ڈیجیٹل دور کی بنیاد رکھنے والے ’مستقبل کے موجد‘ جو مشہور نہیں ہونا چاہتے تھے

شینن کا ذکر کرنے والے انھیں وہ ہستی قرار دیتے ہیں جس نے ’مستقبل‘ کو ایجاد کیا یا پھر یوں کہیے کہ وہ ’حال‘ جس میں ہم جی رہے ہیں وہ کلاڈ کی مرہون منت ہے۔
ریاضی دان کلاڈ شینن
BBC
کلاڈ شینن کے مطابق ’ایک سائنس فکشن مصنف کی طرح میرا دماغ گھومتا ہے اور مجھے دن رات مختلف چیزوں کا خیال آتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا‘

شینن کے بارے میں بہت سی چیزیں ہیں جنھیں یادگار کہا جا سکتا ہے۔

نیو یارک میں واقع بیل لیبارٹریز میں ان کے ساتھکام کرنے والوں کو یاد ہے کہ کیسے وہ چار گیندوں کے ساتھ کرتب کرتے ایک پہیے کی سائیکل پر راہداریوں سے گزرتے تھے۔

میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے کلاڈ شینن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اپنی میز پر اپنا ہی تخلیق شدہ ایک ایسا آلہ رکھا ہوا تھا جسے ’الٹیمیٹ مشین‘ کہا جاتا تھا۔

اس مشین میں بٹن والا ایک باکس تھا اور اسے آن کرنے پر ایک ہاتھنکل کر مشین بند کر دیتا ہے۔ اور یہ کون بھول سکتا ہے کہ صرف 21 برس کی عمر میں انھوں نے تمام زمانوں کا سب سے اہم ماسٹرز مقالہ لکھا تھا جس نے مستقبل کے تمام ڈیجیٹل کمپیوٹرز کی بنیاد رکھی۔

اور نہ ہی یہ بھولا جا سکتا ہے کہ 32 برس کی عمر میں انھوں نے بٹ (bit) کو ایجاد کیا اور یہ سمجھایا کہ کیسے کسی بھی پیغام کو درست طریقے سے بھیجا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شینن کا ذکر کرنے والے انھیں وہ ہستی قرار دیتے ہیں جس نے ’مستقبل‘ کو ایجاد کیا یا پھر یوں کہیے کہ وہ ’حال‘ جس میں ہم رہ رہے ہیں وہ کلوڈ کی مرہون منت ہے۔

اور یہ مبالغہ آرائی نہیں کہ ان کی خدمات نے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دور کی بنیاد رکھی۔

’بیل لیبز اور ایم آئی ٹی میں بہت سے لوگ کلاڈ شینن کی بصیرت کا موازنہ آئن سٹائن سے کیا کرتے تھے۔ جبکہ کچھ اس موازنے کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ ’فارچونز فارمولا‘ کے مصنف ولیم پاؤنڈ سٹون اس کو شینن کے ساتھ غیر منصفانہ موازنہ قرار دیتے ہیں۔

تاہم ان کا نام اپنے وقت کے دیگر مشہور سائنسدانوں کی طرح اتنا مشہور نہ ہو سکا لیکن اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

کلاڈ شینن کی سوانح عمری ’اے مائنڈ ایٹ پلے‘ کے شریک مصنف راب گڈمینکہتے ہیں کہ ’کیونکہ وہ ایسا ہی چاہتے تھے۔‘

کورا (جریدے) کے ساتھ گفتگو میں راب گڈمین کامزیدکہنا تھا کہ ’انھوں نے شعوری طور پر خود کو شہرت سے دور کر لیا۔‘

راب گڈ مین نے کہا کہ ’کمپیوٹر یا سمارٹ فون کا تصور کرنا آسان ہے، لیکن ان خیالات کا تصور کرنا زیادہ مشکل ہے جنھوں نے انھیں ممکن بنایا۔‘

کلاڈ شینن نے اس بنیادی نکتے اور اس کے پیچھے موجود ٹیکنالوجی پر کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ماہرین کے درمیان معروف رہے تاہم عام عوام کے لیے ان کے کارنامے کسی حد تک پوشیدہ ہی رہے۔

