اوربیرو پولیس کے سربراہ روبرٹو عیڈ فوریسٹ کا کہنا تھا کہ اس حملے سے قبل پولیس حملہ آور کو نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس کا کسی جرائم پیشہ گینگ سے تعلق تھا۔
16 سالہ لِن کا سکول سویڈن کے شہر اوریبرو میں بالغان کے تعلیمی مرکز رزبرگسکا سکول کے بالکل قریب واقع ہے جہاں گذشتہ روز ایک مسلح شخص نے فائرنگ کر کے 10 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
فائرنگ کے بعد کے مناظر بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں ہر طرف خون ہی خون تھا۔‘
انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہاں افراتفری تھی، لوگ گھبرائے ہوئے اور رو رہے تھے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ اوربیرو میں بالغان کے تعلیمی مرکز پر ہونے والے حملے میں حملہ آور سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرستورسون نے منگل کو ہونے والے فائرنگ کے واقعے کو ملک کی تاریخ کا بدترین حملہ قرار دیا۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کے پریس آفس کے مطابق سرکاری عمارتوں، پارلیمنٹ اور شاہی عمارتوں پر موجود پرچم سرنگوں رہیں گے۔
رزبرگسکا سکول کی ایک طالبہ مروا نے سویڈن کے ٹی وی فور کو بتایا کہ انھوں نے کیسے فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہونے والے ساتھی کی مدد کی۔
’ہمارے برابر میں بیٹھے شخص کے کندھے میں گولی لگی، ان کا بہت خون بہہ رہا تھا۔ جب میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو تین مزید افراد خون میں لت پت پڑے تھے۔‘
مروا مزید کہتی ہیں کہ انھوں نے اور ان کی ایک دوست نے زخمی شخص کے کندھے پر اپنی شال باندھ دی تاکہ ’خون کو بہنے سے روکا جا سکے۔ ہر کوئی صدمے میں تھا۔‘
رزبرگسکا سکول کی ٹیچر لینا وارنمارک کہتی ہیں کہ وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں کہ انھوں نے گولیوں کی آوازیں سنیں۔ انھوں نے سویڈن کے ایک ریڈیو سٹیشن کو بتایا کہ اس کے بعد انھوں نے وقفے وقفے سے مزید گولیوں کی آوازیں سنیں تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً ایک گھنٹے تک اپنے کمرے میں بند رہیں۔
رزبرگسکا سکول ایک ایسے کیمپس میں واقع ہے جہاں متعدد دیگر سکول بھی واقع ہیں۔ یہ سکول ایسے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے جو کسی بھی سبب ماضی میں اپنی پرائمری یا سیکنڈری تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے۔
ہیلن ورمے بھی رزبرگسکا سکول کی ہی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت وہیں موجود تھیں جب فائرنگ شروع ہوئی۔
ہیلن نے سویڈن کے ایس وی ٹی چینل کو بتایا کہ ان کے استاد نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو چیخ کر کہا کہ ’دروازے بند کردو اور زمین پر لیٹ جاؤ۔‘
علی المقاد کے خاندان کے ایک فرد بھی رزبرگسکا سکول پر ہونے والے حملے میں زخمی ہوئے تھے اور وہ یہاں ایک مقامی ہسپتال کے باہر ان کی صحت دریافت کرنے کے لیے موجود تھے۔
انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی کزن بھی اس سکول میں ایک طالبہ کو جانتی تھیں اور جب انھیں کال کی گئی تو ’وہ روتے روتے فرش پر گِر گئیں۔‘
ایسے حملے سویڈن میں ماضی میں بھی ہو چکے ہیں لیکن ان کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی۔
گذشتہ برس ستمبر میں سٹاک ہوم میں بھی ایک سکول میں فائرنگ ہوئی تھی جہاں ایک 15 سالہ لڑکے نے اپنے ہم جماعت طالب علم کو زخمی کر دیا تھا۔
ہم حملہ آور کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
پولیس کا کہنا تھا کہ مسلح شخص کے علاوہ اس حملے میں کوئی اور ملوث نہیں تھا اور ان کے مطابق اس فائرنگ کی وجوہات نظریاتی نہیں تھیں۔
اوربیرو پولیس کے سربراہ روبرٹو عیڈ فوریسٹ کا کہنا تھا کہ اس حملے سے قبل پولیس حملہ آور کو نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس کا کسی جرائم پیشہ گینگ سے تعلق تھا۔
پولیس کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سیکرٹ سروس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق پولیس اس شخص کو پہلے سے نہیں جانتی تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ حملے میں ’استعمال ہونے والے اسلحے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا حملہ آور نے خود کو گولی ماری تھی تو انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ان کے پاس فی الحال کوئی معلومات موجود نہیں۔