساس سے آنے والا امریکن ایئرلائنز کا طیارہ واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب امریکی فوج کے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا۔

امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ تصادم کے بعد جہاز کے کئی ٹکڑے ہو گئے جو ہیلی کاپٹر سمیت دریائے پوٹومک میں جا گرے۔ اس تصادم میں ہیلی کاپٹر کا بیشتر حصہ سلامت رہا۔

حادثے کا شکار ہونے والے مسافر بردار طیارے میں عملے کے ارکان سمیت 64 افراد سوار تھے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹر ورجینیا کے فورٹ بیلوائر اڈے سے اڑا تھا اور اس پر تین فوجی سوار تھے۔

اس حادثے کے فوراً بعدامدادی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو رات بھر جاری رہا۔ حکام کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں 300 کارکنوں نے حصہ لیا جنھیں سرد موسم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا۔

ریسکیو حکام کے مطابق اب تک 28 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جن میں سے 27 طیارے جبکہ ایک ہیلی کاپٹر کا مسافر تھا۔

واشنگٹن ڈی سی میں فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈپارٹمنٹ کے سربراہ جان ڈونیلی کا کہنا ہے کہ امدادی کارکنوں کی پہلی ترجیح طیارہ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ کوئی زندہ بچا ہے کہ نہیں۔ 'ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی زندہ بچ سکا ہے یا نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جمعرات کی صبح ہی علم ہو گا کہ امدادی آپریشن کہاں پہنچا ہے اور تب ہم صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔'

جان ڈونیلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں امدادی کارکنوں کی پہلی ترجیح زندہ بچ جانے والوں کی تلاش ہے وہیں وہ حادثے کے ثبوت محفوظ رکھنے میں نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی مدد بھی کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ امدادی کارروائیوں کا عمل ایک انتہائی پیچیدہ آپریشن ہے اور جائے حادثہ پر حالات انتہائی خراب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہاں ہوا چل رہی ہے۔ سخت سردی کی وجہ سے دریا کا پانی نہ صرف ٹھنڈا ہے بلکہ اس میں برف کے ٹکڑے بھی ہیں اور وہاں بہت زیادہ روشنی نہیں ہے۔ یہ غوطہ خوروں کے لیے بہت سخت حالات ہیں'۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جہاز کے کچھ حصے پانچ سے آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ غوطہ خور جہاز کے دو بلیک باکسز میں سے ایک ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ہیلی کاپٹر نیچے یا اوپر کیوں نہیں ہوا، مڑا کیوں نہیں؟

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بظاہر یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس سے بچا جا سکتا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری بیان میں انھوں نے لکھا کہ ’یہ ایک بری صورت حال ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہیلی کاپٹر کافی دیر تک سیدھا مسافر طیارے کی جانب جاتا رہا۔ موسم بالکل صاف تھا، طیارے کی لائٹیں جل رہی تھیں۔ ہیلی کاپٹر نیچے یا اوپر کیوں نہیں ہوا، مڑا کیوں نہیں؟‘

انھوں نے سوال کیا کہ ’کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو بتایا کیوں نہیں کہ کیا کرنا ہے بجائے اس کے کہ سوال کرے کہ کیا انھوں نے جہاز کو دیکھا؟‘

خیال رہے کہ امریکی خبر رساں ادارے سی این این کے مطابق فضائی حادثے سے چند لمحے قبل ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر کو ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے پوچھتے سنا جا سکتا ہے کہ کیا اسے امریکن ایئرلائنز کا طیارہ دکھائی دے رہا ہے۔

ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے دوسری وارننگ کے چند سیکنڈ بعد ہی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر امریکن ایئر لائنز کے طیارے سے ٹکرا گیا۔ آڈیو میں ہیلی کاپٹر کی جانب سے کوئی جواب سنائی نہیں دے رہا ہے۔

ایئر ٹریفک کنٹرول کی یہ آڈیو لائیو اے ٹی سی نامی ایک ویب سائٹ نے جاری کی ہے۔

لائیو اے ٹی سی 1200 سے زیادہ ہوائی اڈوں کی مواصلات پر نظر رکھتی ہے۔ بی بی سی کی جانب سے اس آڈیو کی آزادانہ ظور پر تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

سی بی ایس ٹی وی کے مطابق امریکی حکام نے اس حادثے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور ان کی توجہ اس سوال پر مرکوز ہے کہ طیارے سے ٹکرانے والا ہیلی کاپٹر حادثے کے وقت اس مقام اور اونچائی پر کیوں موجود تھا۔

’بیوی نے کہا 20 منٹ میں اتر رہے ہیں‘

وشنگٹن
Getty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بظاہر یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس سے بچا جا سکتا تھا۔

حامد رضا ریگن واشنگٹن انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر انتظار کر رہے تھے کہ کب ریاست کنساس میں وچیٹا سے اڑنے والی پرواز اترے گی۔

اس جہاز میں ان کی اہلیہ بھی سوار تھیں۔ حادثے کی خبر آنے کے بعد بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر سی بی ایس نیوز کے ایک مقامی پارٹنر سے بات کرتے ہوئے حامد رضا نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے فون پر ٹیکسٹ پیغام بھیج کر بتایا تھا کہ ’میں 20 منٹ میں پہنچنے والی ہوں۔‘

اور طیارہ ایئر پورٹ کے قریب پہنچ بھی چکا تھا جب ایری شلمین کی اس پر نظر پڑی۔

وہ ایئرپورٹ سے ملحقہ جارج واشنگٹن پارک وے پر گاڑی چلا رہے تھے جب پہلی نظر میں ان کو سب کچھ ٹھیک لگا۔ انھوں نے این بی سی واشنگٹن سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’طیارہ بلکل ٹھیک اڑ رہا تھا جب اچانک دائیں جانب مڑا تو اس کے نیچے سے جیسے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔‘

اس وقت ان کو احساس ہو گیا تھا کہ ’کچھ بہت غلط ہونے والا ہے۔‘ ایری کے مطابق ایئر پورٹ کے قریب رہنے کی وجہ سے وہ اکثر طیاروں کو لینڈ ہوتے دیکھتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر ان کو معلوم ہے کہ رات کے وقت طیارے کا نچلا حصہ روشن نہیں ہونا چاہیے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ چنگاریاں ’کسی بڑی موم بتی جیسی‘ تھیں جو طیارے کے ’اگلے حصے سے پچھلے حصے تک جا رہی تھیں۔‘

ایری کا کہنا تھا کہ انھوں نے مڑ کر سڑک کی جانب دیکھا کہ شاید انھیں دھماکہ یا کریش کے کوئی ثبوت دکھائی دیں لیکں انھیں کسی دھماکے کی آواز نہیں سنائی دی۔ ’مجھے کچھ نہیں دکھا، سب کچھ ایک دم نارمل تھا۔‘

واشنگٹن ایئر پورٹ
Getty Images

آسمان پر ’سفید شعلہ‘

ایری نے این بی سی کو بتایا کہ انھیں شک ہوا کہ کہیں انھوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا۔ ’اگر یہ اتنا ہی خوفناک حادثہ تھا تو مجھے بعد میں کچھ دکھائی کیوں نہیں دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ آگے گئے تو انھیں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے والے جاتے دکھائی دیے۔

جمی مازیو ایئر پورٹ کے قریب ہی موجود ایک پارک میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے تھے جب انھوں نے فضا میں ایک ’سفید شعلہ‘ دیکھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کو اس وقت تک کچھ سمجھ نہیں آیا جب تک ایمرجنسی حکام نے موقع پر پہنچ کر کام شروع نہیں کیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.