ایک لڑکی، جسے اُردو بولنی ہی نہیں آتی تھی، جس کا لہجہ اور چہرہ ایک خاص علاقے کی پہچان تھا اور جسے صرف بنگالی زبان کی فلموں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا، پاکستان میں اُردو فلموں کی سب سے بڑی ہیروئن بن جائے گی، شاید ہی کسی نے سوچا تھا۔
شبنم کی اداکار ندیم کے ساتھ جوڑی ایسی ہٹ ہوئی کہ دونوں کے نام فلموں کی کامیابی کے لیے لازم و ملزوم بن گئےایک لڑکی، جسے اُردو بولنی ہی نہیں آتی تھی، جس کا لہجہ اور چہرہ ایک خاص علاقے کی پہچان تھا اور جسے صرف بنگالی زبان کی فلموں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا، پاکستان میں اُردو فلموں کی سب سے بڑی ہیروئن بن جائے گی، شاید ہی کسی نے سوچا تھا۔
بات ہو رہی ہے شبنم کی، جنھوں نے مشرقی پاکستان سے تعلق ہونے کے باوجود نہ صرف پاکستان کی سب سے معروف اداکارہ بن کر دکھایا بلکہ تین دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج بھی کیا۔ 1990 کی دہائی میں پاکستان کی فلمی دنیا کو خیرباد کہنے کے باوجود آج بھی لوگ اُن کے انداز کے دیوانے اور اُن پر فلمائے گئے گانوں پر جھومتے نظر آتے ہیں۔
شبنم پاک و ہند کی واحد اداکارہ ہیں جنھوں نے مسلسل 30 برس تک فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ اپنے 40 سالہ فلمی کریئر میں انھوں نے 200 کے قریب فلموں میں کام کیا اور اس دوران انھیں 13 مرتبہ نگار ایوارڈ اور تین مرتبہ نیشنل ایوارڈ بھی ملے۔
قیامِ پاکستان سے قبل اگست 1946 میں اُس وقت بنگال کے ایک ہندو خاندان میں آنکھ کھولنے والی اس اداکارہ کا اصل نام جھرنا باسک تھا۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1960 میں بنگلہ فلم ’راجدھانیر بوکے‘ سے کیا تھا جسے کیپٹن احتشام نے بنایا تھا۔
ایک رقاصہ کا کردار ادا کرنے والی ایکسٹرا میں جانے احتشام نے کیا دیکھا کہ اگلے سال اپنی بنگالی فلم ’ہرانو دِن‘ میں شبنم کا نام دے کر ہیروئن اور اس سے اگلے سال مشرقی پاکستان کی پہلی اُردو فلم ’چندا‘ (1962) میں مرکزی کردار میں لے لیا۔
’چندا‘ میں ہیروئن تو سلطانہ زمان تھیں لیکن فلم بینوں کے دماغ پر بھولی بھالی شبنم چھا گئیں۔ ان سب فلموں کے ہیرو رحمان تھے اور موسیقی روبن گھوش نے دی تھی۔ سنہ 1963 میں شبنم، رحمان اور روبن گھوش کی ٹیم نے فلم ’تلاش‘ کو ہٹ بنایا اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شبنماور روبن گھوش کی قربت کا آغاز ہو چکا تھا اور چند برس بعد دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اُن کا یہ رشتہ 50 سال سے زیادہ عرصے تک قائم رہا اور 13 فروری 2016 کو گھوش کی وفات تک قائم رہا۔
ڈھاکہ سے بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے شبنم نے بتایا ’چندا سے پہلے ہی ہمارا رومانس شروع ہو گیا تھا، مگر مجھ پر کچھ ذمہ داریاں تھیں۔ میرے والد ایک ٹیچر اور فٹبال کے ریفری تھے، انھوں نے میری بہت اچھی تربیت کی تھی۔ بحیثیت اولاد میری ذمہ داری تھی کہ میں اپنے والدین کے لیے اچھی زندگی کا انتظام کرتی، تو اس بارے میں میں نے روبن صاحب کو آگاہ کر دیا تھا۔ میں نے تب ہی شادی کی، جب اپنے والدین کے رہنے کے لیے ایک گھر بنا لیا۔‘
