بلند و بالا چمکتی عمارتیں اور فراڈ کی داستانیں: فریب کی بنیاد پر تعمیر کیے گئے شہر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟

اس شہرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فریب کی دُنیا پر قائم ہے، جہاں دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ اور انسانی سمگلنگ کے منافع بخش لیکن مہلک گٹھ جوڑ موجود ہیں۔ اس کے پیچھے موجود شخص شی ژی جیانگ بنکاک کی ایک جیل میں بند ہیں اور چین کو حوالگی کا انتظار کر رہے ہیں۔
شوئے کوکو
Natalie Thomas/BBC
شوئے کوکو کا ایک منظر

میانمار کے دریائے موئی کی ایک جانب مکئی کے ہرے بھرے کھیت ہیں مگر جیسے ہی اس دریا کی دوسری جانب آپ نظر دوڑائیں تو وہاں موجود بلند و بالا چمکتی دمکتی کثیر منزلہ عمارتیں آپ کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں، یہاں تک کہ آپ کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔

آٹھ سال پہلے تک یہ منظر ایسا نہیں تھا اور میانمار کی اس چمکتی دمکتی ریاست ’کیرن‘ میں دلچسپی کی کوئی خاص چیز نہیں تھی۔ آٹھ سال پہلے تک یہاں صرف درخت تھے اور سیمنٹ سے بنی چند بے ترتیب عمارتیں جبکہ طویل عرصے سے جاری خانہ جنگ نے اس علاقے کو دنیا کے پسماندہ اور غریب ترین مقامات میں سے ایک بنا دیا تھا۔

لیکن آج تھائی لینڈ کی سرحد سے منسلک اس مقام پر ایک چھوٹا سا ایسا ترقی یافتہ شہر آباد ہے کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔

اس شہرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’فریب کی دُنیا‘ ہے جو دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ اور انسانی سمگلنگ کےمہلک گٹھ جوڑ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ اس شہر کو بنانے والےشخص شی ژی جیانگ فی الوقت بنکاک کی ایک جیل میں قید ہیں اور منتظر ہیں کہ انھیں کب چین کے حوالے کیا جائے گا۔

لیکن شی ژی جیانگ کی کمپنی ’یاتائی‘، جس نے ’شوے کوکو‘ نامی اس شہر کو تعمیر کیا ہے، اپنی تشہیری ویڈیوز میں اس شہر کے بارے میں ایک بہت ہی مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ ان تشہیری ویڈیوز میں اسے ایک ریزورٹ شہر کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو چینی سیاحوں کے لیے ایک محفوظ تفریحی مقام اور انتہائی امیر افراد کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔

’شوے کوکو‘ کی کہانی بھی چین میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سامنے آنے والی کہانیوں میں سے ایک ہے۔

یہ شہر تعمیر کرنے والے شی ژی جیانگ کوفریب اور جوئے کی دنیا واثتی طور پر ملی تھی۔ اور یہاں سے حاصل ہونے والی آمدن کے مہیب سائے کو قانونی رنگ دینے کے لیے انھوں نے اس چمکتے دمکتے شہر کو تعمیر کیا۔

لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے دوران وہ چین میں حکام کی نظروں میں آ گئے۔ چین اب تھائی لینڈ اور میانمار کی سرحد پر ہونے والی دھوکہ دہی کی اُن کارروائیوں کا قلعہ قمع کرنے کا خواہاں ہے جس میں چینی عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تھائی لینڈ کی سرحد سے میانمار کی جانب نظر آتی نئی بلندیاں
Jonathan Head/BBC
تھائی لینڈ کی سرحد سے میانمار کی جانب نظر آتی نئی بلندیاں

اس شہر سے ابھرنے والی فریب کی داستانیں پڑوسی ملک تھائی لینڈ میں سیاحتی سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

