بطور وائسرائے مقرر ہونے کے بعد ابرہہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں اِس امید سے ایک شاندار گرجا گھر ’القُلَیس‘ تعمیر کروایا تاکہ عرب حاجیوں کی توجہ مکہ میں موجود کعبہ سے ہٹائی جا سکے۔
سنہ 632 میں دورانِ حج پیغمبرِاسلام اپنے ہمراہ موجود اصحاب کو حج کے طریقے سکھا رہے تھے کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ ’شاید میں اِس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔‘
مُزدلفہ کے مقام سے شیطانوں یا جَمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں چُن کر نمازِ فجرکے بعد مِنیٰ کو لوٹتے ہوئے جب وہ ’وادی مُحَسّر‘ سے گزرے تواپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دی۔
یہ پیغمبر اسلام کا آخری حج تھا۔ اُن کی تعلیماتپر چلتے ہوئے حجاج آج بھی دو کلومیٹر طویل اور 10 سے 20 میٹرچوڑی، اس وادی (وادیِ مُحَسّر) میں رُکتے نہیں بلکہ تیزی سے گزر جاتے ہیں کہ یہ ’عذاب کامقام‘ ہے۔
بھلا کیسے، یہ جاننے کے لیے تاریخ میں کچھ اور پیچھے چلنا پڑے گا۔
ایڈورڈ گرانویل براؤن اپنی کتاب ’اے لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی کے اوائل میں ’وسطی عرب کے لوگ مختلف قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ وہلڑتے، گاتے، لُوٹ مار کرتے اور ہمسایہ ریاستوں کی کم ہی پروا کرتے تھے۔ اُن کے مغرب میں غَسان کی بادشاہت بازنطینی سلطنت اور مشرق میں حیرہ کی بادشاہت فارس کی ماتحتی کو کسی حد تک تسلیم کرتی تھیں۔ جنوب میں یمن کی قدیم اور خوشحال حِمیری بادشاہت تھی۔‘
’اِسی شاہی سلسلے کے آخری بادشاہ ذونواس نے جب یہودیت اختیار کی تو وہ نجران کے مسیحیوں پر ظلم ڈھانے لگے۔ اور جب یہ خبر (لگ بھگ 1100 کلومیٹر دور) حبشہ پہنچی تو وہاںکے حکمران (جن کا لقب نجاشی یا نگوس تھا) نے اپنے ہم مذہبوں کا بدلہ لینے کے لیے فوج بھیجی۔‘
بعض مؤرخین نےلکھا ہے کہ اس نجاشی حکمران کا نام کالب تھا، جنھیں ایلیسبان بھی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ ایتھوپیا اور اریٹیریا کے علاقے میں بادشاہ تھے۔
براؤنکے مطابق ’(نجاشی بادشاہ کی جانب سے) اریاط اور ابرہہ کی قیادت میں بھیجی گئی افواج نے ذونواس کو بُری طرح شکست دی۔ اپنی شکست کو یقینی جان کر ذونواس نےاپنے گھوڑے کو سمندر میں ڈال دیا اور ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔‘
نورمن کالڈر، جاوید احمد مجددی، اینڈریو رپن کی جانب سے مرتب کی گئی کتاب ’کلاسیکی اسلام: مذہبی ادب کا ماخذ‘ میں تحریر ہے کہ یمن میں ذونواس کے خلاف ملنے والی فتح کے بعد اریاط اورا برہہ دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔
’ابرہہ نے اریاط کو پیغام بھیجا کہ مجھ سے اکیلے لڑو، جو مارا جائے گا اُس کی فوج دوسرے کے ماتحت ہو جائے گی۔ اریاطلمبے تڑنگے تھے اور اُن کے ہاتھ میں برچھی تھی جبکہ ابرہہ کا قد چھوٹا اور جسم فربہ تھا۔ جب دونوںقریب آئے تو اریاط نے برچھی چلائی جس سے ابرہہ کا چہرہ ماتھے سے لے کر ہونٹوں تک کٹ گیا۔ اسی وجہ سے انھیں ’الاشرم‘ (یعنی خرگوش کی ناک والا یاچری ہوئی ناک والا) کا لقب ملا۔ ابرہہ کےغلام نے یہ دیکھ کر اریاط پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔‘
اسی کتاب سے علم ہوتا ہے کہ نجاشی بادشاہ اریاط کے قتل کی خبر ملنے پر پہلے غضبناک ہوئے لیکن پھر اریاط کی جگہ ابرہہ کو یمن میں اپنا وائسرائے مقرر کر دیا۔
بازنطینی مؤرخ پروکوپیئس کے مطابق ابرہہ ایک رومی تاجر کا سابق غلام تھا جبکہ مسلم مؤرخ الطَبری کہتے ہیں کہ وہ اکسومی شاہی خاندان سے تھے۔
کعبہ پر حملے کی تیاری
بطور وائسرائے مقرر ہونے کے بعد ابرہہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں اِس امید سے ایک شاندار گرجا گھر ’القُلَیس‘ تعمیر کروایا تاکہ عرب حاجیوں کی توجہ مکہ میں موجود کعبہ سے ہٹائی جا سکے۔
مصنف ایف ای پیٹرز اپنی کتاب ’محمد اینڈ دی اوریجنز آف اسلام‘ میں سیرت نگار ابنِ اسحٰق کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ کعبہ کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بنائے گئے گرجا گھر کی تعمیر کے بعد ابرہہ نے نجاشی حکمران کو خط لکھا کہ ’میں نے آپ کے لیے ایک ایسا چرچ تعمیر کیا ہے کہ کسی بادشاہ کے لیے پہلے نہ کیا گیا ہو گا۔ میں تب تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک عرب اِس کی یاترا کو نہ آنے لگیں۔‘
لیکن دوسری جانب عربوں نے ابرہہ کی اِس کوشش پر اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
’ایک روز بنو کِنعانہ کے ایک کاہن ( نجومی) نے رات کے اندھیرے میں اس چرچ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ ابرہہ نےتحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مکہ سے آئے ایک شخص نے ایسا کیا ہے۔‘
مصنفین پیٹر جی رڈل اور پیٹرکوٹرل نے کتاب ’اسلام ان کانٹیکسٹ‘ میں لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد یمنیوں اور مکہ والوں کی دشمنی تلخ سے تلخ تر ہوتی چلی گئی اور اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب حجاز کے علاقے میں ابرہہ کے حلیف ایک شخص کا قتل ہو گیا۔
’شدید غصے میں ابرہہ نے کعبہ کو تباہ کرنے کی قسم کھائی اور اپنے جنگی ہاتھی اور حبشی فوج کے ایک عظیم لشکر کے ساتھ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ مکہ روانہ ہو گیا۔‘
رِک ڈنکن نے اپنی کتاب ’مین، نو دائی سیلف‘ میں ابرہہ کی اِس فوجکی تعداد 40 ہزارلکھی ہے جس میں بہت سے ہاتھی بھی تھے۔
ایک حِمیری شخص ذونفرنے ابرہہ کے اس اقدام روکنے کی کوشش کی لیکن انھیں شکست ہوئی اور وہ گرفتار کر لیے گئے۔
اسی طرح نُفیل ابن حبیبالخثعمی نے بھی راستے میں لڑائی کی کوشش کی لیکن ہارنے پر گرفتار ہوئے۔طائف کے رہنے والوں نے بھی ناصرف اپنا لات دیوتا کا مندر بچا لیا بلکہ ابرہہ کی فوج کی مکہ تک رہنمائی کے لیے ایک شخص کو بھی ساتھ کر دیا، جس کی ’مغمس‘ کے مقام پر موت ہو گئی۔
مغمس کے مقام پر خیمہ زن ابرہہ نے اپنے سپاہیوں کو مضافات میں بھیجا جنھوں نے وہاں لوٹ مار کی اور واپس لوٹتے ہوئے وہاں چرتے 200 اونٹ بھی اپنے ساتھ ہانک لائے۔
اب ابرہہ نے اپنے نمائندے حُناطہ کو مکہ والوں کے پاسبھیجا تاکہ انھیں بتا سکے کہ وہ ان سے لڑنے نہیں بلکہ کعبہ کو ڈھانے آئے ہیں۔ متعدد تاریخی کتب میں درج ہے کہ اس موقع پر ابرہہ کے نمائندے حُناطہ کی قریش کے سردارعبد المطلب (پیغمبر اسلام کے دادا) سے ملاقات ہوئی اور وہ انھیں (عبدالمطلب) ابرہہ سے ملوانے لے گئے۔
ابرہہ اور عبدالمطلب کی ملاقات
