گرم جوشی اور قہقہوں کے تبادلے کے بعد ٹرمپ، مودی ملاقات میں کون سے اہم معاملات اور مسائل زیر بحث آئیں گے؟

رواں ہفتے جب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی دورہ امریکہ پر واشنگٹن پہنچیں گے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے تو اُن کے درمیان گرم جوش معانقے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ تو ہو گا ہی، لیکن یہ ملاقات محض یہاں تک محدود نہیں ہو گی۔
تصویر
Getty Images

رواں ہفتے جب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی دورہ امریکہ پر واشنگٹن پہنچیں گے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے تو اُن کے درمیان گرم جوش معانقے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ تو ہو گا ہی، لیکن یہ ملاقات محض یہاں تک محدود نہیں ہو گی۔

گذشتہ برسوں کے دوران ٹرمپ اور مودی کے درمیان مضبوط ذاتی تعلقات اُستوار ہوئے ہیں، جس کا اظہار ہائی پروفائل میٹنگز اور دونوں رہنماؤں کے مختلف فورمز پر اکھٹا نظر آنے سے ہوتا ہے۔

سنہ 2017 میں واشنگٹن میں ہونے والی اُن کی پہلی ملاقات کے بعد سے اُن کا تعلق باہمی تعلق کافی مضبوط ہوا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں رہنماؤں نے ہیوسٹن اور احمد آباد میں منعقدہ بڑی ریلیوں میں مشترکہ طور پر شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ کئی دیگر مواقع پر خوش گپیاں کرتے بھی نظر آئے۔

اُن کے درمیان کی کیمسٹری مشترکہ عالمی نظریات، سیاست اور چین کا مقابلہ کرنے کے باہمی سٹریٹجک فوکس سے جنم لیتی ہے۔ (دونوں ممالک کے لیے) چین ایک ایسی تشویش ہے جس نے امریکہ اور انڈیا کی وسیع تر شراکت داری کو مزید مضبوط کیا ہے۔

اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اگرچہ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر انڈیا کو تو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی نریندر مودی پر تنقید نہیں کی۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مودی کے اس دورہ امریکہ کے دوران دونوں رہنما ممکنہ طور پر امریکہ، انڈیا سٹریٹجک پارٹنرشپ، جو پہلے ہی کافی اچھی ہے، کے اگلے مراحل کے خدوخال پر بات چیت میں وقت گزاریں گے۔

رپورٹس کے مطابق اس دورے کے دوران وزیراعظم مودی ٹرمپ انتظامیہ کے کئی اراکین کے ساتھ ساتھ امریکی کاروباری شخصیات اور انڈین نژاد امریکی کمیونٹی کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

اس دورے کے دوران اُن کی ملاقات ’سپیس ایکس‘ اور ’ٹیسلا‘ کے سربراہ ایلون مسک سے بھی ہو سکتی ہے۔ مودی انڈیا میں الیکٹرک گاڑیوں کے شعبے کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں اور اگر ایلون مسک انڈیا میں ٹیسلا کی فیکٹری قائم کرنے کا عندیہ دیتے ہیں تو یہ اُن (مودی) کے لیے ایک خوش آئند بات ہو گی۔

محصولات

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی
AFP
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی

تاہم ٹرمپ، مودی کی رفاقت اور سٹریٹیجک شراکت داری سے متعلق گفتگو چند سنجیدہ حقائق کو نہیں چھپا سکتی کیونکہ مودی کے اس دورہ امریکہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے باوجود لین دین یعنی تجارت کا پہلو نمایاں ہو گا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ کے پاس اس حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کے سامنے رکھنے کے لیے امریکی مطالبات کی طویل فہرست ہے۔

دہلی ٹرمپ کو اچھی طرح جانتا ہے۔ مودی کی موجودہ کابینہ کے بہت سے وزرا اُن کی پچھلی مدت اقتدار کے دوران بھی خدمات انجام دے رہے تھے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ شناسائی پچھلے مہینے ٹرمپ کے بطور صدر افتتاح کے بعد سے ظاہر ہونے لگی ہے اور دہلی میں رہنماؤں نے عوامی طور پر درآمدی محصولات کو کم کرنے، غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس لینے اور امریکی تیل خریدنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

