انسانی سمگلر اپنے شکار کو یورپ پہنچانے کا جھانسہ دے کر پہلے لیبیا کیوں بھیجتے ہیں؟

شمالی افریقہ کا ملک لیبیا اُن تارکین وطن کے لیے ایک اہم گزرگاہ ہے جو بحیرۂ روم کے مرکزی روٹ کا استعمال کرتے ہوئے مشرقی یورپ میں اٹلی یا یونان کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر خطرناک راستہ ہونے کے باوجود غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کے لیے تارکین وطن لیبیا کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟
2016 میں لیبیا کے ساحل کے قریب کشتی الٹنے کا واقعہ
Reuters
2016 میں لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی کشتی الٹنے کا واقعہ

لیبیا کے شہر زاویہ کی بندرگاہ کے قریب 65 مسافروں کو لے جانے والی ایک کشتی ڈوب گئی ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس کشتی پر پاکستانی تارکین وطن بھی سوار تھے۔

گذشتہ ایک سال کے دوران لیبیا سے روانہ ہونے والی تارکین وطن کی متعدد کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں درجنوں پاکستانیوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔

پاکستان سمیت کئی ملکوں سے نوجوان غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے لیے جن خطرناک راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، ان میں لیبیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جنوری 2025 میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اپنی ٹریول ایڈوائزری میں نشاندہی کی تھی کہ لیبیا اُن 15 ٹرانزٹ ملکوں میں شامل ہے جو انسانی سمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

ایف آئی اے کی فہرست میں لیبیا کے علاوہ سعودی عرب، مصر اور ترکی بھی شامل ہیں۔ پاکستانی ایئرپورٹس کو غیر قانونی سمگلنگ روکنے کے لیے یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اِن ملکوں میں جانے والے مسافروں کی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جائے جن میں ویزا، ریٹرن ٹکٹس اور ہوٹل بُکنگ وغیرہ شامل ہیں۔

شمالی افریقہ کا ملک لیبیا اُن تارکین وطن کے لیے ایک اہم منزل ہے جو بحیرۂ روم کے مرکزی روٹ کا استعمال کرتے ہوئے مشرقی یورپ میں اٹلی یا یونان کے ساحلوں تک غیرقانونی طور پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس روٹ میں تیونس، مصر اور الجزائر دیگر آپشنز ہیں لیکن عدم استحکام کا شکار لیبیا کئی پناہ گزینوں کے لیے زیادہ پُرکشش ہے۔

دوسری طرف بحیرۂ روم کے مغربی روٹ کے ذریعے تارکین وطن سپین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں یا مشرقی زمینی روٹ کے ذریعے جنوب مشرقی یورپ کے بلقان خطے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق گذشتہ دہائی کے دوران یورپی یونین کی سختیوں کے باعث مغربی روٹ کے استعمال میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے جبکہ لیبیا سے گزرنے والے مرکزی روٹ پر ٹریفک ڈرامائی طور پر بڑھی ہے۔

یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق سنہ 2024 کے دوران اگرچہ تیونس اور لیبیا سے پناہ گزین کی روانگی میں کمی آئی ہے تاہم سینٹرل روٹ سے قریب 67 ہزار کراسنگز ہوئیں جو اسے غیرقانونی تارکین وطن کے گزرنے کا دوسرا سب سے زیادہ فعال راستہ بناتی ہیں۔

بی بی سی نے پاکستانی شہریوں کی بحیرۂ روم کے سنٹرل روٹ کے ذریعے یورپ جانے کی کوششوں پر ایف آئی اے کو سوالات بھیجے ہیں اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انھیں روکنے کے لیے پاکستانی حکام کیا اقدامات کر رہے ہیں۔

خطرناک راستہ

بحیرۂ روم کا مرکزی روٹ پناہ گزینوں کے لیے کس قدر خطرناک ہے، اس بات کا اندازہ ہر سال ہونے والی سینکڑوں اموات سے لگایا جا سکتا ہے۔ یو این ریفیوجی ایجنسی کے مطابق جنوری سے جولائی 2018 کے دوران سینٹرل روٹ استعمال کرنے والے ہر 18 میں سے ایک شخص کی موت ہوئی یا وہ لاپتہ ہو گیا۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سنہ 2023 کے دوران سینٹرل روٹ استعمال کرنے والے 1800 افراد کی ہلاکت ہوئی یا وہ لاپتہ ہو گئے۔ اس راستے سے سنہ 2023 میں تارکین وطن کی سمگلنگ کی فنانشل ویلیو کا تخمینہ 29 سے 37 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم (یو این او ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 کے دوران شمالی افریقہ کے ساحلوں سے یورپ جانے کے لیے 254422 تارکین وطن روانہ ہوئے مگر صرف قریب 151000 افراد جنوبی یورپ پہنچ سکے۔

