امریکہ تیل کی روسی اور ایرانی برآمدات کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر رہا ہے۔ جبکہ روس اور ایران سے تیل برآمد کرنے والوں نے تیل کو ٹینکروں میں منتقل کر کے پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ ’شیڈو فلیٹ‘ ٹینکر ان ممالک میں رجسٹرڈ ہیں جو بحری جہازوں کی ملکیت کی تفصیلات کو غیر واضح رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
امریکہ روس اور ایران دونوں کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کر رہا ہے، جس کا ہدف ان کی سب سے زیادہ منافع بخش برآمد یعنی تیل ہے۔
اس نے اِن ٹینکروں کے ’خفیہ‘ بیڑوں کو نشانہ بنایا ہے جن کا سراغ لگانا مشکل ہے اور جسے دونوں ممالک غیر قانونی طور پر تیل کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے چین کو تیل کی سپلائی کم ہو رہی ہے جو روسی اور ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
اس سے حالیہ ہفتوں میں باقی دنیا میں قلت پیدا ہوئی ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ روسی اور ایرانی تیل پر نئی اور سخت پابندیاں عائد کر سکتی ہے اور ان سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
روس اور ایران کتنا تیل برآمد کرتے ہیں اور اسے کون خریدتا ہے؟
روس اپنے تیل کی برآمد کے اعداد و شمار کو خفیہ رکھتا ہے لیکن بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کا اندازہ ہے کہ وہ اس وقت بیرون ملک 73 لاکھ 30 ہزار بیرل یومیہ (بی پی ڈی) فروخت کر رہا ہے۔
سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے مطابق روس چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
یہ انڈیا کو تیل کی تمام درآمدات کا ایک تہائی سے زیادہ بھی فراہم کرتا ہے۔
برطانیہ اور امریکہ دونوں نے مارچ 2022 میں روسی تیل کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
روس اپنی تیل کی برآمدات سے سالانہ تقریبا 190 ارب ڈالر کماتا ہے جس سے اس کی جنگی کوششوں میں مدد ملتی ہے۔
بڑی اور ترقی یافتہ معیشتوں والے سات ممالک کے گروپ جی سیون نے روسی خام تیل کی برآمدات پر زیادہ سے زیادہ قیمت کی حد 60 ڈالر فی بیرل مقرر کی ہے۔ انفرادی جی 7 ممالک اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی شپنگ کمپنیوں اور شپ انشورنس کمپنیوں کے ذریعے اس حد کو نافذ کرتے ہیں۔
تاہم توانائی اور اجناس کی ڈیٹا فرم آرگس میڈیا کے اہلکار نیل فلیمنگ کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی حد غیر موثر رہی ہے۔
گذشتہ سال کے بیشتر عرصے میں روسی تیل جیسا کہ یورلس خام تیل بیرون ملک 60 ڈالر فی بیرل سے زیادہ اور بعض اوقات 75 ڈالر فی بیرل سے زیادہ میں فروخت ہوتا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایران تقریبا 17 لاکھ بی پی ڈی برآمد کرتا ہے، جس میں سے تقریبا 12 یا 13 لاکھ بی پی ڈی چین جاتا ہے (حالانکہ وہ اپنے برآمدی اعداد و شمار کو بھی خفیہ رکھتا ہے)۔
کچھ رپورٹس کے مطابق یہانڈیا کو تقریبا 400،000 بی پی ڈی برآمد کرتا ہے۔
سنہ 2012 سے امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ایرانی تیل کی برآمدات کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں پر بھی امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اس سب کےلیے امریکہ کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری یا حماس، حزب اللہ اور حوثی باغیوں جیسے عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرنے کے فنڈز سے محروم کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019 اور 2020 میں بطور امریکی صدر اپنی پہلی مدت کے دوران ان پابندیوں کو سخت کیا تھا۔
تاہم ایران اب بھی چین کو بہت زیادہ تیل برآمد کرنے کا انتظام کرتا ہے جزوی طور پر کیونکہ اس کا زیادہ تر حصہ چھوٹی ریفائنریوں خریدتی ہیں جسے 'ٹی پاٹس' یعنیچائے کے برتن کا نام دیا جاتا ہے۔
فلیمنگ کہنا ہے کہ ان کا امریکہ کے ساتھ کوئی لین دین نہیں ہے اور ان کے پابندیوں کے اقدامات کی خلاف ورزی کا خطرہ بہت کم ہے۔
حال ہی میں روسی اور ایرانی تیل پر کیا پابندیاں عائد کی گئی ہیں؟
روس اور ایران سے تیل برآمد کرنے والوں نے تیل کو ٹینکروں میں منتقل کرکے پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی ہے جو ’شیڈو فلیٹ‘ (روس کے معاملے میں) یا ’ڈارک فلیٹ‘ (ایران کے معاملے میں) بناتے ہیں۔
'شیڈو فلیٹ' ٹینکر ان ممالک میں رجسٹرڈ ہیں جو بحری جہازوں کی ملکیت کی تفصیلات کو غیر واضح رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سے امریکہ کے لیے پابندیوں کی خلاف ورزیوں پر ان کے مالکان کو سزا دینا مشکل ہوجاتا ہے۔
'ڈارک فلیٹ' ٹینکر اپنے سفر کو خفیہ رکھنے کے لیے سمندر میں اپنے ٹرانس پونڈرز کو بند کر دیتے ہیں۔