تھائی لینڈ کی انتظامیہ سرحد کے پار موجود اس شہر میں جانے والے بجلی کے کنکشنز کو منقطع کرنے میں مصروف ہے اور اپنے بینکاری کے قوانین کو سخت کر رہی ہے۔ تھائی لینڈ کو ٹرانزٹ روٹ کے طور پر استعمال کرنے والے مشتبہ افراد کے ویزے روکنے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔

’شوے کوکو‘ میانمار میں جنگ اور بغاوت کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے باعث سرمایہ کاری اور سیاحوں کی آمد و رفت کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔

صحافیوں کو اس شہر کے دورے کروا کر اس شہر کے تشخص اور امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس شہر کی مثبت رپورٹنگ شی ژی جیانگ کو جیل سے بھی باہر نکال سکتی ہے۔

لہٰذا انھوں نے بی بی سی کی ٹیم کو بھی شوے کوکو مدعو کیا تھا۔

شوے کوکو کے اندر کی دنیا جہاں پہنچنا مشکل ہے

پہلی نظر میں شوے کوکو ایک صوبائی چینی شہر کی مانند دیکھائی دیتا ہے۔
Jonathan Head/ BBC
پہلی نظر میں شوے کوکو ایک چینی شہر کی مانند دکھائی دیتا ہے

سنہ 2017 میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام شروع ہونے کے بعد سے شوے کوکو ایک ممنوعہ جگہ رہی ہے جہاں عام سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

سنہ 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد جب میانمار میں خانہ جنگی میں اضافہ ہوا تو اس شہر تک عام افراد کی رسائی اور بھی مشکل ہو گئی۔

میانمار کے دارالحکومت ’ینگون‘ سے اس شہر تک پہنچنے میں تین دن کا وقت لگتا ہے، متعدد چیک پوائنٹس، آمد و رفت کے لیے بند سڑکیں اور مسلح تصادم میں پھنس جانے کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے۔

شی ژی جیانگ کے ساتھی ہمیں ایک دورے پر لے گئے جس میں نئی پکی سڑکوں، لگژری ولاز، درختوں سے بھرپور خوبصورت ماحول پر روشنی ڈالی گئی۔

انھوں نے اسی دوران ہمیں یہ بھی بتایا کہ ’شی ژی جیانگ ایک سرسبز شہر بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

ہمارے گائیڈ وانگ فوگوئی تھے جنھوں نے بتایا کہ وہ جنوبی چین کے شہر گوانگسی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق پولیس افسر ہیں اور یہ کہ انھوں نے کچھ وقت تھائی لینڈ کی جیل میں گزارا ہے۔ جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان پر دھوکہ دہی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

وہ بتاتے کہ جیل میں ان کی شناسائی شی ژی جیانگ سے ہوئی اور جلد ہی وہ اُن کے سب سے قابل اعتماد آدمیوں میں سے ایک بن گئے۔

پہلی نظر میں شوے کوکو ایک چینی شہر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ عمارتوں پر لگے نشانات چینی حروف میں لکھے گئے ہیں اور تعمیراتی مقامات سے آنے اور جانے والی چینی ساختہ تعمیراتی گاڑیوں کے قافلے مسلسل گزرتے رہتے ہیں۔

یاتائی کا بنایا سکیورٹی نظام
Jonathan Head/ BBC

یاتائی نے دیگر معاملات کی طرح اپنی تمام عمارتوں کے مکینوں کے بارے میں بھی گو مگو میں رکھا۔

انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ ’مختلف ممالک سے امیر لوگ یہ ولاز کرائے پر لیتے ہیں۔‘

جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ اور یہ لوگ کاروبار کیا کرتے ہیں؟ تو ہمیں بتایا گیا کہ ’یہاں بہت سے کاروبار ہوتے ہیں جن میں ہوٹل، جوئے بازی کے مراکز اور دیگر شامل ہیں۔‘

تاہم ہم نے جن لوگوں کو دیکھا ان میں سے زیادہ تر مقامی ’کارین‘ تھے، جو میانمار کی نسلی اقلیتوں میں سے ایک ہیں۔

