چیمپئنز ٹرافی 2025 کا میلہ سجنے والا ہے، اگلے تین ہفتے تک اس کے میچز پاکستان کے تین اہم کرکٹ سینٹرز کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ہوں گے۔ البتہ انڈیا کے تمام میچز دبئی میں ہوں گے اور اگر انڈیا فائنل میں پہنچا تو فائنل بھی دبئی شفٹ ہوجائے گا، ورنہ فائنل لاہور میں ہوگا۔پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی شائقین کے لیے یہ ٹورنامنٹ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ 29 سال قبل 1996 ورلڈ کپ کے بعد پاکستان میں آئی سی سی کا کوئی اہم ٹورنامنٹ نہیں ہوا۔ لوگ اسی لیے چیمپئنز ٹرافی میں دلچسپی لے رہے ہیں، کرکٹ سٹیڈیمز بھی پچھلے چند ماہ کی محنت سے بہت خوبصورت اور جدید ٹیکنالوجی سے مزین ہوچکے ہیں۔پچھلی چیمپئنز ٹرافی آٹھ سال قبل 2017 میں ہوئی تھی، پاکستان نے فائنل میں انڈیا کو شکست دے کر ٹرافی جیت لی تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان دفاعی چیمپئن ہے۔ پچھلی چیمپئنز ٹرافی پاکستانی کرکٹ کے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی۔ سرفراز احمد تب کپتان تھے، اس کے بعد سرفراز بھی مشہور ہوئے اور قومی ٹیم نے وائٹ بال کرکٹ میں خاصی کامیابیاں حاصل کیں، کئی سیریز جیتی گئیں۔تب پاکستانی ٹیم میں کئی نسبتاً ینگ کھلاڑی شامل تھے جو اس ٹورنامنٹ کے بعد مشہور ہوئے۔ فخر زمان نے فائنل میں سینچری بنا کر شہرت کمائی۔ شاداب خان بھی اس ٹورنامنٹ کے بعد سٹار بنے، حسن علی کی کارکردگی بھی اچھی رہی، محمد عامر نے بہت سوں کو حیران کیا۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ چیمپئنز ٹرافی پاکستانی کرکٹ کو کیا دیتی ہے؟ اس بار کپتان محمد رضوان ہیں، سرفراز کی طرح رضوان بھی وکٹ کیپر ہیں۔فخر زمان، بابراعظم، رضوان، سلمان آغا، شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف وغیرہ پر شائقین کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ توقعات پر کس حد تک پورا اترتے ہیں؟خوشدل شاہ اور فہیم اشرف خاصی ناکامیوں اور دو ڈھائی برس تک ٹیم سے باہر رہنے کے بعد واپس آئے ہیں، ان کی سلیکشن پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ یہ دونوں اپنی پرفارمنس سے ناقدین کو خاموش کرا سکتے ہیں یا پھر بری کارکردگی ہمیشہ کے لیے ان کا انٹرنیشنل کیریئر ختم کر سکتی ہے۔طیب طاہر، سعود شکیل، کامران غلام اور ادھر ابرار احمد کے لیے موقع ہے کہ اچھی کارکردگی دکھا کر سٹارز بن سکیں۔ سعود شکیل ٹیسٹ ٹیم کا لازمی حصہ ہیں، انہیں نائب کپتان بھی بنایا گیا، ون ڈے ٹیم کے لیے اب موقع ملا ہے تو ان کی پرفارمنس انہیں ون ڈے سکواڈ کا مستقل حصہ بنا سکتی ہے۔ بولنگ میں حارث رؤف جو سہ ملکی ٹورنامنٹ میں ان فٹ ہو گئے تھے، ان کی فٹنس بھی توجہ کا مرکز ہوگی۔پاکستان کا پول قدرے آسان لگ رہا ہے۔ پاکستان کو انڈیا، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش سے میچز کھیلنے ہیں۔ ان میں بنگلہ دیش نسبتاً کمزور حریف ہے، یعنی پاکستان اگر بنگلہ دیش کو ہرا کر نیوزی لینڈ یا انڈیا میں سے کسی ایک کو ہرا دے تو سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ یہی بات نیوزی لینڈ اور انڈیا بھی سوچ رہے ہوں گے۔پیپرز کے مطابق پاکستانی ٹیم زیادہ بیلنس اور طاقتور نظر نہیں آ رہی۔ ہماری لوئر مڈل آرڈر رنز نہیں کر پا رہی، پاور ہٹنگ بھی نہیں ہو رہی۔ مڈل آرڈر میں رضوان اور سلمان آغا نے جنوبی افریقہ کے خلاف ریکارڈ پارٹنرشپ کی، دونوں فارم میں ہیں۔
