بلوچستان: نقل کے لیے زیرو ٹالرینس پالیسی، پوری انتظامی مشینری میدان میں

image
بلوچستان میں بدھ سے شروع ہونے والے میٹرک کے سالانہ امتحانات میں نقل کی روک تھام کے لیے حکومت نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں۔ صوبے کے تقریباً تمام محکموں کے سیکریٹریز، انتظامی سربراہان، ڈویژنل کمشنرز اور 36 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو امتحانات کی نگرانی پر مامور کر دیا ہے۔

امتحانی مراکز میں اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر نائب تحصیلدار سطح کے افسران کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ 

بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اور سکینڈری ایجوکیشن کے تحت 8 مارچ تک جاری رہنے والے نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات میں ایک لاکھ 42 ہزار طلبہ شریک ہیں جن کے لیے 438 امتحانی مراکز بنائے گئے ہیں اور 1300 اساتذہ کو بطور نگران تعینات کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں ہر بار امتحانات کے دوران نقل اور بے قاعدگیوں کی شکایات سامنے آتی ہیں اور مارچ 2022 میں ایک سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات لینے والے بورڈ غیر قانونی پیسہ کمانے کا ادارہ بن گئے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا تھا کہ نہ صرف امتحانی پرچے بلکہ امتحانی مراکز بھی فروخت ہوتے ہیں۔

تاہم اس بار حکومت نے بلوچستان بورڈ پر انحصار نہیں کیا جو بد انتظامیوں اور بے قاعدگیوں کے لیے جانا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں پوری انتظامی مشینری کو میدان میں اتار دیا ہے۔

حکام کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی اور چیف سیکریٹری کی ہدایت پر نقل کے لیے زیرو ٹالرینس یعنی صفر برداشت کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت نے اس بار اس ناسور کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے ہیں۔

محکمہ داخلہ نے صوبے بھر میں 11 فروری سے امتحانات ختم ہونے تک دفعہ 144 نافذ کر کے امتحانی مراکز کے 100 گز کے اندر غیر متعلقہ افراد کے جمع ہونے، ایک کلومیٹر کی حدود میں فوٹو سٹیٹ کی دکانیں کھلی رکھنے اور امتحانی مراکز میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔ امتحانی مراکز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب اور پولیس اور لیویز اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

 نقل کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ڈپٹی کمشنرز کو بھی امتحانات کی نگرانی پر مامور کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امتحانی مراکز کو تبدیل کرنے پر بھی پابندیعائد کی گئی تھی تاہم اس پابندی کو ایک روز بعد واپس لے لیا گیا۔ بلوچستان بورڈ کے حکام کے مطابق حالیہ سالوں میں پہلی بار نگران عملے کی تعیناتی قرعہ اندازی کے ذریعے کی گئی جبکہ نگرانی کا بیشتر کام اساتذہ کے بجائے انتظامی افسران سے لیا جا رہا ہے۔

ان انتظامی افسران کی جانب سے سوشل میڈیا پر اعلانات کیے گئے ہیں کہ نقل کرتے ہوئے کسی کو پکڑا گیا تو طلبہ کا پرچہ منسوخ کر کے اس کے اور سہولت کار کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا جبکہ موبائل استعمال کرنے پر ضبط کر لیا جائےگا۔

ڈویژنل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنر نے اپنے اپنے اضلاع میں محکمہ تعلیم اور دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ اجلاس بلا کر ہر امتحانی مرکز میں اسسٹنٹ کمشنر،تحصیلدار، نائب تحصیلدار کو صبح سے لے کر شام تک ڈیوٹی دینے کا پابند بنایا ہے۔ 

بعض علاقوں میں اعلیٰ افسران کی کمی کی وجہ سے جنگلات، لائیو سٹاک، بلدیات جیسے اداروں اور پٹواری کی سطح کے اہلکاروں کو بھی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ انہیں پرچہ ختم ہونے کے بعد پرچوں کو اپنی ذمہ داری میں متعلقہ مقام تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔

چیف سیکریٹری بلوچستان خود اس سارے عمل کی نگرانی کررہے ہیں ۔ انہوں نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری، سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو، تعلیم، صحت کے محکموں کے سیکریٹریز سمیت صوبے کے 30 سے زائد محکموں کے سربراہان سمیت گریڈ 21 سے لے کر گریڈ 18 تک 59 افسران کو صوبے کے 36 اضلاع میں چار مراحل میں دورے کر کے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