کارین ہر روز کام کرنے کے لیے شوے کوکو آتے ہیں۔ ہم نے غیر ملکی افراد کو بہت کم اس علاقے میں دیکھا جنھیں ہوٹلوں یا جوئے بازی کے گاہکوں کے طور پر سمجھا یا دیکھا جاتا ہے۔

یاتائی کا دعویٰ ہے کہ شوئے کوکو میں مزید کوئی فریب نہیں ہے۔ یہاں پورے شہر میں بڑے بڑے بل بورڈ لگائے گئے ہیں جن پر چینی، برمی اور انگریزی میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں جبری مشقت کی اجازت نہیں ہے اور یہ کہ ’آن لائن کاروبار‘ کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن ہمیں مقامی لوگوں نے خاموشی سے بتایا کہ یہاں دھوکہ دہی کا بازار اب بھی گرم ہے۔

یہ فراڈ ایک دہائی قبل کمبوڈیا کے ساحل پر چینی سرمایہ کاری کی مدد سے شروع ہوا تھا اور اب تھائی لینڈ اورمیانمار کی سرحد کے ساتھ اس کا بازار گرم ہے۔

جبکہ ان کے ارد گرد میانمار کی فوج، مختلف باغی افواج، اور جنگجو سردار کرین ریاست پر قبضے کے لیے لڑ رہے ہیں۔

دھوکہ دہی کا یہ کاروبار اب اربوں ڈالر کی صنعت بن چکا ہے اور اس میں چین، جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ سمیت دیگر ممالک سے ہزاروں کارکن کام کر رہے ہیں جنھیں دیواروں سے گھرے کمپاؤنڈز میں رکھا جاتا ہے، جہاں وہ دنیا بھر کے لوگوں کو اُن کی جمع پونجی سے محروم کر دیتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنی مرضی سے وہاں کام کرتے ہیں لیکن دوسروں کو اغوا کر کے زبردستی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔

جو لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں، انھوں نے تشدد اور مار پیٹ کی دل دہلا دینے والی کہانیاں سنائی ہیں۔

تعمیراتی کام اور عمارتوں کے بیرونی حصے
Jonathan Head/ BBC
تعمیراتی کام اور عمارتوں کے بیرونی حصے

ہماری بات ایک ایسی نوجوان خاتون سے ہوئی جو ہماری آمد سے چند ہفتے قبل تک دھوکہ دہی کے ایک مرکز میں کام کر رہی تھیں۔

انھیں یہ کام بہتر نہ لگا جس کے بعد ان کو کام چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ ماڈلنگ ٹیم کا حصہ تھیں جس میں زیادہ تر پرکشش اورنوجوان خواتین کو بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان خواتین کا کام اپنے ممکنہ شکار سے رابطہ کرنا اور ان کے ساتھ آن لائن قریبی تعلق بنانا ہونا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’شکار بننے والے زیادہ تر بڑی عمر کے افراد ہوتے ہیں، جس میں ان کے ساتھ گفتگو کچھ اس طرح شروع کی جاتی ہے کہ ’اوہ، آپ بالکل میرے ایک دوست کی طرح لگتے ہیں۔‘

’جب آپ کی اُن سے دوستی ہو جاتی ہے تو آپ انھیں اپنی تصویریں بھیج کر مزید اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ یہ تصاویر اکثر مختصر کپڑوں میں ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’پھرگفتگو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری سمیت جلدی پیسہ کمانے کے منصوبوں کی طرف بڑھتی ہے، جس میں خواتین اپنے شکار کو بتاتی ہیں کہ کیسے انھوں نے یہی طریقہ اختیار کر کے بہت پیسہ کمایا ہے۔‘

’جب وہ آپ کے قریب ہو جاتے ہیں اور بھروسہ کرتے ہیں تو آپ انھیں چیٹنگ والے سیکشن کو ریفر کر دیتے ہیں جہاں چیٹنگ ٹیم کے ارکان اُن سے بات چیت جاری رکھتے ہیں اور انھیں کرپٹو کمپنی کے شیئرز خریدنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔‘

شوے کوکو میں مختصر قیام کے دوران ہمیں صرف وہی دیکھنے دیا گیا جو یاتائی ہمیں دکھانا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود یہ واضح تھا کہ یہاں پر دھوکہ دہی ختم نہیں ہوئی جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج بھی شاید اس شہر میں سب سے بڑا کاروبار یہی ہے۔

نئی تعمیر شدہ دفتری عمارتوں کے اندر جانے کا ہمارا مطالبہ نہیں مانا گیا بلکہ وہ ہمیں بار بار بتاتے رہے کہ یہ نجی عمارتیں ہیں۔

ہمیں ہر وقت اس ملیشیا گروپ کے سکیورٹی گارڈز کی نگرانی میں رکھا گیا جو سرحد کے اس حصے کو کنٹرول کرتا ہے۔

ہمیں تعمیراتی کام اور عمارتوں کے بیرونی حصے کو فلمانے کی اجازت دی گئی لیکن ان کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کئی کھڑکیوں کے اندر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔

کئی کھڑکیوں کے اندر سے سلاخیں تھیں
Thanyarat Doksone/ BBC
کئی کھڑکیوں کے اندر سلاخیں نظر آتی ہیں=

اس شہر میں دھوکہ دہی کے ایک مرکز کی سابق خاتون ورکر نے ہمیں بتایا کہ ’شوے کوکو میں ہر کوئی جانتا ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے یاتائی کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ اب شوے کوکو میں دھوکہ دہی کے مراکز کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔

’یہ جھوٹ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لاعلم ہوں۔ ان اونچی عمارتوں سے گھرے پورے شہر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کوئی وہاں تفریح کے لیے نہیں جاتا۔‘

شی ژی جیانگ کون ہیں؟

بنکاک کی جیل میں قید شی ژی جیانگ نے ایک پیغام میں کہا ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ یاتائی کبھی ٹیلی کام فراڈ اور دھوکہ دہی کو قبول نہیں کریں گے۔‘

یاتائی چاہتے تھے کہ ہم خود شی ژی جیانگ کی بات سُنیں چناچہ اس کے لیے انھوں نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے رابطہ قائم کیا۔

صرف وہی شی ژی جیانگ سے بات کر سکتے تھے۔ ہمیں جیل کے محافظوں کی نظر سے بچانے کے لیے دور رہنا پڑا اور سوالات پوچھنے کے لیے ان پر انحصار کرنا پڑا۔

شی ژی جیانگ کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ ایک چھوٹے چینی قصبے کے کاروباری شخص ہیں جن پر بیجنگ نے مجرمانہ سرگرمیوں کا الزام عائد کیا ہے۔

سنہ 1982 میں چین کے صوبے ہونان کے ایک غریب گاؤں میں پیدا ہونے والے شی ژی نے 14 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا اور کمپیوٹر کوڈنگ سیکھ لی۔

بعدازاں وہ فلپائن منتقل ہوئے اور آن لائن جوا کھیلنے کی دنیا میں داخل ہوئے، جو چین میں غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں سے انھوں نے دولت کمانا شروع کی۔

سنہ 2014 میں ایک چینی عدالت نے انھیں ان کی غیرموجودگی میں غیر قانونی لاٹری چلانے کا مجرم قرار دیا تھا۔

انھوں نے کمبوڈیا میں جوا کھیلنے کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی اور پھر وہاں کی شہریت حاصل کر لی۔

وہ اب تک کم از کم چار مختلف فرضی نام استعمال کر چکے ہیں۔

سنہ 2016 میں انھوں نے ایک کارین جنگجو سردار ساو چِت تھو کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ ایک نیا شہر تعمیر کریں گے جس میں شی ژی فنڈز، چینی تعمیراتی مشینری اور مواد فراہم کیا جائے گا جبکہ ساو چِت تھو اور ان کے 8,000 مسلح جنگجو اس شہر کو محفوظ رکھیں گے۔

