انڈیا نے اس سال اپنے بجٹ میں اپنے پڑوسی ممالک کا پورا خیال رکھا ہے۔ اس بجٹ میںمالدیپ اور افغانستان کی امداد میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں تلخی کے باوجود امدادی رقم میں کمی نہیں کی گئی۔
انڈیا نے نئے مالی سال کے بجٹ میں جہاں غیر ملکی امداد میں کٹوتی کی ہے وہیں اس نے اس بجٹ میں اپنے پڑوسی دوست ممالک کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
سنیچر کے روز انڈیا نے سال 26-2025 کا بجٹ پیش کیا جس میں غیر ملکی امداد کے لیے مختص رقم کو پچھلے سال سے گھٹا کر 5483 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔
سال 2024-2025 کے بجٹ میں یہ رقم 5806 کروڑ روپے رکھی تھی۔
دوسری جانب انڈیا نے دوست پڑوسی ممالک کا پورا خیال رکھتے ہوئے مالدیپ اور افغانستان کی امداد میں اضافہ کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں تلخی کے باوجود امدادی رقم میں کمی نہیں کی گئی ہے۔
بھوٹان
انڈیا بھوٹان کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی مدد فراہم کرتا ہے اور اس بار بھی بھوٹان کے لیے ایک قلیل رقم بجٹ میں مختص کی گئی ہے۔
سنہ 2025-26 کے بجٹ میں انڈیا نے بھوٹان کے لیے 2150 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ گو کہ گذشتہ مالی سال کے دوران بھوٹان کے لیے نظر ثانی شدہ بجٹ 2543 کروڑ روپے تھا۔
یاد رہے کہ انڈیا بھوٹان کو بنیادی ڈھانچے، پن بجلی کے منصوبوں اور اقتصادی تعاون سے متعلق منصوبوں کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔
مالدیپ
گذشتہ سال مالدیپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے بعد اب دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا اثر انڈیا کے حالیہ بجٹ میں مالدیپ کو دی جانے والی اقتصادی امداد میں بھی نظر آتا ہے۔
مالی سال 2024-25 میں نظرثانی شدہ بجٹ میں مالدیپ کو 470 کروڑ روپے کی امدادی رقم میں کوئی اضافہ نہیں دیا گیا تھا تاہم رواں مالی سال کے بجٹ میں اسے بڑھا کر 600 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔
درحقیقت مالدیپ کے صدر محمد میوزو کے چین کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے انڈیا کے ساتھ مالدیپ کے تعلقات خراب ہونے لگے تھے لیکن مالدیپ اور انڈیا دونوں نے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پہل کی ہے۔
گذشتہ سال جب انڈیا کا عبوری بجٹ پیش کیا گیا تھا تب انڈیا اور مالدیپ کے تعلقات میں کشیدگی واضح تھی۔ مالدیپ کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی گئی اور اس کے لیے 400 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ اس وقت اس کا تعلق دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخی سے تھا۔
لیکن اس کے بعد کے 12 مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلنے کے آثار نظر آئے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا اشارہ خود مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے اس وقت دیا جب وہ گذشتہ سال چھ سے 10 اکتوبر تک سرکاری دورے پر انڈیا آئے تھے۔
افغانستان
انڈیا حالیہ عرصے میں افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی مسلسل کوشش کرتا تو دکھائی دے رہا ہے تاہم اس کا اثر بجٹ میں دکھائی نہیں دیا۔ انڈیا نے اس سے قبل گزشتہ سال کے بجٹ (2024-25) میں افغانستان کے لیے 200 کروڑ روپے کا انتظام کیا تھا۔
لیکن بجٹ میں نظرثانی کر کے یہ رقم کم کر کے 50 کروڑ روپے کر دی گئی ۔ لیکن اب رواں مالی سال کے بجٹ میں اسے بڑھا کر 100 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں انڈیا کے خارجہ سیکریٹری وکرم مصری نے دبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف دوستی کا ہاتھ ایسے وقت بڑھایا ہے جب پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں کشیدگی واضح ہے۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے تاہم اس سال کے بجٹ میں بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد کی رقم وہی رکھی گئی ہے۔
