پراپرٹی سے متعلق کاروبار پچھلی چند دہائیوں سے پاکستان کے سرمایہ کاروں کا سب سے محبوب شعبہ رہا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے کپڑے کی مِلوں کو بند کر کے ہاؤسنگ سوسائیٹیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا بندہ کاروبار کا آئیڈیا ریئل اسٹیٹ سے متعلق ہی لے کر آتا ہے۔لیکن گذشتہ دو سالوں سے اس سیکٹر سے وابستہ افراد حکومتی پالیسیوں سے کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔ جس بھی ریئل اسٹیٹ کے بزنس مین سے پوچھیں تو وہ یہی کہانی سناتا ہے کہ ہر طرف جمود ہے اور ہر چیز رکی ہوئی ہے۔ بیچنے اور خریدنے والے دونوں اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔اس انحطاط کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کے سیاسی حالات دگرگوں ہوئے۔ اور شور مچا کہ ملک ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے۔ یہ بات 2022 کے شروع کے مہینوں کی ہے۔ حکومت نے معیشت کو بچانے کے لیے جو زور آزمائی کی اس میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر سب سے زیادہ زد میں آیا۔
راحیل منہاس پچھلے 10 سال سے پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’پچھلے دو سال سے تو ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ زیادہ حالات پچھلے سال کے بجٹ نے خراب کیے اس کے بعد تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید حکومت جان بوجھ کر اس کاروبار کو بند کرنا چاہ رہی ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ ریوینیو یہی سیکٹر حکومت کو دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق ٹیکس کی اتنی بھرمار ہے کہ لوگوں نے سرمایہ کاری ہی روک لی ہے۔ اب یہ سن رہے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت کچھ بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے جس سے جون کے بعد مارکیٹ میں ہل چل آئے گی۔ایک اور ریئل اسٹیٹ سرمایہ کار چوہدری غفار کہتے ہیں کہ ’اس وقت مارکیٹ میں خبر ہے کہ جون کے بعد حالات ٹھیک ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے گروپوں کے اندر بھی یہی بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ اپنی تیاری شروع کر لو۔ اگلے چند مہینوں میں بجٹ سے پہلے ہی ہلچل شروع ہو جائے گی کیونکہ ٹیکس واپس ہوتے ہی کام تیز ہوجائے گا۔ ہمیں یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ٹیکس کم کرنے کی سفارشات تیار کر لی گئی ہیں۔‘مالی سال 2024 اور 25 کے بجٹ میں حکومت نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ایف ای ڈی لگایا تھا جب کہ اس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 7 ای کے ذریعے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر بھی ٹیکس بڑھا دیا تھا۔
اب حکومتی حلقوں میں ریئل اسٹیٹ سکیٹر پر لگائے گئے ٹیکسوں کو واپس لینے کی بات ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تاہم ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ اس مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں حکومت کو اس سیکٹر سے نہ ہونے کے برابر آمدن ہوئی ہے۔ جس کے بعد اب ان نئے لگائے ٹیکسوں کو واپس لینے کی بات ہو رہی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کہتے ہیں کہ ’ریئل اسٹیٹ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وزیر اعظم کی ملاقات طے تھی جو دو بار ان کی مصروفیت کی وجہ سے منسوخ ہوئی ہے۔ اب اگلے چند دنوں میں یہ ملاقات ہو گی تو ان کے سامنے سفارشات رکھی جائیں گی۔ اور یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔‘پچھلے چند مہینوں سے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ تنظیمیں اپنے اپنے طور پر حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ وہ ٹیکسوں کے بوجھ کو کم کرے۔بظاہر مارکیٹ کی موجودہ ہوا سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ شاید وہ اپنے مطالبات منوانے کے قریب ہیں اور اس سیکٹر میں ایک بار پھر بڑھوتری کا عمل دیکھنے کو ملے گا۔