تحقیقی مقالہ

1936 میں یونیورسٹی آف مشی گن سے گریجویشن کے بعدکلاڈ شینن نے کمپیوٹر کے بانی وینیوربش کے ساتھ لیبارٹری میں ان کے معاون کے طور پر کام کیا۔ یاد رہے کہ وینیوربش ایم آئی ٹی میں انجینئرنگ کے ڈین اور نائب صدر تھے۔

وہ سائنسدانوں کو دنیا کا سب سے طاقتور کمپیوٹر مکینیکل اینالوگ (ڈفرینشل اینالائزر) استعمال کرنے میں مدد کرتے تھے جسے وینیوربش نے بنایا تھا۔

یہ بڑی اینالاگ مشین شافٹ، گیئرز، پہیے اور ڈسکس کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے کیلکولس کے مساوات کو حل کرتی تھی۔

تاہم ہر مسئلے کے حل کے لیے پورے نظام کو دوبارہ ترتیب دینا پڑتا تھا تاکہ وہ مناسب طریقے سے کام کر سکے۔ یہ یقینا ایک پریشانی تھی تاہم شینن کے لیے نہیں۔

نیویارک کے ریسرچ سینٹر میں 1920 کی دہائی میں بش اور ان کے طالب علموں کی جانب سے تخلیق کیا گیا ایک سسٹمجس نے دو ہفتوں میں ریاضی کا حساب کتاب ممکن بنایا۔
Getty Images
نیویارک کے ریسرچ سینٹر میں 1920 کی دہائی میں بش اور ان کے طالب علموں کی جانب سے تخلیق کیا گیا ایک سسٹمجس نے دو ہفتوں میں ریاضی کا حساب کتاب ممکن بنایا

بچپن میں انھیں بہن کے فراہم کردہ ریاضی کے سوالات حل کرنے میں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ انھیں ریڈیو کی مرمت کرنے، کھلونے بنانے، اور خاردار تاروں کی باڑ کو ایک دوست کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ٹیلیفون لائن بنا کر کھیلنے میں بھی مزہ آتا تھا۔

ان کے لیے اس پیچیدہ میکانزم کی جوڑ توڑ میں گھنٹوں گزارنا خوشی کا باعث تھا۔

اور ایسا کرتے ہوئے ان کے دماغ نے مشین کے مقابلے میں تیزی سے کام کرنا شروع کیا۔ اس کا اظہار ان کے ماسٹرز کے تھیسس ’ریلے اور سوئچنگ سرکٹس کے علامتی تجزیے‘ میں بھی ہوتا ہے۔

مشی گن سے انھوں نے الیکٹریکل انجینئر اور ریاضی کے شعبے میں گریجویشن کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے فلسفے کا کورس بھی کیا تھا جس نے انھیں 19ویں صدی کے فلسفی جارج بول کے کام سے متعارف کرایا۔

فلسفی بولیس کا سکیچ
Getty Images
19ویں صدی کے فلسفی جارج بول

ان کا مقالہ بہت ہی بنیادی تھا لیکن آج ہم آسانی سے کمپیوٹر پروگرامنگ کو پہچان سکتے ہیں۔

لیکن اس وقت یہ ایک نیا تصور تھا اور جب اس پر عمل کی بات آئی تو لوگوں کو لگا کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مشینیں انسانوں کی طرح خود کچھ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

شینن نے لکھا: ’سرکٹس کو تبدیل کرنے کے ذریعے پیچیدہ ریاضیاتی کاموں کو انجام دینا ممکن ہے‘ کیونکہ وہ حالات کے لحاظ سے متبادل طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں۔

اس سادہ اور شاندار طریقہ کے ساتھ انھوں نے ’ڈیجیٹل انقلاب کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ‘ جاری کیا۔ ایلین وگنس نے اپنی کتاب ’ریت اور چپس سے سلیکون تک‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔

کمپیوٹر اور بیوی

شینن نے جدید کمپیوٹر کے وجود میں آنے سے تقریباً ایک دہائی قبل اس کے اندرونی آپریشنز کو منظم کرنے کا اہم خیال پیش کیا تھا۔

انھوں نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ ’مجھے اپنی زندگی میں کسی بھی چیز سے زیادہ ایسا کرنے میں زیادہ مزہ آیا۔‘

