این بی سی کے مطابق حماد رضا اور اسریٰ حسین کی ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی اور دونوں کی ملاقات دوران تعلیم کالج میں ہوئی تھی۔ اسریٰ اور حماد بطور کنسلٹنٹ کام کرتے تھے۔
امریکی ایئر لائنز کی پرواز واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب پہنچ چکی تھی اور توقع تھی کہ کچھ ہی دیر میں لینڈ کر جائے گی۔
ایسے میں 26 سالہ اسریٰ حسین نے ایئرپورٹ پر انتظار کرتے اپنے شوہر حماد رضا کو فون سے پیغام بھی بھیجا کہ 20 منٹ میں پہنچ جائیں گے۔
لیکن پھر دیکھتے ہی دکھتے طیارے سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر ٹکرایا جس کے بعد پیش آنے والے حادثے میں حکام کے مطابقکسی بھی شخص کے زندہ ملنے کی امید نہیں۔
اس طیارے میں اسریٰ حسین اور عملے کے اراکین سمیت 64 افراد سوار تھے۔ حکام کے مطابق اب تک 28 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
’گھر پر کھانا تیار تھا‘
جمعرات کو حادثے کے بعد بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر سی بی ایس نیوز کے ایک مقامی پارٹنر سے بات کرتے ہوئے حماد رضا نے بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ نے فون پر ٹیکسٹ پیغام بھیج کر بتایا تھا کہ ’میں 20 منٹ میں پہنچنے والی ہوں۔‘
بی بی سی کے امریکی پارٹنر نشریاتی ادارے این بی سی کی خبر کے مطابق ایک کاروباری دورے کے لیے وچیٹا جانے والی اسریٰ واپسی کے اس سفر کے دوران فون پر مسلسل اپنے شوہر حماد رضا سے رابطے میں تھیں۔
حماد رضا کے مطابق وہ ایئر پورٹ پر انتظار کر رہے تھے جب اچانک ایمرجنسی سروس کے لوگ ان کے پاس سے تیزی سے گزرے اور ساتھ ہی ان کا فون پر اپنی اہلیہ سے رابطہ بھی ختم ہو گیا۔
این بی سی کے مطابق حماد رضا اور اسریٰ حسین کی ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی اور دونوں کی ملاقات دوران تعلیم کالج میں ہوئی تھی۔ عسری اور حماد رضا بطور کنسلٹنٹ کام کرتے تھے۔
حماد رضا نے این بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب تک یقین نہیں کر پائے کہ کیا ہوا ہے اور اپنی اہلیہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ کہ ’وہ جہاز میں کیا سوچ رہی ہو گی۔‘
حادثے کے فوری بعد حماد رضا نے اس امید کا اظہار بھی کیا تھا کہ اسریٰ حسین کو پوٹومیک دریا سے زندہ نکال لیا جائے گا۔ تاہم ریسکیو حکام کے مطابق رات کے اندھیرے، دریا میں رسائی کی مشکلات سمیت برف کی وجہ سے یہ کام مشکل تھا۔
حماد رضا نے این بی سی کو بتایا کہ ’گھر پر کھانا بھی تیار تھا۔ میں ہمیشہ اس کو واپسی پر ایئر پورٹ سے لیتا تھا اور اس کا سامان گاڑی میں رکھتا تھا۔‘
’کوئی سوال کا جواب نہیں دے رہا تھا‘
حماد رضا کے چچا عاصم رضا نے امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حماد اپنی اہلیہ سے ٹیکسٹ پر بات چیت کر رہا تھا اور جب اس نے بتایا کہ 20 منٹ بعد پرواز لینڈ کر جائے گی تو حامد نے جواب دیا لیکن اس کے بعد ’اسریٰ کی جانب سے کوئی اور پیغام نہیں آیا۔ اسریٰ کو بھیجے جانے والے پیغامات واپس آ رہے تھے۔‘
تب حماد نے ایئر پورٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو اسے پولیس اور فائر ڈیپارٹمنٹ کی گاڑیاں نظر آئیں لیکن ایئر پورٹ پر کوئی بھی سوالوں کا جواب نہیں دے رہا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق مسلم کمیونٹی کے شیخ احمد نے حادثے کے بعد ایک بیان میں اسریٰ کے اہلخانہ کی جانب سے ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’اسریٰ بہت خوش مزاج تھیں۔‘
’وہ ہر کسی کو خوش رکھتی تھی اور اپنی شادی کے موقع پر اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سب اس کی خوشی میں شامل ہوں۔‘
شیخ احمد کا کہنا تھا کہ ’وہ جسمانی طور پر زندہ نہیں لیکن وہ اپنی یادیں چھوڑ گئی ہے اور یہ یادیں کبھی نہیں مریں گی۔‘
اسریٰ حسین انڈیانا ریاست میں کارمل کی رہائشی تھیں۔ او نیل سکول آف پبلک اینڈ اینوائرنمنٹل افیئرز کے پروفیسر پال ہیلمکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’اسریٰ حسین 2017 میں ہماری طالبہ تھیں جنھوں نے مئی 2020 میں گریجویٹ کیا۔‘
طیارے میں ہلاک ہونے والے سکیٹر
اس بدقسمت طیارے میں نوجوان سکیٹر بھی سوار تھے۔ سپینسر لین، جینا ہان بوسٹن کے ایک کلب سے منسلک تھے اور دونوں اپنی اپنی والدہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ دو روسی کوچ بھی اس طیارے میں سوار تھے۔
یہ گروپ وچیٹا میں امریکہ کی فگر سکیٹنگ چیمپیئن شپ کے ایک کیمپ سے واپس لوٹ رہے تھے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ طیارے میں سوار کم از کم 14 افراد کا سکیٹنگ کے کھیل سے تعلق تھا۔
امریکی فگر سکیٹنگ تنظیم نے تصدیق کی ہے متعدد کھلاڑی، کوچ اور ان کے اہلخانہ اس طیارے پر سوار تھے۔
دوسری جانب حکام نے بتایا ہے کہ طیارے کے مسافروں کے اہلخانہ کو مطلع کرنے کا عمل جاری ہے اور اگر اہلخانہ حادثے کے مقام پر جانا چاہیں تو اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہو گا جب جائے حادثہ کو محفوظ بنا لیا جائے گا اور تمام شواہد اکھٹا کر لیے جائیں گے۔