سپرم عطیہ کرنے والے شخص کا خفیہ سیکس کے دعوے کے بعد حق ولدیت کا مطالبہ جسے عدالت نے مسترد کیا

رابرٹ کسی لائسنس شدہ کلینک کی مدد سے عطیات نہیں دے رہے تھے جو عطیات کی مدد سے بچوں کی حد کا پیمانہ رکھتے ہیں اور نہ ہی رابرٹ صحت کے ضروری چیک اپ کروا رہے تھے۔

کسی بے اولاد جوڑے کے لیے سپرم کا عطیہ زحمت کیسے بن سکتا ہے، یہ معاملہ حال ہی میں 180 سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے لیے عطیہ دینے والے ایک شخص کی کہانی سے سامنے آیا۔

رابرٹ چارلس ایلبون نامی شخص، جو خود کو ’جو ڈونر‘ کہلاتے ہیں، کا دعوی ہے کہ انھوں نے آن لائن تشہیر کی مدد سے دنیا بھر میں عطیہ دیا اور وہ 180 بچوں کے والد ہیں۔

تاہم ان کا یہ عطیہ ایک جوڑے کے لیے ڈراؤنی کہانی میں اس وقت بدلا جب رابرٹ نے اپنے سپرم سے پیدا ہونے والے بچے کی ولدیت کے حقوق کا مطالبہ کر دیا۔

یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا جہاں جج نے رابرٹ کی کہانی کو سپرم عطیہ کرنے سے جڑے خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔

بی بی سی نے رابرٹ سے رابطہ کیا تاکہ ان کا جواب شامل کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ عام طور پر بین الاقوامی عدالتوں میں بچوں کے حوالے سے مقدمات میں والدین کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا تاہم اس مقدمے میں جج نے کہا کہ رابرٹ کا نام ظاہر کرنا عوامی مفاد میں ضروری ہے۔

عدالت کے فیصلے میں، جج جوناتھن فرنیس کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کو رابرٹ کے سپرم کا عطیہ استعمال کرنے کے خطرات سمیت سپرم کے ایسے عطیات کے استعمال کے نتائج کے بارے میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو قواعد ضوابط سے ہٹ کر وصول کیے جاتے ہیں۔

اس مقدمے کے مطابق رابرٹ کے سپرم کے عطیے کی مدد سے ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے جوڑے نے سرنج انجیکشن کی مدد سے بچہ پیدا کیا تاہم رابرٹ کا دعوی ہے کہ انھوں نے ماں بننے والی خاتون سے خفیہ طور پر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر سیکس کیا تھا۔ عدالت نے ان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔

کارڈف کی عدالت میں بتایا گیا کہ پچاس سالہ رابرٹ بچے کے لیے مکمل طور پر اجنبی ہیں اور صرف ایک بار دس منٹ کے لیے اس وقت بچے کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے ملے تھے جب وہ چند ہی ہفتوں کا تھا۔

رابرٹ نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ بچے کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ پر ان کا نام بطور والد تحریر کیا جائے، بچے کے نام میں تبدیلی کی جائے اور انھیں ولدیت کی ذمہ داری سونپی جائے۔

رابرٹ یہ بھی چاہتے تھے کہ بچے کی ماں کو آنٹی بلایا جائے اگرچہ کہ انھوں نے پیدائش سے ہی بچے کی ماں کا کردار نبھایا۔

بچے کی دونوں ماؤں کا کہنا ہے کہ دو سال تک چلنے والی قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے پریشانی نے ان کے تعلق کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مقدمے کی وجہ سے بچے کی حیاتیاتی والدہ کو پریشانی کے علاوہ ڈپریشن اور خود کشی کے خیالات کا بھی سامنا رہا۔

واضح رہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ 2023 میں ہی سنایا جا چکا تھا تاہم اس کو عوامی سطح پر اب عام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے میں کہا گیا کہ رابرٹ کا دعوی تھا کہ وہ بچے کی فلاح و بہبود کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے صرف ان کی ذات اہم تھی۔

