68 برس تک اسماعیلی برادری کے 49ویں امام رہنے والے ارب پتی شہزادہ کریم آغا خان وفات پا گئے

شہزادہ کریم آغا خان کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔
آغا خان
Getty Images

اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا اور دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے جانے جانے والے ارب پتی شہزادہ کریم آغا خان 88 برس کی عمر میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں وفات پا گئے ہیں۔ اُن کی فلاحی تنظیم ’آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ نے اُن کی وفات کا اعلان کیا ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔

سنہ 1957 میں سر سلطان محمد آغا خان سوم کی وفات کے بعد اُن کے پوتے شہزادہ کریم کو 20 سال کی عمر میں اپنے والد شہزادہ علی خان کے بجائے موروثی پیشوا اور اسماعیلی برادری کا روحانی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں اُن کی تخت نشینی کی رسومات ادا کی گئی تھیں۔ 23 جنوری 1958 کو کراچی میں بھی پرنس کریم آغا خان کی رسم تخت نشینی ادا کی گئی تھی۔ اس طرح شہزادہ کریم آغا خانی یا اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں امام بنے اور آغا خان چہارم کے لقب سے پہچانے گئے۔

اسماعیلی برادری کا ماننا ہے کہ اُن کے امام کا شجرۂ نسب براہ راست پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہے تاہم اسماعیلی مسلمانوں کی امامت کا سلسلہ امام جعفر صادق (چھٹے امام) کے بعد شیعہ اثنا عشری مسلمانوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔

شیعہ اثنا عشری جعفر صادق کے بعد اُن کے فرزند موسیٰ کاظم اور ان کی اولاد کی امامت کے قائل ہیں جبکہ اسماعیلی مسلمان جعفر صادق کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر (جن کی وفات امام جعفر صادق ؑکی زندگی میں ہی ہو گئی تھی) کو اپنے ساتویں امام کا درجہ دیتے ہیں اور ان کی اولاد کو سلسلہ وار اپنا امام مانتے ہیں۔

اسماعیلی برادری جو کہ ایک مسلم فرقہ ہے کی دنیا بھر میں آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑہے، جس میں پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شامل ہیں۔ جبکہ انڈیا، افغانستان اور افریقہ میں بھی اس فرقہ کی بڑی آبادی موجود ہے۔

ان کی خیراتی تنظیم نے ان کی وفات سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ پرتگال کے شہر لزبن میں اپنے اہلخانہ کی موجودگی میں ’پرسکون طور پر وفات پا گئے۔‘

شہزادہ کریم آغا خان کے برطانوی شاہی خاندان سمیت دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ ان کی وفات پر برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس سوم نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا ہے۔

شہزادہ کریم کی وفات پر ان کی فلاحی تنظیم آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے اپنے بیان میں بھی ’شہزادہ کریم کے اہلخانہ اور دنیا بھر میں اسماعیلی برادری سے‘ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مذہبی وابستگی اور نسل سے بالاتر ہو کر مستحق افراد اور کمیونٹیز کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ شہزادہ کریم چاہتے تھے۔‘

شہزادہ کریم کی جوانی کے دنوں کی چند چھلکیاں
Getty Images
شہزادہ کریم کی جوانی کے دنوں کی چند تصاویر

شہزادہ کریم آغا خان کون تھے؟

شہزادہ کریم آغا خان 13 دسمبر1936 کو سوئٹزر لینڈ کے شہر جینوا میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے پاس برطانوی شہریت تھی اور وہ فرانس میں رہائش پذیر تھے۔

کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک ایسے حکمران ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے اور اُن کی ہدایات حرفِ آخر سمجھی جاتی تھیں۔

آغا خان سوم کی وفات کے بعد دنیا بھر میں شہزادہ کریم کی تخت نشینی کی رسومات شروع ہوئیں اور 23 جنوری 1958 کو کراچی میں بھی پرنس کریم آغا خان کی رسم تخت نشینی ادا کی گئی۔ یہ تقریب نیشنل سٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے پاکستانی صدر اسکندر مرزا اور وزیرا عظم فیروز خان نون نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں شہزادہ کریم آغا خان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار بھی موجود تھے۔

کریم آغا خان اور بیگم سلیمہ کی شادی کی تصویر
Getty Images
کریم آغا خان اور بیگم سلیمہ کی شادی کی تصویر

سنہ 1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔ اس شادی کے مہمانوں میں برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ، ہالینڈ کی شہزادی برن ہارڈ اور ایران کے شہزادے اشرف پہلوی بھی شامل تھے۔