مشرقی پاکستان کی شبنم
شبنم نے اپنے کریئر کا آغاز 1960 میں بنگلہ فلم ’راجدھانیر بوکے‘ سے کیا تھافلم ’تلاش‘ کے بعد سنہ 1964 میں ’پیسے‘ اور ’کاروان‘ریلیز ہوئی۔ ’کاروان‘ بیرونِ ملک بننے والی پہلی فلم تھی جس کی شوٹنگ نیپال میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد آئی سنہ 1965 میں ہارون اور رانی کے ساتھ ’آخری سٹیشن‘، شاعر اور کہانی نویس سرور بارہ بنکوی کی بحیثیت ہدایت کار پہلی فلم۔
ہاجرہ مسرور کے ناول ’پگلی‘ سے ماخوذ اس فلم میں شبنم کا ’ٹائٹل‘ رول تو تھا مگر مکالمے نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کے باوجود یہ کردار اتنا جاندار تھا کہ مغربی پاکستان کی کوئی ہیروئن اُن کے مدمقابل اداکاری کرنے سے گھبرا رہی تھی۔ بالآخر، مغربی پاکستان سے شبنم کے ہی اصرار پر رانی کو بلایا گیا، جنھوں نے فلم میں ہیروئن کا رول ادا کیا۔
سرور بارہ بنکوی کو یاد کرتے ہوئے شبنم کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے اُردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتی تھی، سرور صاحب صبح اپنے گھر بلاتے اور اپنے بچوں سے جیسی تیسی اردو میں بات کرنے کو کہتے تھے۔ میں ان کی بڑی بیٹی ایمن کے ساتھ الٹی پلٹی طرح بات کرتی تھی، جس سے میرا اعتماد بحال ہوا۔ بھابھی نے مجھے اردو پڑھنا اور بچوں سے اردو بولنا سکھائی۔‘
مشرق سے مغرب تک کا سفر
شبنم کی اُردو زبان سے واقفیت بڑھ رہی تھی اور دوسری طرف اُن کی شہرت اور ساتھ ہی ساتھ مغربی پاکستان سے مسلسل بلاوے آ رہے تھے۔
ڈائریکٹر و پروڈیوسر سعید فضلی اور نگار اخبار کے الیاس رشیدی نے شبنم کو یہاں آ کر فلموں میں کام کرنے کا کہا جو بالآخر انھوں نے قبول کر لیا۔ سنہ 1967 میں شبنمنے ڈائریکٹر رفیق رضوی کی ہدایت میں ’چاکلیٹی ہیرو‘ وحید مراد کے ساتھ ’انجانے راستےمیں کام شروع کیا۔
یہ فلم تو ادھوری رہ گئی لیکن وحید مراد، کراچی میں ’سمندر‘ بنا رہے تھے اور انھوں نے اس بنگالی ساحرہ کو کاسٹ کر لیا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی سیاست پر بننے والی فلم ’سمندر‘ شبنم کی کمزور اُردو اور مشرقی پاکستان کے سٹائل کی ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے متوسط بزنس کر سکی۔
اُدھر شبنم کچھ بولنا شروع کرتیں اور سنیما میں لوگ ہنسنے لگتے۔ کسی اور کا اتنا مذاق اڑا ہوتا تو وہ اگلی پرواز سے واپس چلا جاتا، مگر شبنم نے اسے ایک چیلنج سمجھا اور اس میں ان کا ساتھ دیا ڈائریکٹر پروڈیوسر سعید فضلی نے۔
شنبم اور روبن گھوش کی شادی 50 برس سے زیادہ عرصے تک چلی’مروا دیا نہ شبنم کو لے کر‘
مشہور فلمساز ادارے ’دبستان محدود‘ کے روحِ رواں فضل کریم فضلی کے صاحبزادے سعید فضلی، پروڈیوسر راشد مختار، ڈائریکٹر فرید احمد کے ساتھ فلم ’عندلیب‘ کے پیپر ورک میں مصروف تھے اور انھوں نے شبنم کو اس فلم کے لیے بحیثیت ہیروئن سائن کروا لیا۔