ایڈورڈ گرانویل براؤن اپنی کتاب ’اے لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ قریش وہ معزز قبیلہ تھا جسے کعبہ کی نگہبانی کی خاص ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
’عبدالمطلب کے انداز و اطوار سے متاثر ابرہہ نے اپنے مترجم کے ذریعے پوچھا کہ وہ (عبدالمطلب) کیا چاہتے ہیں۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ’میں یہ چاہتا ہوں کہ بادشاہ میرے وہ 200 اونٹ واپس کرے جو اُس کے سپاہیوں نے چھین لیے ہیں۔‘
ابرہہ یہ سُن کر حیرت سے بولے ’تم مجھ سے اپنے 200 اونٹوں کی بات کر رہے ہو مگر اُس مقدس گھر کی کوئی فکر نہیں جو تمہارے اور تمہارے آباؤ اجداد کا مرکزِ عقیدت ہے، اور جسے میں تباہ کرنے آیا ہوں؟‘
اس پر عبدالمطلب نے نہایت پُر اعتماد لہجے میں وہ تاریخی جملہ کہا جو عربوں کی فطری انا اور توکل کا مظہر ہے: ’اونٹوں کا میں مالک ہوں، مگر اُس گھر کا ایک مالک ہے، جو اس کی خود حفاظت کرے گا۔‘
یہ جواب سُن کر ابرہہ نے طنز کیا کہ ’وہ (کعبہ کا مالک) اسے میرے ہاتھوں سے نہیں بچا سکتا۔‘ عبدالمطلب نے پُرسکون انداز میں جواب دیا ’یہ تو وقت ہی بتائے گا! بس تم میرے اونٹ واپس کر دو۔‘
عبدالمطلب کی دعا اور ابرہہ کا حملہ
براؤن لکھتے ہیں کہ ’جب عبدالمطلب کو اُن کے اونٹ واپس مل گئے تو وہ اپنے قبیلے کے ساتھ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے تاکہ دیکھ سکیں کہ خدا کی مشیت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن روانگی سے پہلے وہ کعبہ کے دروازے پر رُکے، اس پر نصب دھاتی کڑے کو تھاما اور نہایت خشوع و خضوع سے یہ دعا‘ کی:
اے رب، میں تجھ ہی پر بھروسا کرتا ہوں
اے رب، اپنے مقدس گھر کو اُن کے شر سے بچا
وہ تیرا دشمن ہے، تیرا گھر برباد کرنے آیا ہے
تو ہی اپنے شہر کو اس کے ظلم سے محفوظ رکھ
’محمود‘ نامی ہاتھی کی مزاحمت
ایڈورڈ گرانویل براؤن کے مطابق اگلے دن ابرہہ نے اپنے لشکر کو مکہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ اس لشکر کی قیادت ’محمود‘ نامی ایک عظیم ہاتھی کر رہا تھا، مگر جیسے ہی محمود نے مکہ کی سمت بڑھنا چاہا نفیل نے آ کر اس کے کان کو پکڑا اور کہا: ’اے محمود! سجدہ کر اور اُسی راستے واپس چلا جا، جس سے آیا ہے، کیونکہ تُو اللہ کے مقدس علاقے میں داخل ہو رہا ہے۔‘
’ہاتھی زمین پر بیٹھ گیا اور کسی بھی طرح آگے بڑھنے سے انکار کر دیا، فوجیوں نے اسے مارا، دھکیلا، نیزے مارے، مگر وہ ہر سمت چلنے کو تیار تھا، سوائے مکہ کے۔‘
ابابیل کا حملہ
براؤن لکھتے ہیں کہ تاریخی حوالوں کے مطابق ’تب اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے لشکر بھیجے، جنھیں ابابیل کہا جاتا ہے۔ ہر پرندہ اپنی چونچ میں ایک اور پنجوں میں دو کنکر لیے ہوئے تھا۔ جب انھوں نے یہ کنکر حبشی فوج پر برسائے، تو ہر شخص جس پر پتھر گرا، وہیں تڑپ کر مر گیا۔‘
’کہا جاتا ہے کہ ایک حبشی فوجی کسی طرح واپس حبشہ پہنچا اور لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ ’وہ کیسی چڑیاں تھیں؟'‘اُس نے اوپر اشارہ کیا اور اُسی لمحے اُوپر منڈلاتے پرندے نے ایک کنکر گرایا جو اس پر گرا اور وہ بھی وہیں ہلاک ہو گیا۔‘
تاہم ابابیل کسی پرندے کا نام نہیں۔
تفسیر مولانا محمد یوسفکے مطابق اس کے معنی ہیں ’غول دَر غول‘۔ کنکریوں کے حجم سے متعلق بھی مختلف روایات ہیں۔