انڈیا پہلے ہی کچھ مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں کمی کر چکا ہے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے امریکہ سے ڈی پورٹ ہونے والے اپنے 104 غیر قانونی شہریوں کو واپس لے چکا ہے۔ دہلی کی جانب سے اٹھائے گئے اِن پیشگی اقدامات کا مقصد ٹرمپ کو انڈیا سے مخصوص مطالبات کرنے سے روکنا اور نئی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تناؤ کے امکانات کو کم کرنا ہے۔

ان سب کے باوجود ٹرمپ انڈین وزیر اعظم مودی سے محصولات میں مزید کمی کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں تاکہ انڈیا کے ساتھ امریکی اشیا اور خدمات کے تجارتی خسارے کو دور کیا جا سکے، جو کہ حالیہ برسوں میں 46 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن یہ چیز انڈیا کے لیے ایک موقع بھی بن سکتی ہے۔ مودی ٹرمپ سے اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دو طرفہ بات چیت کے لیے کہہ سکتے ہیں جس کا مقصد دونوں طرف سے محصولات کو کم کرنا ہو گا۔

حالیہ برسوں میں دہلی نے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو آگے بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں بات چیت کے لیے زیادہ رضامند ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے نئے تجارتی معاہدوں پر ماحولیات اور مزدوروں کی صورتحال سے متعلق بھاری شرائط عائد کی تھیں۔

غیر قانونی انڈین تارکین وطن

امریکہ میں سب سے زیادہ انڈینز کو ایچ-1 بی ویزا ملا ہوا ہے
Getty Images
امریکہ میں سب سے زیادہ انڈینز کو ایچ-1 بی ویزا ملا ہوا ہے لیکن غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے

ٹرمپ مودی سے مزید غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو واپس لینے کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کچھ اندازوں کے مطابق امریکہ میں غیرقانونی انڈین شہریوں کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کا تیسرا سب سے بڑا گروہ ہیں۔ تاہم دہلی کے لیے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو واپس لینا ایک مشکل اور نازک مسئلہ ہو گا۔

گذشتہ ہفتے جب غیر قانونی تارکین وطن کی پہلی کھیپ ہتھکڑیوں، بیڑیوں میں اور امریکی فوجی طیارے پر سوار انڈیا واپس پہنچی تھی تو اُن کے ساتھ ہونے والی مبینہ بدسلوکی پر انڈیا میں کافی شور برپا ہوا تھا۔ اس پر انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ انڈین حکومت امریکہ کے ساتھ بات کر کے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ انڈین شہریوں کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے۔

ٹرمپ اس کے علاوہ مودی سے مزید امریکی تیل خریدنے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔

سنہ 2021 میں امریکی تیل کی برآمدات میں انڈیا سرفہرست تھا لیکن یوکرین پر روسی حملے نے تیل کی عالمی منڈیوں میں بڑی تبدیلیاں کیں اور دہلی نے اپنے قریبی پارٹنر روس سے سستے تیل کی درآمدات کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ایسے میں امریکی تیل کی قیمت اس بات کا تعین کرے گی کہ انڈیا امریکہ سے کتنا تیل خریدنے کو تیار ہے۔

دوسری جانب نریندر مودی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ انڈیا جوہری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری چاہتا ہے۔ دہلی اپنی جوہری ذمہ داری کے قانون میں ترمیم کر رہا ہے اور اس نے ایک نئے جوہری توانائی مشن کا اعلان بھی کیا ہے۔

انڈیا 2030 تک قابل تجدید توانائی کے ذریعے اپنی نصف توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ سے جوہری ایندھن میں سرمایہ کاری کرنے کا کہنا ایک ممکنہ خوش کن امر ہے کیونکہ یہ پیٹرول وغیرہ سے زیادہ صاف متبادل ہے، لیکن یہ شمسی اور ہوا کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائي سے بہت دور ہے، اور یہ بات ٹرمپ انتظامیہ کے لیے زیادہ پرکشش نہیں ہو سکتی۔

اس دوران شاید ٹیکنالوجی کے شعبے میں فروغ پر بھی بات کی جائے گی۔

ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون

امریکہ میں 2019 میں مودی کو دیکھنے کے لیے پہنچنے والے انڈینز
Getty Images
امریکہ میں 2019 میں مودی کو دیکھنے کے لیے پہنچنے والے انڈینز

ٹیکنالوجی کا شعبہ بائیڈن کے دور میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں تیزی سے بڑھنے والا شعبہ تھا اور یہ سب سنہ 2022 میں ’انیشیٹو آن کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘ (آئی سی ای ٹی) کے نفاذ کی بدولت تھا۔ اسے دونوں فریق سٹریٹجک شراکت داری کے لیے ایک نئے سنگِ میل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

