ٹرمپ نے غزہ کے رہائشیوں کو بظاہر دھمکاتے ہوئے کہا کہ ایک بہترین مستقبل ان کا منتظر ہے لیکن اگر یرغمالیوں کو چھپائیں گے تو آپ مارے جائیں گے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہو۔ اس سے قبل انھوں نے دسمبر میں کہا تھا کہ اگر ان کے عہدہ سنبھالنے تک تمام یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو حماس کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گیامریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو ’آخری وارننگ‘ دیتے ہوئے غزہ میں یرغمال بنائے گئے تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر جاری ایک پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میں اسرائیل کو ہر وہ چیز مہیا کرنے جا رہا ہوں جو اس کام (حماس کو شکست) کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے، اگر جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا نہ ہوا تو حماس کا ایک بھی رکن نہیں بچے گا۔‘
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی تاہم امریکی صدر نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی کہ وہ اسرائیل کو کس قسم کی مدد فراہم کرنے جا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس بات کی تصدیق کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے کہ امریکہ حماس سے قیدیوں کی رہائی کے لیے براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکہ حماس سے براہ راست مذاکرات سے اجتناب کرتا آیا ہے۔ عرصہ دراز سے امریکی انتظامیہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم سے براہ راست بات چیت نہیں کرتے جسے انھوں نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہو۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’تمام یرغمالیوں کو رہا کریں، بعد میں نہیں ابھی اور ان تمام افراد کی لاشیں فوراً واپس کی جائیں جنھیں آپ نے قتل کیا، ورنہ آپ کا کھیل ختم۔‘
’(حماس کی) قیادت کے لیے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ غزہ سے نکل جائے۔‘
انھوں نے غزہ کے رہائشیوں کوبظاہر دھمکاتے ہوئے کہا کہ ایک بہترین مستقبل ان کا منتظر ہے لیکن اگر یرغمالیوں کو چھپائیں گے تو آپ مارے جائیں گے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہو۔ اس سے قبل انھوں نے دسمبر میں کہا تھا کہ اگر ان کے عہدہ سنبھالنے تک تمام یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
ٹرمپ کا حالیہ بیان وائٹ ہاؤس میں ان کی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی پانے والے یرغمالیوں سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے براہِ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے آغاز سے قبل اسرائیل سے اس بارے میں مشاورت کی گئی تھی۔
کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ ہر وہ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں جو امریکیوں کے حق میں ہے۔
اں کا مزید کہنا تھا کہ یرغمالیوں کے لیے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی جانب سے نک نیتی سے کی گئی کوششیں امریکی عوام کے فائدے کے لیے تھی۔
ایک فلسطینی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس اور امریکی حکام کے درمیان دو براہِ راست ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس سے قبل متعدد رابطے بھی ہوئے تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب بھی غزہ میں 59 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 24 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ ان قیدیوں میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے سب سے پہلے خبر نشریاتی ادارے ایگزیوس نے دی تھی۔ ان کے مطابق فریقین کی قطر میں ملاقات ہوئی تھی جس میں امریکی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ جنگ ختم کرنے کے معاہدے پر بھی بات ہوئی تھی۔
امریکی انتظامیہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم سے براہ راست بات چیت نہیں کرتے جسے انھوں نے دہشت گرد قرار دیا ہومشرق وسطیٰ کے لیے سابق امریکی نائب معاون وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کو اپنے شہریوں کی واپسی کے لیے ’زیادہ متحرک‘ ہونے کی ضرورت ہے۔
مک ملرائے، جو سی آئی اے افسر بھی رہ چکے ہیں، نے مزید کہا کہ اگر اس سلسلے میں اسرائیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے کام نہ لیا لیا گیا تو اُنھیں اپنے شہریوں کو واپس لانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست بات چیت کے حوالے سے ’اپنا موقف سامنے رکھ دیا ہے‘ لیکن اس بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بوہلر نے حالیہ ہفتوں میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
یاد رہے کہ 2012 سے دوحہ میں حماس کا دفتر موجود ہے۔ مبینہ طور پر وہاں یہ دفتر اوباما انتظامیہ کی درخواست پر قائم کیا گیا تھا۔
قطر ایک چھوٹی لیکن بااثر خلیجی ریاست ہے جو امریکہ کے کلیدی اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ وہاں ایک بڑا امریکی فضائی اڈہ بھی موجود ہے اور اس نے ایران، طالبان اور روس سمیت کئی اہم سیاسی مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
امریکا اور مصر کے ساتھ ساتھ قطر نے بھی غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بات چیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