امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات امریکہ کی مستقل خارجہ پالیسی سے زیادہ ریئل اسٹیٹ کے مذاکرات کے دوران کھیلے جانے والے داو کی طرح ہیں۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں کنفیوژن اس لیے پھیلا رہے ہیں تاکہ وہ کسی اور منصوبے پر کام کر سکیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کا ’کنٹرول سنبھالنے‘ اور اسے اپنی ’ملکیت‘ میں لینے اور اس سارے عمل کے دوران وہاں کے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کے منصوبے پر عملدرآمد تو نہیں ہونے والا کیونکہ اس کام کے لیے انھیں عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت ہو گی جو پہلے ہی اس کی مخالفت کا اعلان کر چکے ہیں۔
ان ممالک میں مصر، اردن اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ مصر اور اردن ان افراد کی دوبارہ آبادکاری کے لیے جگہ مہیا کریں جبکہ انھیں سعودی عرب سے امید ہوگی کہ وہ اس سارے عمل کا خرچ اٹھائے۔
امریکہ اور اسرائیل کے مغربی اتحادی بھی اس تجویز کے مخالف نظر آتے ہیں۔
شاید غزہ کے بہت سارے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے کا موقع کافی پرکشش لگے اور وہ اس سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیں لیکن اگر دس لاکھ فلسطینی بھی غزہ چھوڑ کر چلے جائیں تب بھی 12 لاکھ کے قریب لوگ پیچھے رہ جائیں گے۔
امریکہ کو ان افراد کو وہاں سے جبری طور بے دخل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا۔ سنہ 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کے خوفناک نتائج کے بعد یہ کام کافی غیر مقبول ہو گا۔
یہ منصوبہ اس تنازع کے دو ریاستی حل کے کسی بھی امکان میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ یہ ایک ایسی امید ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ایک صدی سے زیادہ لمبے عرصے سے جاری اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت اس تجویز کی سخت مخالف ہے۔ برسوں تک جاری رہنے والے ناکام مذاکرات کے بعد اب دو قوموں کے لیے دو الگ ریاستوں کی بات محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔
لیکن 90 کی دہائی سے یہ تجویز امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی حصہ رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔
اس سے امریکہ کا یہ اصرار کے وہ اصولوں کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی نظام پر یقین رکھتا ہے، کا بچا کچھا تاثر بھی ختم ہو جائے گا۔
اس سے روس اور چین کے یوکرین اور تائیوان میں علاقائی عزائم کو مزید تقویت ملے گی۔
اس منصوبے کا خطے پر کیا اثر پڑے گا؟
کسی ایسی بات کی کیا فکر کرنا جو ہونے ہی نہیں والی یا کم از کم ویسے نہیں ہونے والی جیسے ڈونلڈ ٹرمپ بتا رہے ہیں اور جسے سن کر اسراِئیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو خوش ہو رہے تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے یہ بیانات جتنے بھی عجیب لگیں لیکن ان کے نتائج ضرور ہوں گے۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کسی ریئلٹی شو کے میزبان نہیں جو سیاسی بیان دے کر شہ سرخیوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں۔ وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر ہیں اور اس لحظ سے وہ دنیا کے سب سے طاقتور شخص ہوئے۔
مختصر مدت میں ان کے بیانات پہلے سے ہی جنگ بندی کے نازک معاہدے پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔ ایک سینیئر عرب ذرائع کے مطابق یہ جنگ بندی کے لیے آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔
اس معاہدے میں پہلے ہی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مستقبل میں غزہ کا انتظام کیسے چلے گا۔
اب صدر ٹرمپ کی جانب سے اس کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ اس منصوبے پر اگر عملدرآمد نہیں ہوتا تب بھی یہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کے ذہنوں میں سوالات کو ضرور جنم دے گا۔
اس سے اُن قوم پرست یہودی انتہا پسندوں کے منصوبوں اور خوابوں کو تقویت ملے گی جن کا ماننا ہے کہ بحیرہ روم سے دریائے اردن تک کی زمین خدا کی طرف سے یہودیوں کو دی گئی۔