مالی سال 2024-25 میں بنگلہ دیش کے لیے 157 کروڑ کی رقم مختص کی گئی تھی جس کو نظرثانی شدہ بجٹ میں 120 کروڑ روپے کیا گیا۔ رواں مالی سال میں بجٹ میں رقم 120 کروڑ روپے مختص کی گئی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر پریمانند مشرا کہتے ہیں کہ ’ان دنوں بنگلہ دیش کا انڈیا کے بارے میں رویہ مختلف ہے۔ لیکن چونکہ انڈیا ایک بہت بڑا ملک ہے اس لیے صروری نہیں کہ اگلے پانچ یا 10 سال میں بھی انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کھینچاؤ برقرار رہے۔ کیونکہ معاشرہ زیادہ تر سرمایہ کاری کے اصولوں پر چلتا ہے۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا جس کے بعد وہ انڈیا فرار ہو گئیں تھیں۔ اس کے بعد سے بنگلہ دیش میں محمد یونس کی قیادت میں قائم ہونے والی عبوری حکومت انڈیا کے خلاف مسلسل سخت رویہ اپنا رہی ہے۔
تاہم یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آیا یہ کمی اسی وجہ سے ہوئی ہے لیکن حکومتیں امدادی بجٹ میں اضافہ یا کٹوتی کرکے دوسرے ممالک کو عموما اشارہ بھیجنے کی کوشش کرتی ہیں۔
میانمار
انڈیا نے اپنے رواں سال کے پیش کیے گئے بجٹ میں میانمار کے لیے امداد کی رقم 400 کروڑ روپے سے گھٹا کر 350 کروڑ روپے کر دی ہے۔
یہ کٹوتی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب میانمار میں فوجی حکومت اور باغیوں کے درمیان تنازع جاری ہے۔
تاہم انڈیا میانمار میں مسلح تصادم اور خانہ جنگی کی وجہ سے اپنی شمال مشرقی سرحد پر بدامنی پھیلنے کے امکان کے بارے میں مسلسل چوکنا ہے۔ حال ہی میں انڈیا نے اپنے ساتھ متصل میانمار کی سرحد پر نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔
نیپال
حالیہ دنوں میں نیپال پر چین کا اثر و رسوخ بڑھتا دیکھا جا رہا ہے تاہم انڈیا نیپال کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی مسلسل کوشش میں مصروف عمل ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے نیپال کی چین کے ساتھ قربت بڑھے۔
مالی سال 2024-25 میں نیپال کا نظرثانی شدہ بجٹ 700 کروڑ روپے تھا۔ مالی سال 2025-26 میں بھی اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے اور اسے 700 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
سری لنکا
انڈیا نے اس سال کے بجٹ میں بھی سری لنکا کو دی جانے والی امدادی رقم کو 300 کروڑ روپے پر برقرار رکھیا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
حالیہ دنوں میں سری لنکا نے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ سری لنکا کے صدر نے حال ہی میں انڈیا کا کامیاب دورہ بھی کیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی افریقی ممالک کے لیے انڈیا نے امداد کی رقم بڑھا کر 225 کروڑ روپے کر دی ہے جو پہلے 200 کروڑ روپے تھی۔
تاہم لاطینی امریکی ممالک کے لیے امداد کی رقم 90 کروڑ روپے سے کم کر کے 60 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔
ایران کی چابہار بندرگاہ کے لیے بھی 100 کروڑ روپے کی رقم مقرر کی گئی ہے۔
’بہتر امیج بنانے میں مددگار‘
پروفیسر پریمانند مشرا کہتے ہیں کہ ’علاقائی فریم ورک میں سب سے بڑی طاقت کو مالی امداد دے کر اپنی طاقت کا تعین کرنا ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’نیپال، بھوٹان یا مالدیپ ایسے ممالک ہیں جو کسی نہ کسی پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ چین علاقائی فریم ورک میں بہت زیادہ دولت مند ملک ہے، وہ دوسرے ممالک کی مدد کرتا ہے، لیکن غیر مشروط طور پر ایسا نہیں کرتا۔ اس لیے اس علاقائی بالادستی کے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے انڈیا دوسرے ممالک کی مدد کرتا ہے۔‘
پروفیسر پریمانند مشرا مزید کہتے ہیں کہ ’معاشی تعلقات ایک طویل مدتی سرمایہ کاری کی طرح ہیں۔ جب آپ کسی ملک کی مدد کرتے ہیں تو یہ مدد اس ملک کے عوام تک پہنچتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس ملک میں انڈیا کا امیج بڑی حد تک بدل جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں امیج یا تصور سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘
’اس کے علاوہ دیگر ممالک کی مدد کر کے ہماری معیشت کی طاقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ ہم مدد لینے کے بجائے مدد دیتے ہیں۔‘