سیرت ابنِ اسحٰق کے مطابقنوفل بن ابی معاویہ بیان کرتے ہیں کہ ’یہ کنکریاں مسور کے دانے سے بڑی اور چنے سے چھوٹی تھیں۔‘ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ یہ کنکریاں ریٹھ کے برابر تھیں جبکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ بکری کی مینگنیوں کے برابر تھیں۔
سورۃ الفیل میں ذکر
یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس کی طرف قرآن مجید کی ’سورۃ الفیل‘ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ترجمہ:’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟
کیا اس نے اُن کی تدبیر کو ناکام نہیں بنا دیا؟
اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ بھیج دیے
جو انھیں مٹی اور کنکروں سے مارتے تھے
پس وہ کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو گئے!‘ (سورۃ الفیل: 1-5)
وہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا وادی محسر ہے جس کا تذکرہ ابتدا میں ’عذاب کے مقام‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔
تاریخی حقیقت
حسن عباس اپنی کتاب ’دیپرافٹس ائر: دی لائف آف علی ابن ابی طالب‘ میں لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ابرہہ اپنے بچے کچھے لوگوں کے ساتھ یمن کی جانب واپس بھاگ نکلا۔
گیبریل سیڈ رینالڈز اپنی کتاب ’دی ایمرجنس آف اسلام‘ میں لکھتے ہیں کہ ابرہہ کا جسم بھی آہستہ آہستہجھڑنے لگا تھا۔ وہ صنعا پہنچا تو دل پھٹ گیا اور اس کی موت ہو گئی۔ گویا عام الفیل یعنی ہاتھی کی جنگ کا سال ابرہہ کے لیے موت کا سال تھا۔
کرسچین جولیان رابن نے لکھا ہے کہ ’ابرہہ نے حِمیر سلطنت یا موجودہ یمن اور عرب کے بڑے حصےپر 30 سالحکومت کی۔‘
سکاٹ فٹزجیرالڈجانسن نے اپنی کتاب ’دی آکسفرڈ ہینڈ بک آف لیٹ اینٹیقویٹی‘ میں لکھا ہے کہ اسلامی روایات کے مطابق ابرہہ کے بیٹے یکسوم اور مسروق مختصر عرصہ حمیری تخت پر بیٹھے لیکن تنازعات کی زد میں رہے۔
’عرب کی اکسومی بادشاہت کے خاتمہ بازنطینی شہنشاہ جسٹینین کی عرب پالیسی اور بحر احمر پر قبضہ کی پرانی حکمت عملی کی آخری شکست تھی۔‘
تاہم جدید محققین کا عمومی خیال ہے کہ یہ واقعہ کسی نہ کسی حد تک تاریخی حقیقت پر مبنی ہے۔ کچھ مؤرخین کا ماننا ہے کہ حبشی فوج میں چیچک یا کسی وبائی بیماری کا اچانک پھیلاؤ ہوا تھا جس نے اُن کی صفوں کو برباد کر دیا لیکن عربوں کے نزدیک یہ ’کعبہ کے تحفظ کے لیے اللہ کی کھلی نشانی‘ تھی۔
’عربز اینڈ ایمپائرز بیفور اسلام‘ میں کرسچین جولیان روبین لکھتے ہیں کہ ’ایک ناکام مہم کی تاریخی صداقت بالکل قابلِ فہم ہے کیونکہ قریش اپنی قلیل تعداد کے باوجود اگلے چند سالوں میں تیزی سے نمایاں ہو گئے۔ اس کا ثبوت قریش کا عظیم میلہ ہے جو عکاظ میں منعقد ہوتا تھا۔‘
حسن عباس کی تحقیق ہے کہ اس واقعے کے بعد عبدالمطلب کے مقام میں اضافہ ہوا اور اُسی کے بل بوتے پر انھوں نے مذہبی رسوم کی اصلاح کی۔
’بعض لوگ کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے، انھوں نے اس پر پابندی لگا دی۔ طواف کے چکر سات تک محدود کر دیے، یوں لگتا ہے انھیں روحانی رہنمائی مل رہی تھی۔‘
عام الفیل یا ہاتھی کا سال کہلاتے اِسی سال میں پیغمبر اسلام کی ولادت ہوئی۔