جج نے فیصلے میں لکھا کہ رابرٹ نے، جو امریکی شہری ہیں، انگلینڈ کے شمال مشرق میں رہائش اختیار کرنے کے بعد یہ مقدمہ دائر کیا تاکہ برطانیہ میں امیگریشن ممکن ہو سکے۔ رابرٹ اس کی تردید کرتے ہیں۔

تاہم جج نے لکھا کہ رابرٹ حقیقت میں ایکسپرم عطیہ کرنے والے شخص کابچے ایسے مرد ہیں جو کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

سپرم ڈونر
BBC

عدالت نے لکھا کہ خواتین اور بچے اس کے نزدیک اشیا ہیں، اور وہ دنیا بھر میں چین، امریکہ، ارجنٹائن، آسٹریلیا اور برطانیہ صرف چند ایسے ممالک ہیں جہاں اس نے سپرم عطیہ کیا، اپنے بچوں کی تعداد میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔

جج نے فیصلے میں لکھا کہ بچے کا نام بدلنے سے اس کی فلاح میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہوتی اور بچے اور رابرٹ کے درمیان رابطے بھی بچے کے مفاد میں نہیں۔

رابرٹ کے پاس سالانہ بچے کو ایک کارڈ بھیجنے یا ای میل بھیجنے کا راستہ موجود ہے جو بچے کو اس وقت دکھائے جا سکتے ہیں جب وہ یہ سمجھ بوجھ حاصل کر لے کہ یہ پیغامات بھجوانے والا کون ہے۔

یاد رہے کہ رابرٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک اور انسٹاگرام کی مدد سے اپنی تشہیر کی اور وہ قدرتی سیکس کے ساتھ ساتھ مصنوعی طریقوں سے بھی سپریم کے عطیات فراہم کرتے تھے۔

گزشتہ سال برطانوی اخبار دی سن کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں رابرٹ نے کہا تھا کہ میری وجہ سے 180 بچے پیدا ہوئے اور میں ان میں سے ساٹھ سے مل بھی چکا ہوں۔

’شاید میں ان میں سے اکثریت کو کبھی دیکھ بھی نہ سکوں اور یہ بچے کی والدہ سے تعلق پر منحصر ہوتا ہے لیکن میری ترجیح ہوتی ہے کہ کسی قسم کا رشتہ رہے۔‘

دوسری جانب اس مقدمے میں بچے کی ایک والدہ نے کہا کہ رابرٹ کی جانب سے ولدیت کے حقوق حاصل کرنے کی ضد ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ جج نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کو سپرم کے عطیات سے جڑے خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔

عوام اور ایسی خواتین جو حاملہ ہونا چاہتی ہیں کو علم ہونا چاہیے کہ ایسی ہی ڈراونی کہانی کا خطرہ موجود ہے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ خواتین کو بے ضابطہ عطیات کے نتائج سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے لیکن رابرٹ سے بھی۔

’وہ ایک ایسا شخص ہے جو سپرم کا عطیہ دیتے رہنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ایسی خدمات میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کو اس کے ساتھ کام کرنے کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے۔‘

واضح رہے کہ رابرٹ کسی لائسنس شدہ کلینک کی مدد سے عطیات نہیں دے رہے تھے جو عطیات کی مدد سے بچوں کی حد کا پیمانہ رکھتے ہیں اور نہ ہی رابرٹ صحت کے ضروری چیک اپ کروا رہے تھے۔

برطانوی قوانین کے تحت سپرم کا عطیہ دینے والے ایک شخص کی مدد سے دس خاندان استفادہ کر سکتے ہیں۔

ماضی میں رابرٹ نے دعوی کیا تھا کہ وہ زندگی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے لیے یہ بات تذلیل کے برابر ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف سیکس کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے اس طریقے سے پیسے نہیں کمائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.