سنہ 2023 میں اپنی وفات سے چند برس قبل لاس اینجلس میں مجھ سے ایک گفتگو میں انھوں نے یہ کہانی سنائی۔
سعید فضلی کے مطابق ’فلم سمندر کی سکریننگ کے وقت، شبنم پر ہوٹنگ ہو رہی تھی۔ راشد مختار (عندلیب کے پروڈیوسر) کے چند دوستوں نے فلم دیکھی اور انھیں سنیما کا احوال بتایا اور راشد مختار نے، جو اپنی فلم کے ٹائٹل رول کے لیے شبنم کو سائن کر چکے تھے، مجھے کہا کہ ’مروا دیا نہ شبنم کو لے کر‘۔ میں نے دماغ لڑایا اور کوئی حل دھونڈنا شروع کیا۔ ایسے میں مجھے کوکب افضل کا خیال آیا، جو اپنے شوہر کے ہمراہ کبھی کبھی میرے پاس کام کے غرض سے آتی تھیں۔ اُن کی عمر شبنم سے زیادہ تھی مگر آواز کافی ملتی ہوئی تھی۔ ان کی زبان سے ’مے آئی کم اِن سر‘ سُن کر مجھے لگتا تھا کہ شبنم آئی ہیں۔‘
’میں نے مشورہ دیا کہ شبنم کی آواز کو کوکب سے ڈب کر دو، کیونکہ اچھا تلفظ اور ملتی ہوئی آواز سے کام بن سکتا ہے۔ سب مان گئے مگر پروڈیوسر، ڈائریکٹر میں سے کسی میں شبنم سے بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ میں نے شاہ نور سٹوڈیوز کے میک اپ روم میں شبنم اور روبن گھوش کو ڈھونڈا اور ’مسئلے‘ کا حل پیش کیا۔‘
روبن گھوش تو شبنم کو قائل کر چکے تھے کہ ان کی اہلیہ کا مغربی پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں، لیکن شبنم کو لگا کہ سعید فضلی کی بات میں دم ہے کہ ’ایک بار چہرہ عوام قبول کر لے تو آواز اور لہجہ خود ہی پسند آ جائے گا۔‘
کامیابی اور سقوط ڈھاکہ
ہوا بھی کچھ یہی۔ عندلیب کی شاندار کامیابی کے بعد شبنم کو مغربی پاکستان کے فلمسازوںنے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ عندلیب اگست 1969 میں ریلیز ہوئی اور اس کے کچھ عرصے بعد ریاض شاہد کی ’زرقا‘جو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی۔
شبنم، جنھیں خطروں سے کھیلنے کا شاید شوق تھا، ہمیشہ بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جب مجھے پہلی بار معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا تو میں نے دل میں ٹھان لیا کہ بہترین ہیروئن کا ایوارڈ لوں گی۔۔۔ جب وہ مل گیا تو کوشش رہی کے بار بار ملے، وہ بھی ملتا رہا۔‘
ممکن ہے اسی لیے ’زرقا‘ کی کامیابی دیکھ کر ان کے دل میں بھی ڈائمنڈ جوبلی فلم دینے کا خواب جاگا ہو۔ اسی لیے شریف نیّر کی دوستی (1971) شبنم کی اداکاری کی وجہ سے پاکستان کی دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم بنی۔
اس فلم کے ایک مہینے بعد ہی مشرق اور مغرب میں کشیدگی بڑھ گئی اور سنہ 1971 کے آخر میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس تقسیم کے بعد ایک سے دو برسوں میں اداکارہ نسیمہ خان، گلوکارہ رونا لیلیٰ اور شہناز بیگم جیسے فنکار بنگلہ دیش واپس چلے گئے مگر شبنم نے یہاں رُکنے کا فیصلہ کیا۔
ڈھاکہ میں جب حالات بگڑے تو شبنم کی لاہور میں چار فلمیں فلور پر تھیں۔ ایک پروفیشنل اداکارہ کے ناطے انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ فلمیں مکمل کروا کر ہی واپس جائیں گی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا، کہ اب تک شبنم، جس کامیابی سے دور تھیں، پاکستان میں رکنے کے بعد، ایسی ہٹ ہوئیں کہ پھر واپس نہ جا سکیں۔