آئی سی ای ٹی براہ راست دو قومی سلامتی مشیروں کی نگرانی میں تھا تاکہ بیوروکریسی کے چکر میں پھنسنے سے بچا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دونوں ممالک اس میں سرمایہ کاری کریں گے۔

مودی ممکنہ طور پر ٹرمپ اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز سے یقین دہانی چاہیں گے کہ وہ اس معاہدے پر کاربند رہیں۔ چین کا مقابلہ کرنے پر واشنگٹن کی توجہ کو دیکھتے ہوئے وہ انڈیا کو ٹیکنالوجی کی عالمی سپلائی چین کا ایک بڑا حصہ بنا کر شاید ایسا کریں گے۔

ٹیک کوآپریشن کے معاملے میں مودی ٹرمپ کو ایچ-1 بی ویزا نظام برقرار رکھنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ویزا انتہائی ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے ہوتا ہے لیکن اس پر ٹرمپ کے کچھ بااثر حامیوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے اور یہ ویزا امریکہ میں بڑی تعداد میں انڈین ٹیک ملازمین کو دیا گیا ہے۔

واشنگٹن میں مودی کی بات چیت کے دوران دوسرے ممالک بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ بطور خاص ایران پر بات ہو سکتی ہے۔

دہلی چابہار شہر میں ایک بندرگاہ تیار کرنے کے لیے تہران کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے۔ اور یہ ایران اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے کو مضبوط کرنے کی وسیع تر انڈین حکمت عملی کا حصہ ہے۔

لیکن گذشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ نے ایک صدارتی میمورنڈم جاری کیا ہے جس میں تہران پر ٹرمپ کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ والی مہم کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور اس میں چابہار میں تجارتی سرگرمیوں میں شامل ممالک کے لیے پابندیوں سے چھوٹ کو ہٹانے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ مودی اس بات کی وضاحت طلب کر سکتے ہیں کہ دہلی کے لیے اس کا کیا مطلب ہے۔

چابہار بندرگاہ
Getty Images
امریکہ اور انڈیا کی بات چیت کے دوران ایران اور چابہار پورٹ سے متعلق معاملات بھی زیر بحث آ سکتے ہیں

جنگ کے خاتمے کی مشترکہ خواہش

ٹرمپ اپنی وسیع تر خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے ضمن میں یوکرین اور غزہ میں جنگوں کو ختم کرنے پر مودی کی پوزیشن جاننا چاہیں گے۔

ان جنگوں کو ختم کرنے میں دہلی کی گہری دلچسپی ہے۔ مودی پوتن یا روس پر تنقید کیے بغیر تنازع کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ٹرمپ بھی وہاں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

روس کے ساتھ انڈیا کے خصوصی تعلقات اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ٹرمپ کو یہ دیکھنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ آیا مودی بھی تیسرے فریق یا ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ مودی شاید صرف اس صورت میں ایسا کرنے میں آسانی محسوس کریں گے جب فریقین بھی بیرونی ثالثی کو قبول کریں۔

لیکن رواں ہفتے ممکنہ طور پر بات چیت کے دوران نازک مرحلے آ سکتے ہیں لیکن ان باوجود دونوں رہنما مثبت لہجہ برقرار رکھنا چاہیں گے۔

اس سلسلے میں انڈو پیسیفک کواڈ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔

ٹرمپ اس گروپ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور یہ امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل چار فریقی گروپ ہے جس کی توجہ کا مرکز بیجنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔

اپنی پہلی مدت میں ٹرمپ نے کواڈ کی سالانہ میٹنگز کو وزیر خارجہ کی سطح تک محدود رکھا تھا لیکن بائیڈن نے انھیں سربراہوں کی سطح تک بڑھا دیا۔

رواں سال انڈیا کواڈ میٹنگ کی میزبانی کرنے والا ہے اور مودی اس میں شرکت کے لیے ٹرمپ کو دہلی مدعو کر سکتے ہیں۔

مبینہ طور پر ٹرمپ بین الاقوامی سفر کے بہت پرستار نہیں ہیں لیکن مودی کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کو گہرا کرنے اور کثیر جہتی دو طرفہ شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے شاید وہ انڈیا کا دورہ کرنے کے خواہاں ہوں گے۔

مائیکل کوگل مین واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.