آسٹریلیا نے حال ہی میں قومی سطح پر ڈیپ فیک پورنوگرافی کی تخلیق اور اشتراک کو جرم قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے ممالک میں خامیوں پر مشتمل قانون ہیں یا ڈیپ فیک پورنوگرافی کو جرم قرار نہیں دیا گيا ہے۔
انتباہ: اس رپورٹ میں جنسی تشدد اور بدکلامی پر مبنی تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
فروری کی ایک گرم رات آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی رہائشی حنّا گرونڈی کو ای میل کے ذریعے ایک پریشان کُن پیغام موصول ہوا۔
گمنام ای میل کرنے والے نے لکھا تھا کہ ’میں آپ کو ای میل کرتا رہوں گا، شاید اس طرح میں آپ کی توجہ حاصل کر پاؤں۔‘
اس ای میل کے اندر ایک لنک موجود تھا جس پر جلی حروف میں یہ درج تھا: ’(یہ) پریشان کن مواد پر مشتمل ہے۔‘
حنّا گرونڈی ایک لمحے کے لیے ہچکچائیں اور انھیں پہلا خیال یہی آیا کہ شاید یہ کوئی سکیم یا دھوکہ ہے۔
لیکن حقیقت اس سے بھی بدتر تھی۔ اس لنک میں جعلی پورنوگرافی پر مبنی درجنوں تصاویر اور صفحات موجود تھے جن میں حنّا کی تصاویر نمایاں تھیں اور اس میں انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
وہ اُن تفصیلات کو یاد کر کے کہتی ہیں کہ اُن میں لکھا تھا کہ ’تمھیں (ان پورن تصاویر کے ذریعے) باندھ دیا گیا ہے، یہ تصاویر دیکھ کر تم خوفزدہ لگ رہی ہو۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں۔ تم اب پنجرے میں قید ہو۔‘
کچھ تصاویر پر بھدے انداز میں حنّا کا پورا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اُن کا انسٹاگرام ہینڈل بھی پوسٹ کیا گیا تھا اور اس مضافاتی علاقے کا ذکر بھی تھا جہاں وہ رہتی تھیں۔ بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ تصاویر کے ساتھ اُن کا فون نمبر بھی درج تھا۔
اس ای میل نے ایک ایسی کہانی کی شروعات کیں جسے حنّا ایک ڈراؤنی فلم سے تشبیہ دیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ خود اپنی ہی جاسوسی کرنے پر مجبور ہوئيں، انھوں نے اپنے کسی قریبی شخص سے ملنے والے دھوکے کا پردہ فاش کیا، اور ایک ایسا کیس بنایا جس نے ناصرف اُن کی زندگی بدل کر رکھ دی بلکہ آسٹریلیا میں رائج قوانین پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔
’گہرا صدمہ‘
علامتی تصویر حنّا کو موصول ہونے والی ای میل میں موجود لِنک سے وابستہ ویب پیج کا نام ’دی ڈسٹرکشن آف حنّا‘ تھا اور اس ای میل کے کے اوپری حصے میں ایک پول تھا جہاں سینکڑوں لوگوں نے اُن شیطانی طریقوں کے بارے میں بتایا تھا جن کے تحت وہ حنّا کا ریپ کرنا چاہتے تھے۔
اس کے نیچے 600 سے زیادہ گھٹیا پورن تصاویر کا ایک سلسلہ تھا، جن میں حنّا کا چہرہ ایڈیٹ کر کے لگایا گیا تھا۔ اور ان سب کے درمیان انتہائی سنگین دھمکیاں تھیں۔
سب سے سامنے نظر آنے والے پوسٹر پر لکھا تھا: ’میں اس گندی عورت کے ہاں جا رہا ہوں۔‘
’میں اس کے گھر میں چھپ کر اس کے تنہا ہونے کا انتظار کرنا چاہتا ہوں، اور پھر اسے پیچھے سے پکڑ کر اس کی خود کو چھڑوانے کی جدوجہد کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔‘
اس واقعے کو تین سال بیت چکے ہیں لیکن 35 سالہ سکول ٹیچر حنّا کے ذہن میں وہ ’گہرا صدمہ‘ آج بھی بالکل تازہ ہے جو انھیں اپنے 33 سالہ پارٹنر کرس وینٹورا کے ساتھ اس ای میل کو کھولنے کے بعد محسوس ہوا تھا۔
حنّا نے چائے کی پیالی پکڑتے ہوئے بتایا کہ ’آپ فوری طور پر انتہائی غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘
ویب سائٹ کے ذریعے کلک کرنے پر کرس کو اپنے قریبی دوستوں کی تصاویر بھی ملی تھیں، ان تصاویر کے ساتھ کم از کم 60 دیگر خواتین کو بھی دکھایا گیا تھا، جن میں سے اکثر سڈنی کی تھیں۔
ان دونوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گيا کہ ان کا ڈیپ فیک بنانے کے لیے خاتون کے سوشل میڈیا کی وہ تصاویر استعمال کی گئی تھیں جو اُن کے اکاؤنٹس پر اپ لوڈ تھیں۔ اور اہم بات یہ تھی کہ یہ سب کوئی ایسا شخص کر رہا تھا جسے وہ سب جانتے تھے۔
اس بات کو جاننے کے لیے کہ وہ شخص کون ہے، حنّا اور کرس نے باورچی خانے کی میز پر گھنٹوں بے چینی میں گزارے تاکہ ان خواتین کی شناخت کریں، ان کے سوشل میڈیا دوستوں کی فہرستوں میں مشترکہ لنک تلاش کریں اور منظم انداز میں شواہد اکھٹے کریں۔
فہرست
چار گھنٹوں کے اندر اُن کے پاس تین ممکنہ مشتبہ افراد کی ایک فہرست تھی۔
اُن میں ان کے یونیورسٹی کے قریبی دوست اینڈریو ہیلر کا بھی نام تھا۔ تینوں کی ملاقات کیمپس کے بار میں کام کے دوران ہوئی تھی، اور وہاں ان میں جلد ہی گہری دوستی ہو گئی تھی۔
وہ اسے ’اینڈی‘ بلاتے تھے اور ایک طرح سے وہ ان کے دوستوں کے گروپ کا مرکزی رُکن تھا۔
حنّا کہتی ہیں کہ وہ بامروت اور ملنسار تھا۔ وہ اس قسم کا آدمی تھا جس نے بار میں خواتین کو تلاش کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اُن کی خواتین دوست رات کو باہر جانے کے بعد بحفاظت گھر پہنچیں۔
وہ سب باقاعدگی سے گھومتے پھرتے، چھٹیوں پر اکٹھے جاتے، ایک دوسرے سے پیار کرتے اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے تھے۔
حنّا کہتی ہیں: ’میں نے اسے ایک بہت ہی قریبی دوست سمجھا۔ ہمیں اس پر یقین تھا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے۔‘
تاہم شواہد اکھٹے کرتے کرتے جلد ہی اس فہرست سے دو نام خارج ہو گئے اور باقی بچ جانے والا نام اینڈی کا ہی تھا۔
خوف اور تاخیر
جب حنّا اگلی صبح بیدار ہوئیں اور پولیس سٹیشن گئیں تو صدمے اور وحشت کے درمیان اُن کے پاس امید کا ایک سرا بھی تھا۔
کرس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے سوچا کہ وہ (پولیس) دوپہر تک اسے پکڑ لیں گے۔‘
مگر اس کے برعکس، حنّا کے مطابق‘ انھیں حقارت ملی۔
وہ نیو ساؤتھ ویلز کے ایک پولیس افسر کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس افسر نے پوچھا کہ انھوں نے اینڈی کے ساتھ ایسا کیا کیا تھا۔ ایک مرحلے پر انھوں نے حنّا سے کہا کہ ’اسے بس رُکنے کے لیے کہیں۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ بعد میں پولیس والوں نے ان کی ایک چست لباس میں تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس میں پیاری لگ رہی ہیں۔‘