نصف سنچری، ندیم کے ساتھ
شبنم نے اپنے کریئر کا آغاز تو رحمان کے ساتھ کیا اور 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کے اوائل میں کمال اور وحید مراد کے ساتھ کافی فلموں میں آئیں۔ یہی نہیں بلکہ محمد علی کے ساتھ انھوں نے لگ بھگ 20 سال میں 25 کے قریب فلمیں کیں، لیکن ان کی جوڑی اداکار ندیم کے ساتھ ایسی ہٹ ہوئی کہ دونوں کے نام لازم و ملزوم بن گئے۔
ندیمنے بھی شبنم کی طرح اپنے فلمی کرئیر کا آغاز مشرقی پاکستان سے ہی کیا تھا بلکہ انھیں متعارف کرانے کا سہرا بھی کیپٹن احتشام کے سر ہی تھا، جو بعد میں اُن کے سسر بھی بنے۔
ندیم اور شبنم کی سپر ہٹ جوڑی نے سنہ 1968 سے سنہ 1997 تک 50 فلموں میں ساتھ کام کیا۔ ان دونوں کی پہلی فلم ’تم میرے ہو‘ جبکہ آخری فلم ’اولاد کی قسم‘ تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ اُن کا نام اور کام معیاری فلم کی ضمانت بن گیا تھا۔ ڈائریکٹر پرویز ملک ہوں یا سلیمان، کے خورشید ہوں، جاوید فاضل یا پھر نذرالاسلام، اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ اور انتظار، بھول، آئینہ، بندش، گمنام، پاکیزہ، آہٹ، فیصلہ، سب کی سب عوام نے پسند کیں۔
شبنم کے ساتھ کام کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ندیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے شروع میں دیبا کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا اور بعد میں بابرا کے ساتھ لیکن شبنم کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ پسند کی گئی۔
’میں نے جب ڈھاکہ کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا، تو شبنم کی روبن گھوش سے شادی ہو چکی تھی اور وہ فلموں میں کام نہیں کر رہی تھیں۔ انھوں نے میری فلمیں ہٹ ہونے کے بعد میرے ساتھ کام کیا۔ ان کے ساتھ میری پہلی فلم سرور باروبنکوی کی ’تم میرے ہو‘ تھی۔ اس کے بعد اتفاق سے جب بھی ہم نے ساتھ کام کیا، لوگوں کو پسند آیا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں ہماری فلمیں ہٹ ہوتی چلی گئیں اور یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔‘
ندیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’وہ مجھ سے پہلے میری بیوی کی دوست تھیں کیونکہ میرے سسر احتشام صاحب نے چندا سے انھیں متعارف کرایا تھا۔ وہ تو ہماری فیملی ممبر کی طرح سے ہیں۔‘
بالی وڈ میں کام کی پیشکش
ندیم اور شبنم کی کئی فلمیں انڈیا میں بھی نقل کی گئیں جن میں پہچان (1975)، آئینہ (1977)، قربانی (1981)، دہلیز (1983) اور فیصلہ (1986) قابلِ ذکر ہیں لیکن ان چربہ فلموں میں کام کرنے والی ہیروئنز کا کام شبنم کی پرفارمنس کے عشرِ عشیر بھی نہ تھا۔
1970 کی دہائی کے آخر میں انڈین فلمیں کینیڈا میں بننا شروع ہو گئی تھیں۔ پاکستانی اداکار ندیم اور سابق مشرقی پاکستان کی بوبیتا (دونوں 1970 کی فلم ’جلتے سورج کے نیچے‘ میں لیڈ پئیر بھی تھے) بالی وڈ کی فلم دور دیش (1984) میں ششی کپور، راج ببر، شرمیلا ٹیگور اور پروین بابی کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ شبنم کو بھی ایسی ایک فلم میں کام کی پیشکش ہوئی تھی۔
