کراچی کے ڈیفنس سے لاپتا مصطفیٰ عامر کے قتل کی تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آ گئے ہیں!
پولیس کے مطابق، مصطفیٰ اور ملزم ارمغان کے درمیان گہری دوستی تھی، لیکن نیو ایئر نائٹ پر دونوں میں جھگڑا ہوا جس کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور ایک خاتون کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ 6 جنوری کو ارمغان نے مصطفیٰ کو بلوا کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا، اور بعد ازاں خاتون 12 جنوری کو بیرون ملک روانہ ہو گئی۔ انٹرپول خاتون کو واپس لانے کی کوششیں کر رہا ہے کیونکہ کیس کے لیے اس کا بیان ضروری ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد قتل کی دفعات مقدمے میں شامل کر دی گئی ہیں۔
حب پولیس نے 11 جنوری کو جلی ہوئی گاڑی میں ایک لاش کی اطلاع دی، جس کے بعد تفتیش کا آغاز کیا گیا اور مقدمہ 12 جنوری کو قتل کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔
کراچی پولیس نے مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے درخواست کی ہے، اور ساتھ ہی چھاپہ مارنے والی ٹیم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے حکم کو بھی چیلنج کیا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے اپنی درخواست میں کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج نے ملزم کو تفتیش شروع ہونے سے قبل جیل بھیج دیا، جو انصاف کے خلاف ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو بہانے سے گھر بلوایا اور لوہے کے راڈ سے تشدد کیا، بعد میں ملزمان مصطفیٰ کو نیم بےہوش کرنے کے بعد اس کی ہی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر لے گئے۔ مصطفیٰ کی گاڑی میں ارمغان اورشیراز کیماڑی سےحب چوکی پہنچے۔
پولیس نے مزید انکشاف کیا کہ شیراز کے مطابق ارمغان نے گاڑی پرپیٹرول چھڑکنےکے بعد لائٹر سے دور کھڑے رہ کر آگ لگائی، حب چوکی سے تین گھنٹے پیدل چلنے کے بعد لفٹ لیکر کراچی پہنچے۔ ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 6 جنوری کو کراچی سے اغوا ہونے والے مصطفیٰ عامر کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا دوست ارمغان ہی ہے جس نے مصطفیٰ کو قتل کے بعد اسی کی گاڑی میں حب کے قریب لے جاکر گاڑی سمیت جلادیا گیا۔