لیبیا، سنٹرل روٹ، بحیرۂ روم
Getty Images

یو این او ڈی سی کی آبزرویٹری آن سمگلنگ آف مائیگرنٹس کے مطابق بحیرۂ روم کا مرکزی روٹ استعمال کرنے والے اکثریتی افراد لیبیا سے روانہ ہوئے تھے اور انھیں غیر قانونی طور پر یورپ سمگل کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق لیبیا میں مختلف ممالک کی شہریت کے حامل پناہ گزینوں سے سمگلر یورپ پہنچانے کے لیے 850 سے 4500 ڈالر تک کی فیس موصول کرتے ہیں۔

آبزرویٹری کا اندازہ ہے کہ انسانی سمگلنگ کے واقعات سے متاثرہ افراد اور اُن کی جانب سے ادا کردہ رقوم سے معلوم ہوتا ہے کہ 2023 میں لیبیا سے سمندری راستے کے ذریعے جنوبی یورپ پہنچنے کا مارکیٹ سائز 15 سے 18 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔

یورپ پہنچنے کے لیے تارکین وطن لیبیا کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟

ماضی میں کشتی حادثے کے متاثرین کے اہل خانہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پیارے ایجنٹس کی مدد سے دبئی بذریعہ فلائٹ روانہ ہوئے تھے اور انھوں نے کسی افریقی ملک جیسے مصر یا لیبیا کا ویزہ لے کر اٹلی پہنچنے کی کوشش کی تھی۔

ایک طویل عرصے تک افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے بڑی تعداد میں لوگ معاشی طور پر مضبوط لیبیا کا رُخ کرتے تھے۔ تاہم ملک میں خانہ جنگی نے اسے غیر ملکی شہریوں کے لیے ایک خطرناک ملک بنا دیا۔ اس طرح جو لوگ یہاں روزگاہ کی تلاش میں آئے تھے وہ بھی یہاں سے نکلنے کی تیاریاں کرنے لگے۔

لیبیا کے سابق رہنما قذافی نے اپنے ملک میں فضائی حملوں کے خلاف نیٹو سے کی گئی ایک اپیل میں کہا تھا کہ ’آپ یورپ کی طرف افریقی نقل مکانی اور القاعدہ کے دہشتگردوں کے بیچ کھڑی دیوار پر بمباری کر رہے ہیں۔ یہ دیوار لیبیا تھا۔ آپ اسے توڑ رہے ہیں۔‘

قذافی نے خود کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے کو روکنے کے لیے پناہ گزینوں سے متعلق یورپ کے خوف کو استعمال کیا تھا تاہم یہ کوشش ناکام ہوئی۔ انھیں اکتوبر 2011 کے دوران نیٹو کی حمایت یافتہ ملیشیا نے قتل کیا اور ان کا 42 سالہ دور بغاوت کی نذر ہو گیا تھا۔

سنہ 2011 سے قبل کرنل قذافی کے آمرانہ دور میں پناہ گزین کے بہاؤ پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی مگر اب چونکہ کئی ملیشیا لیبیا کی بندرگاہوں کو کنٹرول کرتے ہیں اس لیے پناہ گزین پر کم سختیاں ہیں اور ایسی کوئی مرکزی اتھارٹی نہیں جس سے یورپ براہ راست روابط قائم کر سکے۔ یوں لیبیا کا عدم استحکام پناہ گزین کے لیے افریقہ سے نکلنے اور یورپ پہنچنے کا آسان راستہ بنا ہے۔

لیبیا میں سنہ 2011 کے دوران فوجی آمر کرنل معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے بعد سے کوئی مضبوط حکومت نہیں بن سکی اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلح گروہ اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