پاکستانی شائقین بابر اعظم سے بڑی اننگز کی توقع کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
فخر زمان بھی اچھا کھیل رہے ہیں مگر بابر اعظم خاصے عرصے سے بڑی اننگ نہیں کھیل پا رہے۔ اگرچہ بابر کے بلے پر گیند آ رہی ہے، وہ اچھی ٹائمنگ سے گیپ میں سٹروکس بھی کھیل رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں اچھے سٹارٹ کے بعد بھی ففٹی تک نہ پہنچ پائے، 30 سے اوپر نہ جا سکے۔ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی کارکردگی کا بابر اعظم کے رنز کرنے سے بڑا قریبی تعلق ہے۔
ون ڈاؤن پر مسئلہ چل رہا ہے، پہلے کامران غلام اور پھر سعود شکیل مواقع ملنے پر بھی رنز نہیں کر پا رہے۔ طیب طاہر نے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں نمبر چھ پر کھیلتے ہوئے نیوزی لینڈ کے خلاف اچھی بیٹنگ کی، ان سے توقعات وابستہ ہیں۔ خوشدل شاہ اور فہیم اشرف سے بیٹنگ میں رنز نہیں ہو پائے، بولنگ بھی اوسط رہی۔ ابرار فائنل میں قدرے مہنگے رہے۔اصل مسئلہ مگر ڈیتھ اوورز میں فاسٹ بولنگ ہے۔ شاہین شاہ آفریدی نے جنوبی افریقہ کے خلاف آخری تین اوورز میں 55 رنز دیے۔ پھر اگلے میچ میں حسنین سے آخری اوور کرایا تو وہ بھی مہنگے رہے۔ اگر پاکستانی فاسٹ بولرز آخری 10 اوورز میں رنز نہ روک پائے تو بیٹنگ کے لیے مشکل ہوجائے گی، بڑے ہدف کا تعاقب کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستانی ٹیم کے پاس کوالٹی سپن بولنگ کی کمی لگ رہی، خوشدل اور سلمان آغا پارٹ ٹائم سپنر ہیں، سپیشلسٹ نہیں۔جبکہ اس پول میں نیوزی لینڈ اور انڈیا دونوں اچھی فارم میں لگ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم تو مکمل پیکیج لگ رہی ہے، اس کی بیٹنگ فارم میں ہے اور بولنگ بھی اچھی جا رہی ہے، سینٹنر کی قیادت میں سپن اٹیک عمدہ ہے۔ خاص کر درمیانے اوورز میں سینٹنر، بریسویل کی گیندوں پر رنز بنانے آسان نہیں۔ بیٹنگ میں کانواے، ولیمسن، مچلز، فلپس، لیتھم سب بہت اچھی فارم میں ہیں۔انڈین ٹیم نے انگلینڈ کو ون ڈے سیریز میں بری طرح ہرایا ہے۔ شبھمن گل فارم میں ہے، روہت شرما نے بھی ایک سینچری بنا ڈالی، کوہلی، راہول، شریاس، پانڈے، جدیجا وغیرہ فارم میں ہیں۔ انڈیا کو بمرا کے نہ ہونے سے کچھ نقصان ہوا اور ان کی سلیکشن کمیٹی نے سراج کو بھی شامل نہیں کیا، مگر ٹیم خاصی بیلنس اور مضبوط ہے۔انڈیا کے پاس شاید ٹورنامنٹ کے سب سے اچھے آل راؤنڈر ہیں۔ ہاردک پانڈیا، جدیجا اور پٹیل یہ تینوں ورلڈ کلاس وائٹ بال آل راؤنڈر ہیں جبکہ ہرشیت رانا بھی کسی حد تک بیٹنگ کر سکتے ہیں۔ اس سے بیٹنگ نمبر نو تک چلی جاتی ہے۔ انڈیا کو بظاہر سیمی فائنل سے باہر رکھنا خاصا مشکل ہے۔
آسٹریلیا کی ٹیم بڑی تگڑی اور مضبوط ہے، مگر اسے اپنے تین مرکزی فاسٹ بولرز کے بغیر کھیلنا پڑ رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