بی بی سی اردو کو یہ کہانی انھوں نے کچھ ایسے سنائی۔ ’مجھے امیتابھ بچن، ششی کپور اور راکھی کے ہمراہ ایک فلم کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ 1980 کی دہائی کی بات ہے۔ پروڈیوسر صاحب کینیڈا میں شوٹنگ کرنے کے لیے تیار تھے اور چاہتے تھے کہ میں کام کروں۔ ہماری ملاقات بھی باہر ہی ہوئی تھی، میں نے ان سے اپنے کردار کی تفصیلات مانگیں تو انھوں نے کہا کہ آپ حامی تو بھریں، تب کردار لکھواؤں گا۔ انھیں ’آئینہ‘ بہت پسند تھی اور وہ پاکستان سے صرف مجھے اور روبن صاحب کو سائن کرنا چاہتے تھے۔ میں نے بنا سکرپٹ دیکھے حامی بھر لی مگر پھر ان سے دوبارہ رابطہ نہ ہوا۔‘
نوجوان اداکاروں کے ساتھ شبنم کا برتاؤ
شبنم جب پاکستان سے 1990 کے اواخر میں بنگلہ دیش گئیں، تو کسی بھی فلم کا ان کا ایک بھی شاٹ باقی نہیں تھاایک ایسی ہیروئن جو دس بارہ سال سے مرکزی کردار کر رہی ہو، بلاک بسٹر فلموں کی ضمانت ہو، ایوارڈز کی گھر پر لائن لگی ہو اور پروڈیوسر اس کے ایک اشارے پر کاسٹ بدلنے پر راضی ہوں، نئے ٹیلنٹ کو آسانی سے کچل کر رکھ سکتی ہے، مگر شبنم نے ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کی۔
1974/75 کا دور تھا جب پاکستانی فلموں میں دو نئے ہیروز غلام محی الدین اور جاوید شیخ وارد ہوئے۔ جاسوسی ناولوں کے مشہور مصنف ابن صفی نے اپنی پہلی اور آخری فلم 1974 میں ’دھماکہ‘ کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم میں جاوید شیخ، مولانا ہپی اور شبنم مرکزی کرداروں میں تھے۔ شبنم کے پہلے ہیرو رحمان، یہاں ولن تھے۔ یہ فلم ریلیز کے بعد باکس آفس پر کوئی دھماکہ نہ کر سکی اور جاوید شیخ پر فلم انڈسٹری کے دروازے اگلے آٹھ سال تک بند ہی رہے۔
جاوید شیخ نے بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شبنم ان کی محسنوں میں سے ہیں۔ ’میری پہلی فلم دھماکہ فلاپ ہوئی تو میں فلموں سے دور ہو گیا۔ 1981 میں مجھے شفیع محمد، شبنم کے ساتھ فلم ’بیوی ہو تو ایسی‘ میں کاسٹ کیا گیا، مگر ڈسٹربیوٹرز کے تنازع کی وجہ سے مجھے فلم سے الگ کر دیا گیا، تاہم ’ان کہی‘ 1982 کے بعد، میں نے شبنم کے ساتھ ’کبھی الوداع نہ کہنا‘ کی۔‘
’پھر شادی مگر آدھی (1984)، لازوال (1984)، تیرے گھر کے سامنے (1984)، بے نظیر قربانی (1985)، فیصلہ (1986)، شادی میرے شوہر کی (1986) جیسی کافی فلموں میں ان کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے ہمیشہ ہی میرا ساتھ دیا اور میرے ساتھ کام اُس وقت کیا، جب کوئی نہیں کر رہا تھا۔ میں ان کا ہمیشہ احسان مند رہوں گا۔ بحیثیت خاتون وہ ایک بہت پیار کرنے والی شخصیت ہیں اور بحیثیت پروفیشنل، وقت کی پابند، ہمیشہ پہلے سے تیار اور سب سے ہنس کے ملنا ان کی عادت تھی۔'