بی بی سی نے جب نیو ساؤتھ ویلز پولیس سے رابطہ کیا تو انھوں حنّا کے کیس کی تفصیلات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ جس طرح سے ان کی شکایت کے ساتھ نمٹا گیا اس سے انھیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ’بیکار کی مغز ماری‘ کر رہی ہیں اور اپنا وقت ضائع کر رہی ہیں۔
’اور میرے لیے یہ کافی زندگی بدلنے والا (تجربہ) ثابت ہوا۔‘
مگر اس کے باوجود انھیں اب بھی یقین تھا کہ پولیس اُن کی مدد کرے گی۔
لیکن تاخیر ہوتی رہی اور اسی درمیان انھوں نے آسٹریلیا کے ’ای سیفٹی کمشنر‘ سے رجوع کیا۔ لیکن ایک ریگولیٹری باڈی کے طور پر ان کے اختیارات میں بس اتنا ہی تھا کہ وہ اس جعلی پورن مواد کو اس پیج سے ہٹانے میں مدد کریں۔
خوف اور تنہائی
مایوس جوڑے نے پھر ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور چیزوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ڈیجیٹل فرانزک تجزیہ کار کو مقرر کیا۔
اس دوران خود کو محفوظ رکھنے اور ملزم اینڈی کو اس کی بِھنک لگنے سے بچنے کے لیے حنا نے اپنی آمد و رفت کو محدود کر دیا۔
حنّا کہتی ہیں کہ ’جب آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہوتی ہے تو دنیا آپ کے لیے چھوٹی ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں سے بات نہیں کرتے۔ آپ بالکل باہر نہیں جاتے۔‘
اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو شدید خوف اور تنہائی بھرتی ہے۔
اس جوڑے نے اپنے گھر کے چاروں طرف کیمرے نصب کیے اور حنّا کے ڈیجیٹل آلات پر لوکیشن ٹریکنگ سیٹ کی۔ انھوں نے 24/7 ہیلتھ واچ پہننا شروع کر دیی تاکہ انھیں معلوم ہو کہ آیا کسی کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی ہے، یا رُک گئی ہے۔
حنّا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے کمرے کی کھڑکیاں کھولنا بند کر دیا کیونکہ میں ڈر گئی تھی۔۔۔ مجھے لگتا تھا کہ کھڑکی سے کوئی اندر نہ آ جائے۔‘
’ہم دونوں اپنے بیڈ کے کناروں پر چاقو رکھ کر سوتے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آگے کیا ہو گا؟‘
ڈیپ فیکنیا جاسوس مقرر
اس جوڑے کو اندر ہی اندر ناکردہ احساس جرم کھا رہا تھا۔ حنّا کہتی ہیں کہ 'ہماری اس بارے میں مسلسل لڑائی ہوتی رہتی کہ آیا پولیس کو مزید تفصیلات فراہم نہ کرنا درست تھا۔‘
ایک موقع پر پولیس کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ اس کیس پر تفتیش معطل کر دی گئی ہے جس کے بعد حنّا اور کرس نے تفصیلی فرانزک رپورٹ کے لیے مزید رقم جمع کی اور پولیس واچ ڈاگ کو باضابطہ شکایت کرنے کی دھمکی دی۔ انھوں نے اپنی حفاظت اور اینڈی کو روکنے کی کوشش میں 20 ہزار آسٹریلین ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی۔
آخر کار اس کیس کی تفتیش کے لیے ایک نیا سرکاری جاسوس مقرر کیا گیا اور دو ہفتوں کے اندر پولیس نے اینڈی کے گھر پر چھاپہ مارا جس کے بعد ہونے والی ابتدائی تفتیش میں اینڈی نے سب کچھ قبول کر لیا۔
راحت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ حنا نے یہ خبر سُنانے کے لیے اپنے دوستوں کو فون کرنا شروع کیا۔
