جس طرح پہلے سے ہی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر پھر سے بھرپور دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں میں سختی کرنے سے متعلق میمورنڈم پر دستخط کرتے وقت صدر ٹرمپ کا لہجہ اور ریمارکس اس دستاویز کی تحریر سے بہت کم مشابہت رکھتے تھے جس کی وہ منظوری دے رہے تھے۔
جس طرح پہلے سے ہی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر پھر سے بھرپور دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں میں سختی کرنے سے متعلق میمورنڈم پر دستخط کرتے وقت صدر ٹرمپ کا لہجہ اور ریمارکس اس دستاویز کی تحریر سے بہت کم مشابہت رکھتے تھے جس کی وہ منظوری دے رہے تھے۔
بظاہر ایرانی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ نئے احکامات پر دستخط کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے اور یہ کہ انھیں ابھی بھی امید ہے کہ اس آرڈر کی کئی شقوں پر عملدرآمد نہیں کرنا پڑے گا۔
اپنے پیشرو جو بائیڈن اور اپنے ہی پہلے دور صدارت کے برعکس اس بار اُن کی طرف سے (ایران سے متعلق) کسی قسم کے ایگزیکٹیو آرڈر کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
اس ضمن میں ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کے بجائے انھوں نے قومی سلامتی پر صدارتی میمورینڈم (این ایس پی ایم) کے اجرا کو ترجیح دی۔ صدارتی میمورینڈم کی علامتی حیثیت ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے قانونی مضمرات بھی ہوتے ہیں۔
یعنی امریکی اداروں پر اس نوعیت کے احکامات پر عملدرآمد کروانا لازمی ہوتا ہے مگر یہ ایگزیکٹیو آرڈ جیسے وسیع اختیارات کا حامل نہیں ہے اور اس کی قانونی اہمیت کم ہوتی ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اس میمورینڈم سے بآسانی پیچھے ہٹ سکتے ہیں، اور یہ اقدام انھیں مذاکرات کے ذریعے اس معاملے کا سفارتی حل نکالنے کا مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ بغیر کسی قانونی پیچیدگی کے اپنی مرضی سے اس میمورینڈم کے کسی حصے کو واپس بھی لے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسے کسی بھی اقدام کو عدالت یا کانگریس میں چیلنج کرنا مزید مشکل ہو گا۔ ماضی کے اقدامات کے برعکس اس مرتبہ یہ امریکی صدر کے دستخط والا کوئی نیا مسودہ قانون نہیں ہے۔ اس کے بجائے، سادہ الفاظ میں، ٹرمپ نے محض ایک داخلی ہدایت جاری کی ہے جس سے ان کی انتظامیہ میں موجود مخصوص اداروں کو مخاطب کیا گیا ہے۔
اس میمورینڈم پر دستخط کرنے کے موقع پر صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ انھیں ایران کے صدر مسعود پزشکیانسے ملاقات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اُن کے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس ضمن میں پہلا قدم امریکہ کی طرف سے بڑھایا جائے۔
انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ ایران کے خلاف کوئی سخت گیر موقف اختیار کرنے میں دلچپسی نہیں رکھتے ہیں اور ان کی پوری توجہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے باز رکھنے پر ہے۔
بدھ کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹُرتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ ایران ایک عظیم اور کامیاب ملک بنے لیکن ایک ایسا ملک جس کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ اطلاعات کہ ’امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے‘ میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’میں ایک ایسے مستند جوہری امن معاہدے کو ترجیح دوں گا جس کے تحت ایران آگے بڑھ سکے اور خوشحال ہو سکے۔ ہمیں فوراً اس پر کام شروع کرنا چاہیے اور جب یہ معاہدہ مکمل ہو جائے گا اور اس پر دستخط ہو جائیں گے تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا جشن ہو گا۔ خدا مشرق وسطی کا حامی و ناصر ہو۔‘
دوسری جانب صدر ٹرمپ کے بیان پر ایرانی حکام کی جانب سے ابتدائی ردعمل خاصا محتاط نوعیت کا سامنے آیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح طور پر کہا کہ اگر بنیادی مسئلہ ایران کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا ہے تو یہ ’قابل حل معاملہ اور کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔‘
حتیٰ کہ ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف کے ایرانی اور امریکی صدر کی ملاقات سے متعلق ردعمل نے بھی متعلق قیاس آرائیوں کو تقویت دی۔
مستقبل میں دونوں صدور کی ملاقات کے امکان کو رد کیے بغیر انھوں نے کہا کہ ’آج دن تک تو ایران کے ایجنڈے میں ایسی کوئی ملاقات شامل نہیں ہے۔‘
ایران کے انتخابات میں مسعود پزشکیان کی کامیابی کے بعد امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بہت سے حامی اقتدار میں واپس آ گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل کے چند ہفتوں کے دوران متعدد حکام اور شخصیات نے مختلف طریقوں سے مذاکرات اور سمجھوتہ کرنے کے لیے تہران کی آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ امکان ہمیشہ موجود رہتا تھا کہ اگر ایران کے خلاف نئی پابندیاں یا سخت اقدامات متعارف کرائے گئے تو اس طرح کے مذاکرات کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے مسلسل اصرار کیا ہے کہ وہ امریکی ’دباؤ‘ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ یعنی بالکل وہی جو ٹرمپ نے اپنے نئے میمورینڈم پر دستخط کر کے کیا ہے۔