شبنم کے پروفیشنلزم کے حوالے سے کم و بیش یہی خیالات ’میرا نام ہے محبت‘ سے کریئر کا آغاز کرنے والے غلام محی الدین کے بھی ہیں۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’شبنم سے میری پہلی ملاقات ایس سلیمان کی فلم ’اناڑی‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی جو میری دوسری فلم تھی۔‘
’اُن کے ساتھ پہلا لیڈ رول میں نے ’موم کی گڑیا‘ میں کیا، اگلے سال۔ سلیمان صاحب کی آج اور کل (1976)، پرویز ملک کی انتخاب (1977)، شباب کیرانوی کی سہیلی (1978) اور جمشید نقوی کی پیاری (1980)میں بھی ان کے ساتھ اداکاری کا موقع ملا۔ میں نے ایک فلم آندھی اور طوفان (1984) پروڈیوس کی تھی، اس میں وہ میری ہیروئن تھیں۔‘
’کبھی ان کا کسی کے ساتھ بھی جھگڑا نہیں ہوا، جبکہ فلموں میں یہ ایک عام سی بات ہے۔ شبنم اپنے وقت کی پابند تھیں۔ سینز کو پہلے دیکھنا اور سمجھنا، ہم نے ان سے سیکھا۔ انھوں نے کبھی نہیں جتایا کہ وہ مجھ سے سینیئر ہیں۔ وہ سب کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتی تھیں۔ انھوں نے اور روبن صاحب نے کمال کام کیا۔‘
شبنم سے جب پوچھا گیا کہ انھیں شفیع محمد، جاوید شیخ، غلام محی الدین، راحت کاظمی، شاہد، طلعت اقبال جیسے نئے اداکاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے دشواری ہوئی تو ان کا جواب تھا کہ ’عمر کیا ہے، ایک نمبر ہی تو ہے۔ اگر آپ اپنے کیریکٹر کو سمجھ گئے ہیں، تو بڑا یا چھوٹا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اداکار جن کے آپ نے نام لیے، یہ بھی تو کام کر کے ہی آ رہے تھے۔ میں نے کبھی پروڈیوسر سے نہیں کہا کہ اس کو رکھو یا نکال دو، یہ طریقہ ہی غلط ہے۔ ’نہیں ابھی نہیں‘ (1980) میں تو میں نے فیصل کے ساتھ بھی کام کیا، جو میرے بیٹے کی عمر کا تھا۔ میں نے بیٹا سمجھ کر ہی کام کیا اور فلم لوگوں کو آج تک یاد ہے۔‘
شبنم کی بنگلہ دیش واپسی
1980 کی دہائی کے آخر میں شبنم کے اپنے والدین سے ملنے کے لیے ڈھاکہ کا رُخ کیا تو انھیں اپنے والدین کے لیے بنایا ہوا گھر کوئی گھر نہیں بس ایک گارے اور اینٹوں کا مکان لگا۔ اس مکان میں والدین تو تھے، مگر گھر والی کوئی بات نہیں تھی۔
والد پر فالج کے حملے کے بعد ہی شبنم نے فیصلہ کیا کہ اپنی ساری فلمیں دھیرے دھیرے نمٹا کر والدین کی خدمت میں وقت گزاریں گی اور پھر سب نے دیکھا کہ شبنم جب پاکستان سے 1990 کے اواخر میں بنگلہ دیش گئیں تو کسی بھی فلم کا ان کا ایک بھی شاٹ باقی نہیں تھا۔
یہ وہی دور تھا جب پاکستان میں ٹی وی پر پاکستانی فلمیں نشر ہونا شروع ہوئی تھیں اور 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے مشہور اداکار، نئی نسل میں بھی مقبول ہونا شروع ہو گئے تھے سو شبنم نظروں سے دور تھیں، مگر عوام کے دلوں میں زندہ رہیں۔
اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ 14 برس بعد جب وہ اپنے شوہر موسیقار روبن گھوش کے ہمراہ سنہ 2012 میں پاکستان آئیں تو عوام نے انھیں ویسے ہی چاہا، جیسے پہلے چاہا کرتے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کی فنی خدمات کے صلے میں انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔
پانچ برس بعد 2017 میں شبنم کراچی لٹریچر فیسٹیول کے سلسلے میں پاکستان آئیں اور پھر 2019 میں لکس سٹائل ایوارڈز میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ لینے کے لیے انھوں نے یہاں کا رُخ کیا۔ سنہ 2024 میں صدرِ پاکستان کی جانب سے شبنم کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جو سرکاری سطح پر ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔
ایک انٹرویو میں شبنم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستان سے جانے کے بعد انھیں لاہور کے لوگ بہت یاد آتے تھےشبنم اور پاکستانی مداح
اسی دوران 2018 میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب تحریکِ انصاف میں ایک سیاسی شخصیت کی شمولیت نے شبنم کو ایک بار پھر خبروں کا مرکز بنا دیا۔ مئی 2018 میں عمران خان نے خوشاب سے فاروق بندیال کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور بنی گالہ میں ان دونوں کی تصویر کیا سامنے آئی سوشل میڈیا پر ایسا ہنگامہ مچا کہ صرف چند گھنٹے بعد ہی فاروق بندیال کو جماعت سے نکالدیا گیا اور پی ٹی آئی کے نعیم الحق اور فواد چوہدری نے اسے سنگین ’غلطی‘ قرار دے کر معافی مانگی۔
فاروق بندیال وہ شخص تھے جنھیں 40 برس قبل شبنم کی رہائش گاہ پر ڈکیتی اور ان کے اکلوتے بیٹے ’رونی‘ کو اغوا کرنے کی کوشش کا الزام لگا تھا۔ اس ڈکیتی کی واردات نے ملک بھر میں طوفان مچا دیا تھا اور شبنم نے اس واقعے کے بعد ملک چھوڑنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔
یہ مارشل لا کا دور تھا اور جنرل ضیاالحق کی حکومت۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری شبنم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور نامور وکیل اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر شبنم کی درخواست پر فوجی عدالت میں چلنے والے مقدمے میں سپیشل پراسیکیوٹر بنے۔
اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ مقدمہ چلا، شبنم نے ملزمان کی شناخت کی اور پانچ مجرمان کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا لیکن پھر ایس ایم ظفر نے خود جنرل ضیا الحق کے نام ایک خط لکھا اور رحم کی درخواست کی جس کے بعد اس سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔
ایس ایم ظفر نے بعد میں ایک اخبار میں کالم لکھا جس میں انھوں نے وضاحت کی کہ یہ درخواست انھوں نے اس لیے لکھی تھی کیونکہ وہ سزائے موت کے اصولی مخالف تھے اور اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں انھوں نے لکھا کہ جب انھوں نے شبنم اور روبن گھوش سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے بھی کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ملزمان کو اتنی زیادہ سزا ہو کہ معاملہ دشمنی میں بدل جائے۔‘
رحم کی اپیلوں کے نتیجے میں فاروق بندیال سزائے موت سے تو بچ گئے لیکن انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ شبنم کے مداح پاکستانی عوام دہائیوں بعد بھی اس واقعے کو نہیں بھولیں گے۔