افسران کو آواران، کیچ، خاران، واشک سمیت دیگر ان حساس اضلاع کے دورے کرنے کی بھی ہدایات کی گئی ہے جہاں سکیورٹی کی صورتحال غیر مستحکم اور مخدوش ہے۔

امتحانی مراکز میں سی سی ٹی وی کیمروں کے علاوہ  پولیس اور لیویز اہلکاروں کو بھی تعینات کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان میں سرکاری افسران کی تنظیم آفیسرز ویلفیئرز ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ کا کہنا ہے کہ حکومت کا انتظامی افسران، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز سے لے کر پٹواریوں تک غیر متعلقہ افسران کو امتحانات کی نگرانی پر لگانا مضحکہ خیز ہے۔

اردونیوز سے بات کرتے ہوئے عبدالمالک کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’امتحانات لینا بلوچستان کے تعلیمی بورڈ کا کام ہے اگر اس میں خامیاں ہیں اور وہ اپنا کام درست نہیں کر سکتے تو اس میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے افسران کی صوبے کے ان علاقوں میں تعیناتیوں پر تشویش کا اظہار کیا جہاں سکیورٹی کی صورتحال خطرناک، رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں۔ 

تاہم حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ سرکاری افسران کو جہاں ضرورت ہو وہاں تعینات کرے۔ 

سال 2022 میں کرائی گئی سرکاری تحقیقات میں بلوچستان کے امتحانی نظام میں بڑے پیمانے پر بد عنوانی، بے قاعدگیوں اور ہیرا پھیرا کے ٹھوس شواہد ملے تھے ۔ محکمہ کالجز و ہائیر ایجوکیشن کے سیکریٹری بشیر بنگلزئی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی نے پیسوں کے عوض پرچوں میں طلبہ کے نمبر بڑھانے، طلبہ کو من پسند امتحانی مراکز میں امتحان دینے اور دیگر غیر قانونی سہولیات کی فراہمی کا انکشاف کیا تھا۔

اس رپورٹ میں بورڈ حکام کو بے قاعدگیوں کا ذمہ دار قرار دے کر امتحانی نظام میں اصلاحات کی سفارش بھی کی گئی تھی۔ 

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ نقل کا رجحان صرف امتحانی نظام کی ناکامی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی، اساتذہ کی قلت، اور نصاب کی غیر معیاری تعلیم بھی ہے۔

بلوچستان بورڈ کےسابق چیئرمین پروفیسر سعداللہ توخئی کے مطابق بلوچستان میں بہت سے سکولوں میں انگریزی، سائنس، اور ریاضی کے اساتذہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کورس مکمل نہیں کر پاتے اور نقل کا سہارا لیتے ہیں۔

حکومتی اہلکاروں کو ان اضلاع کا دورہ کرنے کا بھی کہا ہے جہاں سکیورٹی کی صورتحال غیرمستحکم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

محکمہ تعلیم کے مطابق بلوچستان کا تقریباً ہر چوتھا سکول غیر فعال اور تقریباً دو ہزار سے زائد اساتذہ بیرون ملک بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ 

ماہرین کے مطابق بلوچستان میں اب بھی رٹا لگانے (Rote Learning) کا نظام رائج ہے جس میں طلبہ کو صرف معلومات رٹائی جاتی ہیں۔ اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ طلبہ کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں دے پاتے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ حکومت تعلیمی نظام کو مرحلہ وار بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں نقل کی روک تھام، دوسرے مرحلے میں میرٹ پر سکالرشپس کی فراہمی، اور تیسرے مرحلے میں تعلیمی نظام کی بہتری پر کام کیا جائے گا۔

ٹیچر یونین کے سابق عہدے دار قاسم خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے آدھا ملک ہے یہاں صرف ایک تعلیمی امتحانی بورڈ ہے جبکہ ملک بھر میں 30 سے زائد بورڈ ہیں۔ بلوچستان میں امتحانی نظام کو بہتر بنانے اور شفافیت اور نگرانی مؤثر بنانے کے لیے مزید دو یا تین نئے بورڈ بنانے کی ضرورت ہے جبکہ گرم اور سرد علاقوں کے امتحانات الگ الگ لیے جائیں اور نگران عملہ میرٹ پر تعینات کیا جائے۔ 

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.