کہتے ہیں کہ آئرلینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں سانپ نہیں پائے جاتے، لیکن انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں سانپوں کی پوجا ہوتی ہے، اور انہیں دیوتاؤں کا اوتار مانا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندو دیوتا شیو کے مجسمے کے ساتھ ان کی گردن سے سانپ لپٹا نظر آتا ہے۔لیکن ہم یہاں نہ تو آئرلینڈ کی بات کر رہے ہیں نہ ہی ہندو مذہب میں سانپ کی پوجا کی، بلکہ ایک ایسے گاؤں کی بات کر رہے ہیں جہاں دنیا کے خطرناک ترین سانپ ہوتے ہیں اور یہ وہاں کسی پالتو جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔پالتو اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سانپ گاؤں والوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں ایسے سانپ ہوتے ہیں جو زہریلے نہیں ہوتے اس لیے بچے ان سے کھیلتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔
یہ مغربی ریاست مہاراشٹر کا گاؤں شیتپھل ہے۔ یہ شعلہ پور ضلع میں آتا ہے اور معروف شہر پونے سے کوئی 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
انڈین میڈیا کی مختلف رپورٹس کے مطابق اس گاؤں میں سانپ صرف گھروں میں ہی نہیں بلکہ کھیتوں، درختوں اور یہاں تک کہ سونے کے کمرے کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔گاؤں والے ان سانپوں سے بالکل نہیں ڈرتے بلکہ ان کے ساتھ کھیلتے ہیں اور انہیں دودھ پلاتے ہیں۔یہاں کے لوگ سانپوں کو اپنے گھر کا حصہ مانتے ہیں اور گھر کے افراد کی طرح ان کے لیے کھانا بھی بناتے ہیں۔ جبکہ شیتپھل کی گلیوں میں آپ کو بچے ان سے کھیلتے بھی نظر آتے ہیں۔وہ بستے میں اپنے ساتھ سانپوں کو سکول بھی لے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنی پڑھائی بھی کرتے ہیں۔ہندی اخبار امر اجالا کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کے روہتک میں بھی ایک گاؤں ہے جہاں سانپوں کا بسیرا ہے اور وہ وہاں کے لوگوں کو نہیں کاٹتے۔
شیتپھل کے لوگ سیاحوں کو سانپوں کو سنبھالنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ (فوٹو: بشکریہ انڈیا ڈاٹ کام)
رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں گذشتہ 300 سالوں سے ایک روایت چلی آ رہی ہے جس کے تحت یہاں سانپ کو مارنا بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ آج تک سانپ کے ڈسنے سے کسی کی موت نہیں ہوئی اور سانپ اکثر آکر لوگوں کو کاٹ لیتے ہیں لیکن مارے نہیں جاتے۔
اس کی کہانی کچھ اسی طرح ہے لیکن یہاں ہم شیپتھل گاؤں کی بات کر رہے ہیں۔ہندی اخبار جاگرن کے مطابق شیتپھل گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے سانپ پالنا شروع کیا تھا۔ تب سے یہ روایت نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ گاؤں والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سانپوں کو کیسے پکڑنا ہے اور کیسے پالنا ہے۔ لوگ بچپن سے ہی سانپوں کو سنبھالنا سیکھ لیتے ہیں۔یہ سانپ کوئی اور نہیں بلکہ کنگ کوبرا ہیں جنھیں مقامی آبادی ناگ یا گوہمن کہتی ہے۔ کنگ کوبرا انتہائی زہریلا سانپ ہے اور اس کا ڈسا چند گھنٹوں کا ہی مہمان ہوتا ہے۔سانپ کی انسان کے ساتھ رہائش کی وجہ سے یہ گاؤں سیاحوں کی پسندیدہ جگہ بن گیا ہے، جہاں لوگ بچوں کو سانپوں کو ہاتھ میں لیے دیکھ سکتے ہیں۔جاگرن کی رپورٹ کے مطابق گاؤں والے وہاں آنے والے سیاحوں کو سانپوں کو سنبھالنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔تاہم شیتپھل گاؤں میں سانپوں کو پالنا آسان نہیں ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اس کی پرورش ان کے لیے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ انہیں خاص قسم کی خوراک مہیا کرنی ہوتی ہے۔
انڈیا میں سانپوں کا ایک تہوار بھی منایا جاتا ہے جسے ناگ پنچمی کہتے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)
انہوں نے خوراک کی بابت تو کچھ نہیں بتایا لیکن یہ کہا کہ سانپوں کو بیماریوں سے بچانا بھی ان کے لیے ایک چیلنج ہے۔
حکومت اس گاؤں کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت نے گاؤں کو سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت گاؤں والوں کو سانپوں کے تحفظ کی تربیت بھی فراہم کر رہی ہے۔یہ فطرت کے ساتھ انسان کی حیرت انگیز ہم آہنگی کا نمونہ ہے۔ شیتپھل گاؤں انڈین ثقافت کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا ایک سبق ہے اور یہ کہ پیار اور محبت کے ساتھ زہریلے جانوروں کو بھی ہمنوا اور دوست بنایا جا سکتا ہے۔انڈیا میں سانپوں کا ایک تہوار بھی منایا جاتا ہے جسے ناگ پنچمی کہتے ہیں۔ ناگ پنچمی ایک ہندو تہوار ہے جس میں سانپوں یا ناگوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ یہ ہندو کیلنڈر شراون کے مہینے میں چودھویں کے چاند کے پانچویں دن منایا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر مون سون کے شباب پر جولائی اگست کے مہینے میں آتا ہے جب سانپ اپنے بلوں سے نکلتے ہیں اور انڈیا میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ہندو عقیدت مند اپنے خاندان کی بھلائی کے لیے ناگوں کی پوجا کرتے ہیں، اور اسے برکت کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