جنوری 2025 میں، بائیڈن انتظامیہ کے اختتامی دنوں میں امریکہ نے روسی اور ایرانی تیل لے جانے والے بیڑے کے 183 ٹینکروں کے ساتھ ساتھ دو روسی تیل کمپنیوں گیزپروم نیفٹ اور سرگٹنفٹیگاس پر پابندیاں عائد کیں۔
امریکہ نے اسرائیل پر میزائل حملے کے جواب میں اکتوبر 2024 میں ایرانی تیل لے جانے والے ٹینکروں پر بھی پابندیاں عائد کی تھیں اور اسی سال دسمبر میں روسی اور ایرانی تیل لے جانے والے ٹینکروں پر بھی پابندیاں عائد کی تھیں۔
ایک ڈیٹا فرم کپلر سے تعلق رکھنے والے ہمایوں فلک شاہی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایرانی تیل لے جانے والے 23 فیصد جہازوں اور روسی تیل لے جانے والے تقریبا 9 فیصد جہازوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
انھوں نے کہا 'ہم چین میں روسی اور ایرانی تیل کی درآمد کی مقدار میں تقریبا 20 سے 25 فیصد کی کمی دیکھ رہے ہیں، اور چین کے قریب سمندروں میں تقریبا دو کروڑ بیرل تیل لے جانے والے ٹینکر انتظار کر رہے ہیں، جومال اتارنے سے قاصر ہیں۔'
'اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی تیل کا مرکزی ٹرمینل شانڈونگ پورٹ پابندیوں کی فہرست میں شامل کسی بھی ٹینکر کو قبول نہیں کر رہا ہے۔'
انڈین ریفائنرز نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ روس سے امریکی پابندیوں کے تحت تیل کی فراہمی بند کردیں گے۔
فلک شاہی کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے اقدامات کی خبریں گذشتہ چند ماہ کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔
جنوری میں روسی تیل کی برآمدات پر عائد پابندیوں کی خبروں کی وجہ سے برینٹ خام تیل (بین الاقوامی بینچ مارک قیمت) کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہو گئی جو پانچ ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔
فلک شاہی نے وضاحت کی کہ'روسی اور ایرانی تیل برآمد کنندگان ایسے طریقے تلاش کریں گے، جیسے کہ اپنے خام تیل کو دوسرے جہازوں پر منتقل کرنا۔ وہ امریکی محصولات سے مستقل طور پر متاثر نہیں ہوں گے، جب تک کہ مستقبل میں مزید محصولات عائد نہ کیے جائیں۔'
کیا ہم مستقبل میں سخت پابندیوں کی توقع کر سکتے ہیں؟
تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر برکو اوزسیلک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ممکنہ طور پر ایران کے تیل کے شعبے کے خلاف بھی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
انھوب نے کہا کہ تیل کے غیر قانونی بہاؤ سے پاسداران انقلاب کو فائدہ ہوتا ہے اور دہشت گردوں کے آلہ کاروں اور شراکت داروں کی مالی اعانت ممکن ہوتی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے حزب اللہ اور دیگر گروہوں کو مبینہ طور پر رقوم بھیجنے پر یمن کویت بینک فار ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
اوزسیلک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس عراق میں ان بینکوں پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر سکتا ہے جو ایران کے لیے بھی اسی طرح کا کام کرتے ہیں۔
سنہ 2019اور 2020 میں ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں جس سے اس کی برآمدات کم ہو کر صرف 5 00،000 بی پی ڈی رہ گئیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ روس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کریں گے تاکہ اس کی تیل کی آمدنی میں کمی لانے کی کوشش کی جا سکے۔
روسی سے تعلق رکھنے والے ٹام کیٹنگے نے کہا کہ 'ہم صدمے اور خوف کے اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ ممالک سے کہیں گے: اگر آپ روسی تیل خریدتے رہے تو ہم آپ کی تجارت پر محصولات عائد کر دیں گے۔ وہ ان کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں کہ وہ امریکہ سمیت دوسرے ممالک سے اپنا تیل خریدیں۔'
روس اور ایران سے تیل کی برآمدات میں کمی عالمی منڈی میں قلت پیدا کر سکتی ہے اور 2025 میں قیمتوں میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔
انرجی انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کی فیلو کیٹ ڈورین کا کہنا ہے کہ صرف سعودی عرب میں ہی 30 لاکھ بیرل یومیہ اضافی گنجائش موجود ہے جسے مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں 60 لاکھ بیرل یومیہ اضافی گنجائش موجود ہے۔
تاہم، وہ کہتی ہیں کہ ٹرمپ کے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ وہ دنیا کے پروڈیوسروں کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ اس کی قیمت کو کم کرنے کے لیے بڑی مقدار میں اضافی تیل مارکیٹ میںلائیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تیل کی پیداوار کرنے والوں کو نئی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب کے طور پر تیل کی زیادہی قیمتوں کی ضرورت ہے۔‘