ابھی 104 غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں انڈیا واپس بھیجنے کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات سے تقریباً دو گھنٹے قبل تمام ممالک پر ریسیپروکل ٹیرف یعنی جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔
انڈین وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس میں جوابی محصولات کی باتابھی 104 غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں انڈیا واپس بھیجنے کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات سے تقریباً دو گھنٹے قبل تمام ممالک پر ریسیپروکل ٹیرف یعنی جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔
ٹرمپ نے 13 فروری بروز جمعرات ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں جوابی محصولات کی منصوبہ بندی کا حکم دیا گیا۔ انڈیا میں وزیر اعظم مودی کے امریکہ کے دورے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کے ٹرینڈز گشت کر رہے ہیں جن میں 'بلیک ڈے'، 'میک انڈیا گریٹ اگین' اور 'اڈانی' وغیرہ سر فہرست ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ 'صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصفانہ، آزاد، باہمی تجارت کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ امریکہ اب کسی دوسرے ملک کی طرف سے زیادہ قیمتوں کو برداشت نہیں کرے گا۔'
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ مساوی بنیاد پر باہمی تجارت اس عدم توازن کو درست کرے گی۔ جبکہ نریندر مودی نے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کی طرز پر انڈیا کی اقتصادی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے ’میک انڈیا گریٹ اگين‘ کی بات کہی اور کہا کہ جب یہ دونوں ملیں گے تو ’میگا‘ یعنی عظیم بنیں گے۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے ریسیپروکل ٹیرف کی بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا بہت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے انڈیا کے ساتھ تجارتی خسارے کی بات بھی کہی ہے جس پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔
انڈیا کے وزیر اعظم سے انڈین تاجر گوتم اڈانی کے متعلق سوال ہواریسیپروکل ٹیرف کیا ہے؟
ٹیرف یا محصول ایک ملک سے درآمد شدہ مصنوعات پر عائد ٹیکس ہے۔ سامان درآمد کرنے والی کمپنی اپنے ملک کی حکومت کو اس کی ادائیگی کرتی ہے۔ بعض ممالک عام طور پر بعض شعبوں کو غیر ملکی مسابقت سے بچانے کے لیے زیادہ محصولات عائد کرتے ہیں۔
ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ اگر کوئی ملک امریکی ساز و سامان پر زیادہ درآمدی ڈیوٹی یا محصول لگاتا ہے تو امریکہ بھی اس ملک سے آنے والی اشیا پر زیادہ درآمدی ڈیوٹی یا ٹیرف لگائے گا۔ اسی کو ٹرمپ ریسیپروکل ٹیرف یا جیسے کو تیسا کہہ رہے ہیں۔
تجارتی امور کے ماہر بسواجیت دھر نے بی بی سی کی سربھی گپتا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ریسیپروکل ٹیرف کا مطلب وہ ٹیرف ہے جو دو ممالک اپنی باہمی تجارت پر لگاتے ہیں، جیسا کہ انڈیا امریکہ سے آنے والے سامان پر جو ٹیرف لگاتا ہے اور جو ٹیرف امریکہ انڈیا سے آنے والے سامان پر لگاتا ہے، دونوں کو برابر ہونا چاہیے۔'
بسواجیت دھر نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے باہمی محصولات پر جاری کردہ فیکٹ شیٹ کے حوالے سے یہ باتیں کہی ہیں۔
فیکٹ شیٹ میں لکھا ہے کہ 'امریکہ جن ممالک کو موسٹ فیورڈ نیشن (ایم ایف این) کا درجہ دیتا ہے ان کی زرعی مصنوعات پر اوسطاً 5 فیصد ٹیرف لگاتا ہے۔ لیکن انڈیا ان ممالک کی زرعی مصنوعات پر 39 فیصد ٹیرف لگاتا ہے جن کو وہ ایم ایف این کا درجہ دیتا ہے۔ انڈین موٹر سائیکلوں پر امریکہ صرف 2.4 فیصد ٹیرف لگاتا ہے جبکہ انڈیا امریکی موٹر سائیکلوں پر 100 فیصد ٹیرف لگاتا ہے۔'
ریسرچ گروپ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کے بانی اجے سریواستو اس فیکٹ شیٹ میں کیے گئے موازنے کو بے جا قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'اس طرح کا موازنہ مناسب نہیں ہے کیونکہ امریکی زرعی مصنوعات پر انڈیا کا اصل ٹیرف مصنوعات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ جب کہ موٹر سائیکلوں کے معاملے میں، اس فیکٹ شیٹ میں پورے آٹو سیکٹر کا موازنہ کرنے کے بجائے صرف ایک پروڈکٹ کا موازنہ کیا گیا ہے۔'