دوسرا پول زیادہ سخت ہے کیونکہ وہاں انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ کے ساتھ افغانستان کی ٹیم ہے۔ چاروں ٹیمیں اچھی اور مضبوط ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم اچھی ہے، مگر انڈیا کے خلاف سیریز میں وہ زیادہ اچھا نہیں کھیل سکی، البتہ مقامی کنڈیشنز سے وہ ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ انگلینڈ کو تجربہ کار ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہیں جو کسی بھی میچ میں پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ اس کے کئی کھلاڑی پی ایس ایل بھی کھیلتے رہے ہیں، اس لیے انہیں مقامی پچوں کا بھی تجربہ ہے۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی مضبوط اور بیلنس ہے۔ اس کے چھ سات تجربہ کار کھلاڑی ڈومیسٹک ٹی 20 لیگ کھیل کر آرہے ہیں۔ کیشو مہاراج اور تبریز شمسی جیسے سپنرز کے ساتھ مارکرم کی خدمات حاصل ہیں، جبکہ فاسٹ بولنگ کا شعبہ بھی مضبوط ہے۔ جنوبی افریقہ چیمپئنز ٹرافی کی سیمی فائنلسٹ ٹیموں میں سے ایک ہوسکتی ہے۔آسٹریلیا کی ٹیم بڑی تگڑی اور مضبوط ہے، مگر اسے اپنے تین مرکزی فاسٹ بولرز کے بغیر کھیلنا پڑ رہا ہے۔ کمنز اور ہیزل وڈ انجرڈ ہیں جبکہ سٹارک اپنے نجی مسائل کی وجہ سے نہیں کھیل پا رہے، مارش بھی زخمی ہیں جبکہ آل راؤنڈر سٹائنس نے اچانک ون ڈے ٹیم سے ریٹائرمنٹ لی ہے۔ اس لیے آسٹریلیا کی ٹیم قدرے غیر متوازن لگ رہی ہے، تاہم آسٹریلین کھلاڑی ذہنی طورپر مضبوط ہیں اور پریشر میں ان کے نوجوان کھلاڑی بھی پرفارم کر جاتے ہیں۔ آسٹریلیا بہرحال اس وقت بظاہر فیورٹ نہیں لگ رہی۔افغانستان بھی اس پول کی خطرناک ٹیم ہے۔ اس کا سپن اٹیک بہت خطرناک ہے اور ٹاپ آرڈر تجربہ کار بلے بازوں پر مشتمل، گرباز، شاہدی، زدران وغیرہ پرفارم کر گئے تو بولنگ ایسی ہے کہ مناسب ہدف کا دفاع کر سکے۔ اس پول سے افغانستان اور جنوبی افریقہ قدرے زیادہ خطرناک لگ رہے ہیں، تاہم چاروں ٹیمیں ایسی ہیں کہ کوئی بھی سیمی فائنل کھیل سکے۔پاکستانی ٹیم کا پہلا میچ 19 فروری کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف، 23 فروری کو دبئی میں انڈیا کے خلاف جبکہ 27 فروری کو پنڈی میں بنگلہ دیش کے خلاف ہے۔ سب میچز پاکستانی وقت کے مطابق دو بجے شروع ہوں گے۔
پاکستانیوں کی زیادہ دلچسپی انڈیا کے ساتھ میچ میں ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس ٹورنامنٹ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ون ڈے کرکٹ کے لیے بہت ضروری ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ٹی20 کرکٹ اس قدر زیادہ ہوئی کہ ون ڈے کرکٹ کی طرف توجہ کم ہوگئی، مسلسل دو ٹی20 ورلڈ کپ ہوئے پھر تقریباً ہر ملک کی اپنی ٹی20 لیگ ہے۔
ون ڈے کرکٹ کی اہمیت کم ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے چار سال قبل چیمپئنز ٹرافی نہیں ہوئی۔ ایک وقت میں تو یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اس ٹورنامنٹ کو ختم کر دیا جائے گا۔ ٹیسٹ چیمپئن شپ کو کچھ زیادہ پذیرائی نہ ملنے پر پھر سے چیمپئنز ٹرافی کو زندہ کیا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کی مقبولیت اور عوامی پذیرائی مستقبل کی ون ڈے کرکٹ کا بھی فیصلہ کرے گی۔یہ فیکٹر بھی اہم ہے کہ واحد ٹورنامنٹ ہے جہاں دنیا کی ٹاپ آٹھ ٹیمیں میچز کھیل رہی ہیں، اس میں کمزور ٹیموں یا آئی سی سی کوالیفائر ٹیموں کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی۔ چیمپئنز ٹرافی کے لیے خاصے اچھے انتظامات کیے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ لوگ میچز پسند کریں گے اور کانٹے دار کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ہم پاکستانیوں کی زیادہ دلچسپی انڈیا کے ساتھ میچ میں ہے اور اس پر کہ پاکستان سیمی فائنل کھیلے، اس کے بعد ظاہر ہے فائنل اور پھر ٹورنامنٹ جیتنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