یاتائی کی چمکدار ویڈیوز میں 15 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا اور ہوٹلوں، کیسینوز اور سائبر پارکس کی ایک جدید دنیا دکھائی گئی۔ شوے کوکو کو شی ژی پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا حصہ قرار دیا گیا، جس کے تحت چینی فنڈز اور بنیادی ڈھانچہ دنیا میں لایا جا رہا تھا۔

سنہ 2020 میں چین نے عوامی طور پر شی ژی جیانگ سے خود کو الگ کر لیا، اور میانمار کی حکومت نے یاتائی کے خلاف تحقیقات شروع کیں جو اپنی سرمایہ کاری کی اجازت سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر تعمیر کر رہے تھے اور کیسینوز چلا رہے تھے۔

اگست 2022 میں انٹرپول نے چین کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے شی ژی جیانگ کو بنکاک میں گرفتار کر کے قید کر دیا۔

وہ اور ان کے ساتھی ساو چِت پر برطانوی حکومت نے انسانی سمگلنگ سے تعلقات کے الزام میں پابندیاں عائد کی ہیں۔

شی ژی جیانگ کا دعویٰ ہے کہ وہ چینی ریاست کے دوہرے معیار کا شکار ہوئے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ انھوں نے چینی وزارتِ ریاستی سلامتی کی ہدایت پر اپنی کمپنی یاتائی قائم کی اور شوے کوکو اس وقت بی آر آئی کا حصہ تھا۔

انھوں نے چین کی کمیونسٹ قیادت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے منصوبے کا کنٹرول حاصل نہ کرنے پر ان کے خلاف ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چین تھائی لینڈ اور میانمار کی سرحد پر اپنی ایک کالونی بنانا چاہتا تھا۔ چین نے شی ژی جیانگ کے ساتھ کسی بھی تجارتی تعلق سے انکار کیا ہے۔

یاتائی کے کسی بھی غلط کام میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے شی ژی جیانگ نے اعتراف کیا کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ دھوکہ دہی کرنے والے شوے کوکو آ کر خود اپنا پیسہ خرچ کر رہے ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ ہمارا یاتائی سٹی مکمل طور پر کھلا ہے جہاں کوئی بھی آزادانہ طور پر آ اور جا سکتا ہے۔ گاہکوں کو مسترد کرنا، میرے جیسے کاروباری شخص کے لیے واقعی مشکل ہے۔ یہ میری کمزوری ہے۔‘

اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یاتائی جو شوے کوکو میں ہر چیز کے انتظام کے زمہ دار ہے، وہ دھوکہ دہی کرنے والوں کو شہر میں آنے جانے سے روکنے سے قاصر ہو۔

اور اس کا اندازہ بھی مشکل نہیں کہ دھوکہ دہی کے علاوہ کوئی اور کاروبار یہاں چلانے کے بارے میں کوئی کیوں سوچے گا؟

تھائی لینڈ کی جانب سے بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن کاٹ دینے کے بعد یہاں بجلی ڈیزل اور جنریٹرز کی مدد سے فراہم کی جاتی ہے جو مہنگا ذریعہ ہیں۔

جبکہ رابطے ایلون مسک کے سٹار لنک سیٹلائٹ سسٹم کے ذریعے کیے جاتے ہیں اور یہ بھی بہت مہنگا ہے۔

امریکہ کے انسٹیٹیوٹ فار پیس سے تعلق رکھنے والے جیسن ٹاور شوے کوکو میں دھوکہ دہی کے آپریشن پر کئی سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یاتائی کی حکمتِ عملی منصوبے کو بے داغ دِکھانے اور یہ بیانیہ بنانے کی ہے کہ شوے کوکو ایک محفوظ شہر ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یاتائی ’دھوکہ دہی کی صنعت کے زیادہ بدنام حصے، جیسے تشدد کو دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کی کوشش، بھی کر سکتے ہیں۔