اجے سریواستو کے مطابق انڈیا نے یکم فرووری کو پیش کیے گئے اپنے سالانہ بجٹ میں موٹر سائیکلوں پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی ہے۔ 1600 سی سی سے زیادہ انجن والی ہیوی ویٹ بائیکس پر ٹیرف 50 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد اور چھوٹی بائیکس پر ٹیرف 50 سے کم کر کے 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیکٹ شیٹ میں موٹر سائیکلوں پر 100 فیصد ٹیرف کا ذکر بھی غلط ہے۔
اسے بعض ناقدین نے انڈین پی ایم کے امریکی دورے سے قبل صدر ٹرمپ کے سخت رویے کو نرم کرنے کی حکمت عملی کہا تھا۔
صدر ٹرمپ نے انڈیا سمیت تمام ممالک پر جوابی ٹیکس لگانے کی بات کہی ہےجوابی محصولات پر ٹرمپ کی پریس کانفرنس
جوابی ٹیرف پر اپنی پریس کانفرنس میں، ٹرمپ نے انڈیا پر حد سے زیادہ محصولات عائد کرنے کا الزام لگایا۔
پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ کس قسم کے تجارتی اور ٹیرف تعلقات رکھنا چاہیں گے تو ٹرمپ نے انڈیا کو سب سے زیادہ ٹیرف عائد کرنے والا ملک قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا: 'انڈیا بہت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت میں انڈیا میں اپنی موٹر سائیکل ہارلے ڈیوڈسن فروخت کرنے کے قابل نہیں تھا کیونکہ انڈیا میں ٹیکس بہت زیادہ تھے۔ ٹیرف بہت زیادہ تھے اور مجھے لگتا ہے کہ ہارلے نے ٹیرف کی ادائیگی سے بچنے کے لیے انڈیا میں ایک فیکٹری بنائی ہے۔'
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ میں بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے اور 'دوسرے ممالک امریکہ میں فیکٹری یا پلانٹ لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ یہاں (امریکہ میں) مینوفیکچرنگ کرتے ہیں تو آپ کو کوئی ٹیرف ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں ایسا ہی ہونے والا ہے، اس سے امریکہ میں ملازمتیں بڑھیں گی۔'
![ٹرمپ اور مودی](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/b69c/live/99b1f960-eb55-11ef-bd1b-d536627785f2.jpg)
ٹرمپ نے مودی کے سامنے کیا کہا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ اس دوران انھوں نے ٹیرف کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
ٹرمپ نے کہا: 'ہم اپنے تجارتی تعلقات میں زیادہ باہمی عملیت لائیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں انڈیا کے غیر منصفانہ، بہت مضبوط ٹیرف میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ انڈیا کی طرف سے عائد ٹیرف انڈین مارکیٹ تک ہماری رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انڈیا بہت سی چیزوں پر 30 فیصد سے 60 فیصد اور یہاں تک کہ 70 فیصد ٹیرف لگاتا ہے، یہاں تک کہ کچھ معاملات میں اس سے بھی زیادہ ٹیرف ہے۔'
اس دوران ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انڈیا کو باہمی ٹیرف میں رعایت دینے کے لیے تیار ہیں؟
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا: 'انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ٹیرف لگانے والا ملک ہے، میں اس کے لیے انھیں مورد الزام نہیں ٹھہراتا، لیکن یہ کاروبار کرنے کا ایک الگ طریقہ ہے، بہت سخت ٹیرف کی وجہ سے انڈیا میں سامان بیچنا بہت مشکل ہے، اب ہم ایک باہمی ملک ہیں کوئی بھی ملک جو بھی ڈیوٹی عائد کرے گا ہم بھی وہی ڈیوٹی لگائیں گے جو صحیح ہے۔'
سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مودی اور ٹرمپسوشل میڈیا پر تنقید
سوشل میڈیا پر وزیر اعظم مودی کو امریکہ کے سامنے جھکنے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مودی نے انڈیا کو شرمسار کیا ہے۔
وینا جین نامی ایک صارف نے لکھا: 'صدر ٹرمپ نے پی ایم مودی کے ساتھ کھڑے ہوکر انڈیا پر جوابی محصولات کا اعلان کیا۔ یہ کیسی ڈپلومیسی ہے! مودی نے لفظی طور پر ہتھیار ڈال دیے اور اڈانی کو بچانے کے لیے ہمارے قومی مفاد کو قربان کر دیا۔'