جیسیکا سٹورٹ کو جب معلوم ہوا کہ اینڈی نے اُن کی تصاویر کے ساتھ کیا کیا تھا تو انھوں نے کہا کہ وہ حیران رہ گئیں۔
سب کے لیے افسوس کی بات تو یہ تھی اس جرم کے پس پشت ایک دوست تھا جس سے وہ کسی اپنے پیارے اور خاندان کے رُکن کی طرح پیار کرتی تھیں۔
’اینڈی کی دوہری شخصیت کے بارے میں یقین کرنا واقعی مشکل تھا۔‘
ایک تاریخی کیس
آسٹریلیا کے لیے یہ نیا کیس تھا۔
کم از کم گذشتہ ایک دہائی سے ماہرین خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کا فروغ جرائم کی نئی لہر کا باعث بنے گا۔
سنہ 2022 میں جس وقت اینڈی کو گرفتار کیا گیا اس وقت تک نیو ساؤتھ ویلز یا آسٹریلیا میں کہیں بھی ڈیپ فیک پورنوگرافی بنانے یا شیئر کرنے کا کوئی جرم سامنے نہیں آیا تھا۔
حنّا کہتی ہیں کہ ’ہم عدالت جانے اور اسے تھپڑ مارنے کے لیے تیار تھے۔‘
لیکن پھر انھوں نے اور 25 دیگر خواتین نے اس کیس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور اینڈی کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ ایک کے بعد ایک، کئی متاثرین نے گذشتہ سال اس کی سزا کی سماعت کے موقع پر چشم کشا بیانات دیے۔
جیس نامی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ ’اینڈی نے صرف دوستی میں دھوکہ نہیں دیا، بلکہ اس نے تحفظ کے احساس کو توڑا۔ اب دنیا غیر مانوس اور خطرناک محسوس ہوتی ہے، میں مسلسل بے چین رہتی ہوں، جب میں سونے جاتی ہوں تو مجھے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘
’نئی دوستیاں بنانا ناممکن محسوس ہوتا ہے، مسلسل پیدا ہونے والے سوالات سے ذہن بوجھل رہتا ہے کہ کیا یہ شخص بھی اس جیسا ہو سکتا ہے؟‘
نفسیاتی سکون
جب اینڈی کے لیے ان خواتین سے معافی مانگنے کا وقت آیا جن کو انھوں نے نشانہ بنایا تھا تو اس دوران جیس اور حنّا کو کمرے میں موجود رہنا برداشت نہیں ہوا اور وہ باہر نکل گئیں۔
حنّا کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی وضاحت نہیں تھی جو وہ مجھے دے پاتا۔ اور میں چاہتی تھی کہ وہ یہ جان لے۔‘
اینڈی نے عدالت کو بتایا کہ تصاویر بنانے سے اس کی نفسیات کے ’ڈارک‘ حصے کو ’ایک آؤٹ لیٹ‘ فراہم کرنا تھا اور ایسا کر کے وہ ’بااختیار‘ محسوس کرتا تھا لیکن اسے نہیں لگتا تھا کہ اس سے حقیقی نقصان ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے واقعی ایک خوفناک کام کیا ہے اور مجھے بہت افسوس ہے۔‘
جج جین کلور اس کی جانب سے پچھتاوے کے اس اظہار پر مطمئن نہیں ہوئے اور اینڈی کو نو سال قید کی سزا سنائی گئی اور اس فیصلے کو آسٹریلیا میں ایک تاریخی فیصلہ کہا گیا۔
جیس کا کہنا ہے کہ ’اس پورے کیس کے دوران سزا سنائے جانے کا عمل کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہمیں حقیقت میں سنا گیا ہے۔‘
اینڈی دسمبر 2029 میں پیرول پر رہائی کے اہل ہو جائیں گے۔
آسٹریلیا نے حال ہی میں قومی سطح پر ڈیپ فیک پورنوگرافی کی تخلیق اور اسے شیئر کرنے کو جرم قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے ممالک میں اس ضمن میں خامیوں سے بھرپور قوانین موجود ہیں جن میں دراصل ڈیپ فیک پورنوگرافی کو واضح انداز میں جرم قرار نہیں دیا گيا ہے۔