وینیور بش کی نگرانی میں شینن نے پی ایچ ڈی کے ساتھ اپنی ماسٹر ڈگری پوری کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایم آئی ٹی ریویو کے مطابق بش کا خیال تھا کہ کسی ایک مضمون میں مہارت ایک شاندار دماغ کی صلاحیت کو دبا دیتی ہے، اس لیے انھوں نے شینن کو جینیات پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کرنے کا مشورہ دیا۔

جب یہ کام مکمل ہو گیا تو ایم آئی ٹی میں ریاضی کے شعبہ کے سربراہ ہنری فلپس نے لکھا کہ شینن ’کسی بھی شعبے میں فرسٹ کلاس تحقیق کر سکتا ہے جس میں وہ دلچسپی لے۔‘

شینن کی 1954 کی بیل لیبز میں لی گئی تصویر
Science Photo Library
شینن کو جلد ہی احساس ہو گيا کہ کمپیوٹر صرف حساب کتاب سے زیادہ کرنے والی چیز ہے

پی ایچ ڈی کرنے کے فوراً بعد شینن اے ٹی اینڈ ٹی بیل لیبارٹریز میں کام کرنے لگے۔

یہ 1940 کا زمانہ تھا اور یورپ دوسری عالمی جنگ عظیم کی زد میں تھا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں امریکہ براہ راست شامل نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن وہ بعد میں ایسا نہ کر سکا۔

شینن نے فوری طور پر فوجی منصوبوں پر کام شروع کر دیا جیسا کہ کوڈ بنانا اور توڑنا۔

اور وہیں وہ اپنی مستقبل کی دوسری بیوی میری الزبتھ ’بیٹی‘ مور سے ملے جو بیل لیبز کے ’کمپیوٹر‘ پر کام کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔

بیٹی ایک عددی تجزیہ کار تھیں اور ریاضی کے معاملات پر شینن کی مشیر بنیں۔

میگنا کارٹا

جنگ کی فوری کوششوں پر کام کرتے ہوئے شینن نے ’اے میتھمیٹیکل تھیوری آف کرپٹوگرافی‘ لکھی جو 1945 میں مکمل ہوئی لیکن اسے ’کلاسیفائڈ‘ یعنی خفیہ دستاویز میں شمار کیا گيا اور اسی لیے اسے 1949 تک شائع نہیں کیا گیا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس نے کرپٹوگرافی (خفیہ پیغام نگاری) کو ایک فن سے سائنس میں بدل دیا۔

اس دوران انھوں نے دوسری چیزوں کے علاوہ اپنا شاہکار مقالہ ’اے میتھمیٹیکل تھیوری آف کمیونیکیشن‘ لکھا۔

وہ اپنے فارغ وقت میں بیک وقت اس پر کام کرتے رہتے تھے۔

شینن کا نظریہ آج کے تمام مواصلاتی نظاموں کی بنیاد کا ایک معیاری فریم ورک بن گیا
BobTheBryan
شینن کا نظریہ آج کے تمام مواصلاتی نظاموں کی بنیاد کا ایک معیاری فریم ورک بن گیا

شینن نے دیکھا کہ جس طرح کوڈز معلومات کی حفاظت کر سکتے ہیں اسی طرح وہ اسے منتقل ہونے کے دوران بچا بھی سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی پتا چلایا کہ ان کوڈز کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ ٹیلی گراف، ریڈیو، ٹیلی ویژن، یا ٹیلی فون کے ذریعے منتقل کیا جا سکے۔

انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ پیغام کی ترسیل سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ معلومات کی مقدار کیسے طے کی جائے۔

ایسا کرنے کے لیے، انھوں نے معلومات کی اکائیوں یا ان کے چھوٹے ممکنہ ٹکڑوں کی تعریف کی اور انھیں ’بِٹس‘ (یا ’بائٹس‘) کا نام دیا۔ اس اصطلاح کو ان کے ساتھی جان ٹوکی نے ’بائنری ڈیجٹ‘ کے مخفف کے طور پر تجویز کیا تھا۔

ان بٹس کو کسی بھی پیغام کو انکوڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس میں الفاظ سے لے کر تصاویر، گانوں، ویڈیوز اور جدید ترین گیمنگ سافٹ ویئر تک ہر چیز شامل ہے۔

یہ نظریات اور ان کی ’میتھمیٹک تھیوری آف کمیونیکیشن‘ میں شامل دیگر نظریات اہم پیش گوئیاں ثابت ہوئيں۔