خیال رہے کہ گوتم اڈانی کو انڈین وزیر اعظم مودی کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں انھیں امریکہ میں دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے جو ممکنہ طور پر اندرون و بیرون ملک ان کے عزائم کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
جب کسی امریکی صحافی نے مودی سے معروف انڈین تاجر اڈانی کے متعلق سوال کیا تو ان کا جو جواب تھا اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آئی اے ایس کے عہدے سے استعفی دینے والے سسی کانت سینتھل نے لکھا: 'مودی کی نام نہاد سفارتکار دو چیزوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے: ہر چیز کے لیے نہرو کو مورد الزام ٹھہرانا اور کسی بھی قیمت پر اڈانی کو بچانا۔‘
ابھی ٹرمپ نے انڈیا پر باہمی محصولات کا اعلان کیا تھا اور نریندر مودی ساتھ ہی کھڑے تھے جب ان سے اڈانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو مودی بظاہر پریشان نظر آئے۔ ان کی باڈی لینگویج، زبردستی کی مسکراہٹ، بے بسی اور غصہ سب ان کی تکلیف کو ہی ظاہر کر رہے تھے۔ انھیں 'ذاتی' کہنے سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے اڈانی سے منسلک اداروں پر فرد جرم عائد کی ہے۔'
انھوں نے مزید لکھا: 'انڈیا کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے انھوں نے ایک بار پھر عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کیا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی انڈیا کو مضبوط کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ملکی سیاسی حساب چکانے اور اپنے ساتھیوں کو بچانے کے بارے میں ہے!'
![مودی اور ٹرمپ](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/9b9b/live/cdc03cd0-eb55-11ef-a819-277e390a7a08.jpg)
انڈیا پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟
بسواجیت دھر کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ دونوں طرف سے مساوی ٹیرف چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یا تو امریکہ انڈیا کی زرعی مصنوعات پر ٹیرف بڑھائے گا یا وہ انڈیا سے امریکی زرعی مصنوعات پر ٹیرف کو کم کرنے کو کہے گا۔ انڈیا نے زرعی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف لگائے ہیں کیونکہ انڈیا میں 50 فیصد سے زیادہ لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں جہاں امریکہ کی طرح چھوٹی کمپنیاں اس پر منحصر ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر کسی چھوٹے کسان کا کسی بڑی کمپنی سے مقابلہ ہوتا ہے تو چھوٹے کسان کو نقصان ہوگا۔'
اجے سریواستو نے بی بی سی سے بات کے درمیان کہا کہ انڈیا پر اس کے اثرات ابھی واضح نہیں ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ ٹیرف مخصوص مصنوعات پر لاگو ہوں گے یا پورے شعبے پر۔
اجے سریواستو کہتے ہیں: 'اگر وہ مصنوعات پر باہمی محصولات عائد کرتے ہیں تو انڈیا پر زیادہ متاثر نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ جو مصنوعات انڈیا بھیجتا ہے وہ وہ مصنوعات نہیں ہیں جو انڈیا امریکہ کو بھیجتا ہے۔ انڈیا دوسرے قسم کی مصنوعات ہی امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ لیکن اگر امریکہ اس شعبے کے تحت محصولات عائد کرتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ انڈیا کو کچھ مصنوعات برآمد کرنے میں مشکل پیش آئے۔'
اس کے برعکس دہلی کے فور سکول آف مینجمنٹ کے پروفیسر اور تجارتی امور کے ماہر پروفیسر فیصل احمد کہتے ہیں کہ امریکہ کے باہمی ٹیکس کا خاصا اثر ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'کئی مصنوعات جیسے ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات پر انڈیا کی درآمدی ڈیوٹی زیادہ ہے۔ اگر امریکہ بھی ایک ہی شعبے کی مختلف مصنوعات پر اسی طرح کی درآمدی ڈیوٹی لگانا شروع کر دیتا ہے، تو انڈیا کے لیے یہ بہت مشکل ہو جائے گا۔ باہمی ٹیرف سے انڈیا کی برآمدات متاثر ہوں گی۔'
پروفیسر فیصل احمد کے مطابق انڈیا کو اس بارے میں امریکہ سے بات کرنی چاہیے کیونکہ انڈیا امریکہ سے درآمدات بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ ان کے بقول انڈیا کو امریکہ سے باہمی ٹیرف پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہنا چاہیے۔