سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں ’مکمل ناکامی‘ سے متعلق اسرائیلی فوج کی پہلی رپورٹ میں کیا اعترافات کیے گئے ہیں؟

اسرائیلی فوج کی جانب سے سات اکتوبر کو حماس کے حملوں سے متعلق پہلی باقاعدہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ فوج ’اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ہے۔‘ اس رپورٹ میں اسرائیلی فوج اس بات کا اعتراف کرتی ہوئی نظر آتی کہ اس کو حماس کے ارادوں کا اداراک نہیں ہو سکا جبکہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
تصویر
BBC
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے حماس کی عسکری صلاحیتوں کو نظر انداز کیا

اسرائیلی فوج نے حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج ’اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ہیں۔‘

حماس کے اس ہی حملے کے ردِعمل میں اسرائیل نے غزہ میں ایک طویل جنگ کا آغاز کیا تھا جو 15 ماہ جاری رہنے کے بعد گذشتہ مہینے طے پانے والے جنگ بندی کے ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوئی ہے۔

19 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں نے 251 شہریوں کو یرغمال بنایا۔

اس رپورٹ میں کوئی ڈرامائی انکشافات تو نہیں کیے گئے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج اس بات کا اعتراف کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اس کو حماس کے ارادوں کا اداراک نہیں ہو سکا اور اُن کی طرف سے اس عسکری گروہ کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج نے غزہ کی طرف سے اسرائیل کو درپیش سکیورٹی خطرات کو ترجیح نہیں دی اور یہ کہ اُن کی پہلی ترجیح ایران اور حزب اللہ تھی۔

اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ کے لیے اُن کی پالیسی ’تضادات پر مبنی تھی اور یہ کہ حماس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس (تنظیم) کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’کنفلکٹ مینجمنٹ‘ کی راہ اپنائی اور یہ تصور کر لیا کہ حماس ’باقاعدہ جنگ شروع کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی تیاری کر رہی ہے۔‘

اسرائیلی فوج
Getty Images
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج نے ’یہ تصور کر لیا کہ حماس باقاعدہ جنگ شروع کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی تیاری کر رہی ہے‘

سنہ 2018 کے بعد سے منظرِ عام پر آنے والے شواہد اس بات کی ہھی گواہی دیتے تھے کہ اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیم ’حماس‘ کوئی بڑا منصوبہ تو بنا رہی ہے لیکن اسے ’غیر حقیقی یا ناقابلِ عمل‘ تصور کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہی سوچا گیا تھا کہ یہ ’حماس کے کثیر المدتی ارادے ہیں اور کوئی ایسا فوری خطرہ نہیں جس پر کارروائی کی جائے۔‘

اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے کچھ ماہ پہلے ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے نئی رپورٹ مرتب کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حماس کا منصوبہ صرف ایک سوچ نہیں ہے بلکہ ’آپریشنل ٹریننگ پر مبنی ایک مستند منصوبہ ہے۔‘

تاہم یہ رپورٹ ملٹری انٹیلیجنس کے سینیئر حکام کے علم میں نہیں لائی گئی تھی۔

رپورٹ میں ایسے بہت سے عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جس کے سبب اسرائیلی فوج سے حماس کے ارادوں اور خطرات کو جانچنے میں غلطی ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق ’اس سوال پر کوئی گہری گفتگو نہیں ہوئی کہ ’اگر ہم غلط ہوئے تو کیا ہو گا؟‘

وقت کے ساتھ ساتھ ’حماس کے حوالے سے انٹیلیجنس کے اندازوں اور حقیقت کے درمیان ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا۔‘

رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنے دشمن کے دنیا کو دیکھنے کے نظریے، کلچر، مذہب، زبان اور تاریخ کو سمجھنے میں کوتاہی برتی۔

اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ میں اصلاح کی ضرورت ہے جس کے تحت ’دانشمندی، دوسروں کو سُننے، سیکھنے، بحث کرنے اور تعمیری تنقید‘ کے کلچر کو فروغ دینے کی ضروت ہے۔

اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ انٹیلیجنس کے اعلیٰ ذرائع کی حفاطت کی خواہش بھی 7 اکتوبر کے حملے کو روکنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ بنی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کو فوج کا غزہ ڈویژن ’کئی گھنٹوں کے لیے شکست کھا گیا تھا‘ اور وہ نہ حملے کو سمجھ پائے اور نہ یہ فیصلہ کر پائے کہ اس سے نمٹنا کیسے ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق ملک کی فضائیہ نے حماس کے حملے پر فوری ردِعمل تو دیا لیکن اسے ’اسرائیلی فوجی اہلکاروں، عام شہریوں اور دہشتگردوں کے درمیان فرق کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‘

رپورٹ میں کچھ ایسے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں عام شہریوں سے پہلے زخمی فوجی اہلکاروں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی نے پیر کو یہ رپورٹ اپنے کمانڈرز کو پیش کی اور کہا کہ وہ ان تمام ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

اسرائیلی فوج
Getty Images
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج نے غزہ کی طرف سے درپیش سکیورٹی خطرات کو ترجیح نہیں دی اور اُن کی پہلی ترجیح ایران اور حزب اللہ تھے

ایک ویڈیو پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ ’میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ میں 7 اکتوبر کو فوج کا کمانڈر تھا اور نہ صرف میں اپنا ذمہ دار ہوں بلکہ آپ سب کی (ناکامیوں کی) بھی ذمہ داری لیتا ہوں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی گذشتہ مہینے ہی حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر چکے ہیں اور انھوں نے اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ریاستی سطح پر ایسی انکوائری غزہ جنگ کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہو پائے گا۔

نتن یاہو نے اس حملے کو روکنے میں ناکامی کی کوئی ذمہ داری نہیں لی ہے اور ان کے ناقدین کا الزام ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اس حوالے سے اپنی ذاتی ناکامی کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

حماس کے حملے کے ردِعمل میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے جن میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 48 ہزار 365 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.