جنگی علاقے میں کاروبار

فراڈ اور دھوکہ دہی کو مسترد کرنے کے بل بورڈز جگہ جگہ موجود ہیں
Jonathan Head/BBC
فراڈ اور دھوکہ دہی کو مسترد کرنے کے بل بورڈز جگہ جگہ موجود ہیں

آخرکار ہمیں شوے کوکو کے ایک جوا خانے کے اندر جانے کی اجازت مل ہی گئی جسے ایک خوش مزاج آسٹریلوی شہری چلا رہا تھا۔

اس نے ہمیں بتایا کہ وہ اس کاروبار کوبند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اندر صرف مقامی کارین لوگ موجود تھے جو ایک ڈیجیٹل مشین کے ذریعے گیم کھیل رہے تھے۔

یہاں ہمیں کسی سے انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عقبی کمروں میں کارڈ اور رولیٹ ٹیبلز موجود تھیں تاہم یہ مکمل طور پر خالی تھے۔

آسٹریلوی مینیجر نے کہا کہ چھ سال پہلے تعمیر کیا گیا یہ کیسینو اس وقت مقبول اور منافع بخش تھا جب یہاں صرف ایک یا دو کیسینو تھے اور ملک میں خانہ جنگی شروع نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج جب کم از کم نو کیسینو کام کر رہے ہیں تو یہاں گاہکوں کی تعداد کم پڑ گئی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اصل پیسہ آن لائن جوئے میں ہے، جو شوے کوکو کا بنیادی کاروبار ہے۔

اس بات کا اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ آن لائن جوا کھیلنے سے کتنا پیسہ کمایا جاتا ہے اور کتنی آمدنی منی لانڈرنگ اور دھوکہ دہی جیسی براہ راست مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ کام عام طور پر انھی کمپاؤنڈز سے اور انھی ٹیموں کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔

جب ہم نے یاتائی سے پوچھا کہ اُن کو کتنی آمدنی حاصل ہو جاتی ہے تو انھوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا حتیٰ کہ کوئی گول مول سا اندازہ بھی نہیں لگایا اور فقط اتنا کہا کہ یہ نجی معلومات ہیں۔

یہاں موجود کمپنیاں ہانگ کانگ، میانمار، اور تھائی لینڈ میں رجسٹرڈ ہے لیکن یہ صرف دکھاوے کی کمپنیاں ہیں جن کے ذریعے بہت کم آمدنی یا رقم منتقل ہوتی ہے۔

یاتائی نے ہمیں ان کی بنائی ہوئی گو کارٹ ٹریک، واٹر پارک اور ماڈل فارم دکھانے کی پیشکش کی، جسے ہم نے قبول نہیں کیا۔

البتہ ہم نے ان کا ایک اور کیسینو اُس وقت دیکھا جب ہمیں یاتائی کے لگژری ہوٹل میں ناشتہ کروانے لے جایا گیا، لیکن اس کے بھی اندر جانے کی اجازت نہیں تھی اور وہ بھی خالی نظر آ رہا تھا۔

ہمیں صرف ایک اور سہولت دیکھنے کی اجازت دی گئی جو ایک کراوکی کلب تھا۔

اس میں نجی کمرے تھے جن کی دیواریں اور گنبد ڈیجیٹل سکرینوں سے ڈھکے ہوئے تھے جن پر بڑی بڑی مچھلیاں اور شارک تیر رہی تھیں۔

یہاں ویڈیو لوپس بھی چل رہے تھے جو شی ژی جیانگ کے وژن اور خوبیوں کی تعریف سے بھرپور تھے۔

یہ کلب بھی خالی ہی نظر آیا، یہاں سوائے کچھ نوجوان چینی خواتین کے، جو وہاں کام کر رہی تھیں، کوئی نہ تھا۔

وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے اوپیرا ماسک پہنے ہوئے تھیں اور چند منٹ کے لیے بے دلی سے موسیقی پر ناچنے کے بعد بیٹھ گئی تھیں۔

ہمیں انٹرویوز کی اجازت نہیں تھی۔ ایک مقامی کارین ملازم سے بات کرنے کی اجازت ملی لیکن وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ ہم اس سے اس کا نام معلوم کرنے کے علاوہ کچھ نہ جان سکے۔

کراوکی بار جہاں پس منظر میں یاتاکی اور شی ژی کے پیغامات نمایاں تھے
Jonathan Head/BBC
کراوکی بار جہاں پس منظر میں یاتاکی اور شی ژی کے پیغامات نمایاں تھے

شی ژی جیانگ کی عدم موجودگی میں شوے کوکو کی نگرانی ان کے نوجوان شاگرد ہی ینگ شیونگ کے ذمہ ہے۔

وہ وانگ فوگوی کے ساتھ موئے دریا کے کنارے ایک وسیع و عریض بنگلے میں رہتے ہیں جہاں چینی محافظ سخت پہرہ دیتے ہیں۔

31 سالہ ہی ینگ اس مقام پر بہترین کھانے اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ کاروبار پر نظر رکھتے ہیں۔

ہی ینگ کے پاس اپنے باس کے برعکس کچھ مختلف وضاحت موجود ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ان کے زیر انتظام علاقے میں دھوکہ دہی کے کام اب بھی کیوں ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’ہم صرف پراپرٹی ڈویلپرز ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر ہوتی بھی ہوں، تو مقامی لوگوں کا اپنا قانونی نظام ہے، اس لیے ان کا کام ہے کہ وہ ان سے نمٹیں۔ ہمارا کام صرف اچھے انفرسٹرکچر، عمارتیں، اور معاون صنعتیں فراہم کرنا ہے۔‘

لیکن میانمار کے اس حصے میں نہ کوئی قانونی نظام ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔ یہاں مختلف مسلح گروہ حکومت کرتے ہیں، جو تھائی لینڈ کی سرحد کے ساتھ مختلف علاقوں پر قابض ہیں۔

یہ کمانڈر طے کرتے ہیں کہ کون سا کاروبار بنایا اور چلایا جا سکتا ہے اور اس کے بدلے وہ اپنا حصہ لیتے ہیں تاکہ میانمار کی فوج کے خلاف یا آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اپنی جنگوں کو فنڈ کر سکیں۔

ان میں سے کئی گروہ دھوکہ دہی کے کمپاؤنڈز کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔

ہی ینگ نے تسلیم کیا کہ جنگ ہی وہ وجہ تھی جس کی بدولت یاتائی کو یہ زمین اتنی سستے داموں ملی۔

کارین کے انسانی حقوق کے گروہوں نے ساوچٹ پریہاں کے اصل رہائشیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے اور اس کے لیے برائے نام معاوضہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ یاتائی نے مقامی افراد کے لیے بے حد ضروری ملازمتیں فراہم کرنے میں بھی مدد کی ہے۔

یہ کارین ریاست میں پھیلی لاقانونیت ہی ہے جو غیر قانونی کاروباروں کو اس علاقے میں آنے کی ترغیب دیتی ہے اور یہی چیز شوے کوکو کی ساکھ کو مزید خراب کرتی ہے۔

شی ژی جیانگ کی عدم موجودگی میں شوے کوکو کی نگرانی ان کے نوجوان شاگرد ہی ینگ شیونگ کے ذمہ ہے
Jonathan Head/BBC
شی ژی جیانگ کی عدم موجودگی میں شوے کوکو کی نگرانی ان کے نوجوان شاگرد ہی ینگ شیونگ کے ذمہ ہے