اس میمورینڈم کے متن کے بغور مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس پر دستخط کرتے وقت صدر ٹرمپ کے مصالحانہ لہجے کے باوجود اس دستاویز یا یادداشت کا مواد انتہائی سخت ہے۔ اگر اس پر من و عن عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اس کے ایران کے لیے معاشی دباؤ کے علاوہ دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات کی دوڑ میں ایسے دھڑوں اور گروہوں کی حمایت حاصل تھی جو ایران کے خلاف سخت گیر پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ گروہ اسرائیل کے دائیں بازو کے خیالات سے بہت متاثر ہیں اور اُن کا یہ مؤقف ہے کہ ایران کی حکومت اب ایک کمزور اور نازک صورتحال میں ہے اور امریکہ اب ایران کی ’تھیوکریسی‘ یعنی مذہبی رہنماؤں کے ذریعے چلائی جانے والی ریاست کے نظام کو ختم کر سکتا ہے۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کا ایران کے ساتھ مذاکرات پر اصرار اس بااثر دھڑے کو مایوس کر سکتا ہے لیکن اس میمورینڈم جس پر انھوں نے دستخط کیے اس کا متن یقیناً اس گروہ کو خوش کرے گا۔
درحقیقت یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک پرانا حربہ ہے جو ان کے پہلے دورِ صدارت میں بھی دیکھنے کو آیا۔ خاص طور پر شمالی کوریا اور چین سے متعلق اپنی پالیسیوں پر متضاد مؤقف کو بار بار جوڑ کر پیش کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کے دستخط کردہ میمورنڈم میں کیا ہے؟
اس میمورینڈم میں صدر ٹرمپ نے امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ خزانہ، محکمہ دفاع اور محکمہ انصاف سمیت مختلف محکموں کو ہدایات دیں کہ ایران پر موجودہ پابندیوں کو مزید سختی سے نافذ کیا جائے تاکہ تہران کے ذرائع آمدن کو مزید محدود کیا جا سکے۔
اس میمورینڈم میں امریکی محکمہ خارجہ کو خلیجی ممالک پر ایران کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون منقطع کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔
اس صدارتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں موجودہ استثنیٰ کو بھی ختم کیا جائے جیسے چابہار منصوبہ، جسے افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ہونے کی وجہ سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر اس ہدایت کا مقصد ایرانی تیل کی فروخت کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔ ایک ایسا ہدف جو پہلے بھی ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران مقرر کیا گیا تھا مگر اسے مکمل طور حاصل نہیں کیا جا سکا تھا۔
تاہم صدر ٹرمپ کے گذشتہ دور میں ایران پر عائد پابندیوں نے ایران کی تیل کی برآمدات کو تقریباً 25 لاکھ بیرل یومیہ سے کم کر کے ساڑھے تین لاکھ بیرل یومیہ کر دیا تھا۔
اقتصادی دباؤ کے علاوہ اس حکمنامے کے ایران پر سیاسی اور سفارتی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی وزارت خارجہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ’ایران جوہری معاہدے‘ پر ’سنیپ بیک میکنزم‘ کو فعال کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ یورپی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے وسیع بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے سفارتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
اس سب کا ایک مقصد ایران کے علاقائی اتحادیوں کو بھی دباؤ میں لانا ہے۔ اس حکمنامے میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو روکنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اس میمورینڈم کے عسکری مضمرات بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ محکمہ دفاع کو امریکی یکطرفہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے آئل ٹینکرز کو ضبط کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اگر اس کو منظم طریقے سے نافذ کیا گیا تو یہ شق ایک بڑے فوجی تنازع کا سبب بن سکتی ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے ’این پی ٹی‘ کی مکمل پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ معاہدے کے بعض پہلوؤں کی خلاف ورزیاں اس ایجنسی کے تفتیش کاروں کے لیے تشویش کا سبب بنی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ میمورنڈم میں بھی اس مسئلے کا ذکر ہے لیکن ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی کر رہے ہیں۔
میمورینڈم کے دیگر مقاصد جیسا کہ ایران کی علاقائی سرگرمیاں، حماس یا حزب اللہ جیسے عسکریت پسند گروپوں کے لیے اس کی حمایت، اور میزائل پروگرام اور فوجی ڈرون کی تیاری سمیت ایران کے ہتھیاروں کی ترقی کے منصوبوں کے بارے میں یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ امریکہ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہتا ہے۔
غالب گمان یہ ہے کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان ممکنہ مذاکرات کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں سوالات کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو بھی اٹھایا جائے گا۔
تاہم، ابھی تک کوئی اس متعلق کوئی حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سامنے نہیں آیا ہے کہ ان معاملات کو کیسے حل کیا جائے گا یا ان کے کیا ممکنہ حل تجویز کیے جاسکتے ہیں۔
نتیجتاً دونوں فریقوں کی جانب سے اس بات پر زور دینے کے باوجود کہ ان کا مقصد مذاکرات اور ایک نئے معاہدے تک پہنچنا ہے ان مسائل پر موجود ابہام خود اس کے حصول یعنی ایک نئے معاہدے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