ان کے رہنما نیتن یاہو کی حکومت میں شامل ہیں جو ان کی حکومت برقرار رکھنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، وہ اس اعلان سے بہت خوش ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ غزہ کی جنگ جاری رہے تاکہ فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر ان کی جگہ یہودیوں کو آباد کیا جا سکے۔
اسرائیل کے وزیرِ خزانہ بزالیل سموٹرچ کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات اکتوبر حملے کے بعد کے غزہ کے مستقبل کا جواب دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے ہماری سر زمین پر بدترین قتل عام کیا، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی زمین کھو دیں گے۔اب ہم بالآخر خدا کی مدد سے فلسطینی ریاست کے خطرناک خیال کو ہمیشہ کے لیے دفنانے جا رہے ہیں۔‘
اسرائیل کے اپوزیشن رہنماوں نے شاید آگے پیش آنے والی مشکلات کے ڈر سے زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا تاہم انھوں نے بھی دھیمے الفاظ میں اس منصوبے کا خیر مقدم کیا۔
حماس اور دیگر فلسطینی مسلح گروپوں کو شاید محسوس ہو رہا ہو کہ انھیں ٹرمپ کے بیان کے جواب میں اسرائیل کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ تنازع نکبہ کی یاد سے جڑا ہے۔ نکبہ کا مطلب تباہی کے ہیں۔ فلسطینی 1948 میں اسرائیل کی آزادی کے بعد جبری طور پر اپنی زمینوں سے بے دخل کیے جانے کے واقعے کو نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو یا تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا یا انھیں اسرائیلی مسلح فورسز نے زبردستی انھیں ان کے علاقے سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
ان میں سے محض چند کو ہی واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اسرائیل نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جنھیں استعمال کر کے وہ آج بھی فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیتا ہے۔
اب تشویش یہ ہے کہ ایسا ایک بار پھر ہو سکتا ہے۔
بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ کو استعمال کرتے ہوئے غزہ کو تباہ کر کے فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔
وہ اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہیں اور اب انھیں لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی منصوبوں کو اپنی حمایت فراہم کر ہے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کا مقصد کیا ہے؟
صرف اس لیے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہہ دیا، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سچ ہے۔
ان کے بیانات امریکہ کی مستقل خارجہ پالیسی سے زیادہ ریئل اسٹیٹ کے مذاکرات کے دوران کھیلے جانے والے داو کی طرح ہیں۔
شاید ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں کنفیوژن اس لیے پھیلا رہے ہیں تاکہ وہ کسی اور منصوبے پر کام کر سکیں۔
کہا جاتا ہے کہ انھیں نوبل امن انعام جیتنے کی شدید خواہش ہے۔ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں کے نوبل انعام جیتنے کی نظیر ملتی ہے، چاہے ان کے منصوبے کامیاب ہوں یا نہیں۔
ایسے وقت میں جب دنیا ان کے بیانات کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہی تھی، صدر ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر جاری پیغام میں ایران کے ساتھ ایک ’مستند جوہری امن معاہدے‘ کی خواہش ظاہر کی۔
ایران اس بات پر اصرار کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا نہیں چاہتا تاہم اب تہران میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انھیں اپنی حفاظت کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت پڑے۔
کئی برس سے نیتن یاہو کی خواہش ہے کہ امریکہ اسرائیل کی مدد سے ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کر دے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران بھی نیتن یاہو امریکہ کو تہران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اگر ڈونلد ٹرمپ کا مقصد اسرائیلی انتہا پسندوں کو راغب کرنے کے لیے کچھ دینا تھا تاکہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر بات چیت کی جا سکے، تو وہ اس میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم ان کے اس اقدام کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں مزید غیر یقینی اور غیر استحکام کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