گذشتہ ماہ 22 سالہ چینی اداکار، وانگ شنگ کو سرحد پر واقع ایک دھوکہ دہی کے مرکز سے بازیاب کروایا گیا تھا جہاں انھیں فلم کی شوٹنگ کے بہانے بلایا گیا تھا۔ ان کی گمشدگی نے چینی سوشل میڈیا پر سوالات کی بھرمار کر دی، جس کے نتیجے میں تھائی لینڈ اور چینی حکام نے مشترکہ کارروائی کر کے انھیں بازیاب کروایا۔

تاہم اس نوعیت کی شہ سرخیاں بھی شوے کوکو کی ساکھ کو بہتر نہیں بناتیں۔

بی بی سی کو کچھ متاثرین کی طرف سے ای میلز موصول ہوئی ہیں، جنھوں نے مدد کی درخواست کی ہے جبکہ ریسکیو تنظیموں کا ماننا ہے کہ اب بھی ہزاروں لوگ اس جعلسازی کے دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جعلسازی کے شکار تقریباً تمام افراد شوے کوکو کے جنوب میں سرحد کے ساتھ واقع چھوٹے کمپاؤنڈز میں ہیں۔

یاتائی نے دعویٰ کیا کہ اب تمام منفی سرگرمیاں ان جگہوں پر ہوتی ہیں جو جنگل کی صاف کی گئی جگہوں پر تعمیر کیے گئے شیڈز پر مشتمل ہیں۔

انھوں نے خاص طور پر کے کے پارک کا ذکر کیا، جو سرحدی قصبے میاوڈی کے جنوب میں واقع ایک بدنام کمپاؤنڈ ہے اور ڈونگمے جو کم بلند عمارتوں کا مجموعہ ہے، جسے ایک معروف چینی مجرم وان کوک کوئی عرف بروکن ٹوتھ چلا رہے ہیں۔

ماضی میں شی ژی جیانگ کا تعلق تھائی لینڈ کے سیاستدانوں، پولیس کے اعلیٰ افسران، حتیٰ کہ شاہی خاندان کے بعض افراد سے تھا اور انھیں ان تک رسائی حاصل تھی، لیکن مشکل پڑنے پر کوئی بھی تعلق ان کے کام نہ آ سکا۔

آج وہ جیل میں اپنا وہ اثر و رسوخ بھی کھو چکے ہیں جو کبھی انھیں قید میں خصوصی مراعات دلانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

انھوں نے گارڈز کے ہاتھوں بدسلوکی کے رویے کی بھی شکایت کی ہے۔

اُن کے وکلا انٹرپول کے ریڈ نوٹس کے خلاف اپیل کر رہے ہیں جس کی بنیاد پر انھیں گرفتار کیا گیا تھا لیکن ان کی قسمت کا فیصلہ غالباً چین کی مداخلت پر ہو گا جس کی بات اس معاملے میں سب سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔

شی ژی جیانگ کے ساتھ انٹرویو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی قسمت کی اچانک تبدیلی پر درحقیقت غصے میں ہیں۔

انھوں نے کہا: ’پہلے مجھے انسانی حقوق کا کوئی ادراک نہیں تھا، لیکن اب میں واقعی سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کتنی بھیانک چیز ہے۔‘

’یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ چین میں عام لوگوں کے حقوق کس طرح پامال کیے جاتے ہیں، جب کہ میرے جیسے ایک معزز کاروباری شخص، جو کبھی شی جن پنگ کے ساتھ ریاستی دعوتوں میں شریک رہا، اس کے حقوق اور وقار کا بالکل بھی تحفظ نہیں کیا جا رہا۔‘

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ کچھ ایسا تعمیر کر سکتے ہیں جو شوے کوکو کی دھوکہ دہی کے شہر کے بدنما آغاز سے آگے بڑھ کر کچھ بہتر بنا سکتا ہے۔

اب آگے کیا ہو گا، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن اگر تھائی لینڈ اور چینی حکومت دھوکہ دہی کے مراکز کو بند کرنے کی کارروائی جاری رکھتی ہیں، تو ان کا سرمایہ ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.