یہ گروہ علاقائی اور نظریاتی اعتبار سے بٹے ہوئے ہیں اور انھیں غیر ملکی حکومتوں کی بھی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ان تمام عوامل کے باعث لیبیا خانہ جنگی سے متاثر ہوتا ہے۔

اس ماحول میں انسانی سمگلنگ کے غیر قانونی کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سمگلروں کے ملیشیا سے تعلقات ہوتے ہیں اور غیر محفوظ کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے لیے بے تاب تارکین وطن سے خوب منافع کمایا جاتا ہے۔

لیبیا کی علاقائی اہمیت کا بھی کلیدی کردار ہے۔ لیبیا کی زمینی سرحد دنیا کے سب سے غریب اور خطرناک ملکوں کے ساتھ ہے جبکہ اس کی ساحلی پٹی اٹلی کے جنوبی ساحلوں سے کچھ سو میل دور واقع ہے۔

طرابلس کے کوسٹ گارڈ ماضی میں کھلے عام یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ تارکین وطن کی کشتیوں کو بلا روک ٹوک سمندر میں اُترنے دیتے ہیں اور صرف تب ہی مداخلت کرتے ہیں جب کشتی الٹ جائے یا اسے کوئی دوسرا مسئلہ درپیش آئے۔ اکثر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

لیبیا، پاکستان، سنٹرل روٹ
BBC

لیبیا پہنچنے والے پناہ گزین کو سیف ہاؤسز میں رکھا جاتا ہے

بی بی سی کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری فرید حسین نے اپنے دو بیٹوں فرہاد اور توحید کو پلاٹ بیج کر دبئی اور مصر کے راستے سے لیبیا بھیجا تھا۔

ان کے پاس بچوں کی ویڈیوز ہیں جن میں وہ جہاز پر بورڈنگ کرتے ہوئے پُرجوش نظر آتے تھے۔ اُن کہ پاس لیبیا کے سیف ہاؤس کی ویڈیو بھی ہے جس میں درجنوں لڑکوں اور نوجوانوں کو فرش پر سویا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کسی اور کے موبائل فون سے صبح کے 4 بجے ان کا وائس نوٹ آتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں ’ہم نکل رہے ہیں، والدہ کو بتائیں یہ ہمارا آخری پیغام ہے۔‘

کچھ دن بعد سمگلر اُن سے رابطہ کرتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں وہ مٹھائی تقسیم کریں، اُن کے بچے یورپ پہنچ گئے ہیں۔ وہ بھی اس پر جشن مناتے ہیں۔

اگلے دن ان کے کزن کی کال آتی ہے انھوں نے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کی خبر دیکھی ہے۔ اس وقت تک سمگلرز عائب ہو جاتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں لڑکے یونان کے قریب کشتی الٹنے سے ڈوب گئے تھے۔

یورپی یونین کی حمایت یافتہ تنظیم انفو مائیگرنٹس نے ستمبر 2024 کے دوران لیبیا میں پناہ گزین کے استحصال کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا نام ’مائیگرنٹس فار سیل‘ تھا۔

اس رپورٹ میں کراچی سے دبئی، دبئی سے مصر اور پھر مصر سے لیبیا پہنچنے والے تین پاکستانیوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جن کی سینٹرل روٹ کے ذریعے یورپ جانے والی کشتی لیبیا کے کوسٹ گارڈ نے روک لی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ کیسے سمگلروں نے ان کی سفری دستاویزات، پروازوں اور بن غازی میں چھپنے کے ٹھکانوں کا بندوبست کیا تھا۔

ان تینوں پاکستانیوں کے بقول سمگلروں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ لیبیا میں ان کے لیے ’گھر جیسا ماحول‘ ہو گا اور وہ سات سے 10 دن میں اٹلی پہنچ جائیں گے۔ تاہم ان تینوں کے لیے یہ کئی ماہ تک جاری ڈراؤنا خواب بن گیا تھا۔

ان میں سے ایک نے بتایا کہ ’پاکستان میں میرے سمگلر نے لیبیا کے سمگلروں کو ادائیگی نہیں کی تھی۔۔۔ وہ ہمیں مارتے پیٹتے تھے اور والدین کو دھمکیاں دیتے ہیں۔‘

دریں اثنا ان افراد نے لیبیا کے حراستی مراکز میں بھی تشدد کا الزام لگایا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.