ان کے نظریات ایسا بنیادی تصور تھے جنھوں نے الیکٹرانک مواصلات کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔

’بجلی کا جھٹکا‘

تاہم، شینن کو اپنے نظریات کو شائع کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔

اومنی میگزین کے ساتھ 1987 کے انٹرویو میں انھوں نے وضاحت کی کہ ’میں تجسس کی وجہ سے اس طرف زیادہ متوجہ تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اشاعت کے لیے لکھنے کا عمل ’تکلیف دہ‘ تھا۔

آخر کار انھوں نے اپنے تذبذب پر قابو پا لیا اور ان کا یہ اہم مقالہ سنہ 1948 میں بیل سسٹم ٹیکنیکل جرنل میں شائع ہوا۔

مقالہ
Internet Archive
شینن کا یہ اہم مقالہ سنہ 1948 میں بیل سسٹم ٹیکنیکل جرنل میں شائع ہوا

بیل لیبز میں شینن کے بہترین دوستوں میں سے ایک جان پیئرس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ’کسی بجلی کے جھٹکے کی طرح تھا۔‘

مثال کے طور پر فارچیون میگزین نے اسے ’ایک عظیم سائنسی نظریہ‘ قرار دیا۔ درحقیقت شینن کے نظریہ نے توقع سے کہیں زیادہ سامعین کو اپنا گرویدہ بنایا۔

ماہرینِ لسانیات، ماہرینِ نفسیات، ماہرینِ معاشیات، ماہرینِ حیاتیات اور فنکاروں نے اسے اپنے شعبوں میں ضم کرنے کی کوشش کی۔

جیسے جیسے مقبولیت میں اضافہ ہوا، شینن کو یہ فکر ہونے لگی کہ ان کے خیالات کا اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے اور اس لیے وہ اپنی توجہ اور معنی کھو رہے ہیں۔

لیکن ان کا کام اتنا انقلابی تھا کہ اسے انٹرنیٹ سے لے کر ڈی این اے میں جینیاتی معلومات تک، بہت سارے شعبوں میں استعمال کیا جانے لگا، حالانکہ انھوں نے ویب کے وجود یا ڈبل ہیلکس کی دریافت سے کئی دہائیوں پہلے اسے وضع کیا تھا۔

یہاں شینن کو اپنے ماؤس کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جسے انھوں نےافسانوی یونانی ہیرو کے نام پر تھیسس رکھا تھا جس نے مینوٹور کو مار کر خود کو خوفناک بھولبلییا سے بچا لیا تھا
Getty Images
یہاں شینن کو اپنے ماؤس کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جسے انھوں نےافسانوی یونانی ہیرو کے نام پر تھیسس رکھا تھا

بہر حال ان کی یہ تشویش زیادہ دیر تک نہیں رہی اور شینن کی دلچسپیاں بھی بدل گئیں۔

’اے مائنڈ ایٹ پلے‘ نامی کتاب کے شریک مصنف جمی سونی نوٹ کرتے ہیں کہ ان کا نہ صرف ایک شاندار نظریاتی ذہن تھا بلکہ وہ ایک غیر معمولی زندہ دل، عملی اور اختراعی ذہن کے بھی مالک تھے۔

اس لیے انھوں نے اپنے آپ کو پوری طرح سے کسی ایسی چیز کے لیے وقف کر دیا جس نے انھیں ہمیشہ متوجہ کیا تھا۔

1950 کی دہائی کا بیشتر حصہ شینن نے تجربہ گاہوں میں خواب دیکھنے اور پھر آلات بنانے میں گزارے۔

ان میں سے کچھ ایسے پروٹو ٹائپ نکلے جسے اب ’مصنوعی ذہانت‘ کہا جاتا ہے۔

ان میں مشہور ’ماؤس تھیسس‘ بھی تھا جو آزمائش اور غلطی کے ساتھ بھول بھلیاں کو حل کر سکتا تھا۔ وہ حل بھی یاد رکھ سکتا تھا اور اسے بھول بھی سکتا تھا۔

انھوں نے ایک بار وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’میں وہی کرتا ہوں جو مجھے قدرتی طور پر آتا ہے اور افادیت میرا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ میں ہر وقت نئے مسائل کو حل کرنا پسند کرتا ہوں۔‘