سلیمہ سے شہزادہ کریم آغا خان کے تین بچے ہوئے: زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان۔ شادی کے 26 سال بعد سنہ 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ سنہ 1998 میں کریم آغا خان نے دوسری شادی انارا نامی خاتون سے کی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا، مگر چند سال بعد سنہ 2011 میں اُن کی انارا سے بھی طلاق ہو گئی۔

انھوں نے ایک شاہانہ طرز زندگی گزاری، وہ بہاماس میں ایک نجی جزیرے، ایک لگژری یاٹ اور ایک نجی طیارے کے مالک بھی تھے۔

فوربز میگزین کے مطابق سنہ 2008 میں شہزادے کی دولت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ انھوں نے وراثت میں ملی دولت کو یورپ میں گھوڑوں کی افزائش نسل سمیت مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کر کے بڑھایا تھا۔

کریم آغا خان اور فلاحی خدمات

پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ انھوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاحی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے تھے۔

انھوں نے فن تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے دنیا بھر میں اسلامی فن تعمیر کو بڑا فروغ ملا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آغا خان فاؤنڈیشن نے کراچی میں ایک بڑا ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جو ملک میں اپنی طرز کی منفرد درسگاہ ہے۔ اس ہسپتال اور یونیورسٹی کا ڈیزائن امریکہ کی آرکیٹکچرل فرم ’پیٹی انٹرنیشنل‘ نے تیار کیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں آغا خان پروگرام برائے اسلامک آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی جبکہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سمیت متعدد اداروں میں نئے تعلیمی پروگرام شروع کروائے۔

ان کا ادارہ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر دہلی میں ہمایوں کے مقبرے کی بحالی کا کام کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔جبکہ انھوں نے نیشن میڈیا گروپ کی بنیاد بھی رکھی، جو مشرقی اور وسطی افریقہ میں سب سے بڑی آزاد میڈیا تنظیم بن گئی۔

آغا خان فاؤنڈیشن
Getty Images

آغا خان فاؤنڈیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1980 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا: انھیں 20 ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا اور دنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔

انھیں جو اعزازات عطا ہوئے ہیں ان میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب اور ’نائٹ کمانڈر آف دی برٹش امپائر‘ کا اعزاز، کینیڈا کی اعزازی شہریت، امریکی اکیڈمی برائے آرٹ اینڈ سائنسز کی فیلو شپ اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز شامل ہیں۔

شہزادہ کریم آغا خان اور گھوڑے پالنے کا شوق

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اور کریم آغا خان
Getty Images
ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم اور کریم آغا خان

شہزادہ کریم آغا خان کو گھوڑے پالنے اور گھوڑوں کی دوڑ کا بہت شوق تھا۔ وہ برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ میں ریس کے گھوڑوں کے ایک سرکردہ مالک اور بریڈر تھے۔

ان کے پسندیدہ گھوڑوں میں ’شیرگر‘ نامی گھوڑا سرفہرست تھا، جو کبھی دنیا کا سب سے مشہور اور قیمتی گھوڑا تھا۔

ان کے گھوڑے ’شیرگر‘ نے سنہ 1981 میں ایپسم ڈربی میں اپنے حریف ریڈ اییپولیٹس نامی گھوڑے کو دس فرلانگ سے شکست دی تھی مگر اس گھوڑے کو دو سال بعد ائیرلینڈ سے اغوا کر لیا گیا اور وہ دوبارہ کبھی نہیں ملا۔

سنہ 2011 میں ان کی پسندیدہ گھوڑے کی شاندار فتح کے 30 سال پورے ہونے کے موقع پر انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پسندیدہ گھوڑے کے کھو جانے کے باوجود انھوں نے کبھی آئرش نسل کے گھوڑوں کی افزائش نسل ترک کرنے کا نہیں سوچا۔ شیرگر کی فتح کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسی یاد ہے جو کبھی بھولی نہیں جا سکتی۔‘

شہزادہ کریم آغا خان نے اس کے بعد بھی چار بڑی گھڑ ریسوں میں فتح سمیٹی ان میں سنہ 1986 میں ان کے شاہرستانی اور کاہیاسی نامی گھوڑوں کی ریس، سنہ 2000 میں سندھر نامی اور سنہ 2016 میں ہرزند نامی گھوڑے کے ساتھ ریس شامل تھی۔

ان کی دیگر قابل ذکر کامیابیوں میں شاندار ناقابل شکست فلی زارکاوا نامی گھوڑے کے ساتھ 2008 میں پرکس ڈی ایل آرک ڈی ٹریمف نامی گھڑ ریس شامل تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.