’میں اپنے آپ سے پوچھتا رہتا ہوں: کیا ایسا کرنے کے لیے کوئی مشین بنانا ممکن ہے؟ کیا آپ اس تھیورم کو ثابت کر سکتے ہیں؟ یہ اس قسم کے مسائل ہیں جن سے میں نمٹتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ میں کوئی مفید کام کرنے جا رہا ہوں۔‘

’میں مشہور شخصیت نہیں بننا چاہتا‘

اپنے نظریے کی اشاعت کے بعد شینن نے لیکچر یا انٹرویوز دینے کی بے شمار دعوتوں کو ٹھکرا دیا کہ ’میں مشہور شخصیت نہیں بننا چاہتا۔‘

بعد میں انھوں نے نہ صرف عوام کے سامنے آنا چھوڑ دیا بلکہ تحقیقی برادری سے بھی دور ہونے لگے۔

تاہم انھوں نے ایجادات کا سلسلہ جاری رکھا، جیسے کہ ان کا تھروبیک کیلکولیٹر جو حساب کے لیے رومن ہندسوں کا استعمال کرتا ہے، اور جوئے بازی کے اڈوں میں رولیٹی کو مات دینے کے لیے ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر۔

انھوں نے ہورگن کو بتایا کہ ’میں بیکار چیزوں پر بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہوں۔‘

انھوں نے کارآمد ایجادات بھی کیں اور سٹاک کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے کئی ریاضیاتی ماڈلز تیار کیے اور سٹاک مارکیٹ میں ان کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔

اگرچہ اگر کوئی ان کے پاس ان سے مشورہ کرنے کے لیے جاتا تو وہ اس کے سامنے سب کچھ نکال کر رکھ دیتے لیکن انھوں نے الگ تھلگ رہنا پسند کیا اور پھر سنہ 1960 کی دہائی کے وسط میں انھوں نے پڑھانا بھی چھوڑ دیا۔

وہ سرکاری طور پر سنہ 1978 میں ریٹائر ہوئے لیکن شینن خوشی خوشی اپنے ’اینٹروپی ہاؤس‘ نامی مکان میں واپس چلے گئے جہاں ان کے کھلونوں کا کمرہ بھی تھا۔

ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو سے بات کرتے ہوئے ان کی اہلیہ بیٹی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذہانت کم نہیں ہوئی تھی اور ’وہ اب بھی چیزیں بنا رہے تھے!‘

پورٹیبل رولیٹی کمپیوٹر (بائیں) اور باؤنسر (ڈبلیو سی فیلڈز) شینن کی بہت سی تخلیقات میں سے دو
Cortesía del Museo de MIT
شینن کی بہت سی تخلیقات میں سے پورٹیبل رولیٹی کمپیوٹر (بائیں) اور باؤنسر (ڈبلیو سی فیلڈز)

وہ عوام میں بہت کم دیکھے جاتے لیکن 1985 میں بیٹی کی حوصلہ افزائی سے انھوں نےانگلینڈ میں بین الاقوامی سمپوزیم آن انفارمیشن تھیوری میں غیر متوقع طور پر شرکت کی۔

سمپوزیم کے چیئرمین رابرٹ جے میک ایلیس نے کہا کہ ’یہ ایسا ہی تھا جیسے نیوٹن ایک فزکس کانفرنس میں نمودار ہوا ہو۔‘

افسوس کی بات ہے کہ اسی سال انھوں نے اور بیٹی نے محسوس کیا کہ ان میں یادداشت کی کچھ خرابیاں ہونے لگیں ہیں اور پھر سنہ 1993 میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ الزائمر کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ان کے خاندان نے انھیں ایک نرسنگ ہوم میں رکھا، جہاں 2001 میں وہ وفات پا گئے۔

سنہ 1960 کی دہائی میں شینن کے ساتھ کام کرنے والے نامور انجینئر رابرٹ جی گیلگر نے تبصرہ کیا کہ ’کلاڈ نے جدید ٹیکنالوجی کو ممکن بنانے کے لیے اتنا کچھ کیا کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ کہاں سے آغاز کرنا ہے اور کہاں ختم کرنا ہے۔‘

’اس کے پاس آئن سٹائن جیسی یہ صلاحیت تھی کہ وہ ایک پیچیدہ مسئلے کو لے کر اس کا تجزیہ کرنے کا صحیح طریقہ تلاش کریں تاکہ چیزیں بہت آسان ہو جائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.